Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعرات، 24 مارچ، 2016

    ٹائٹن کے عجیب ریت کے ٹیلے



    شروع سے ہی کیسینی وی آئی ایم ایس (بصری اور زیریں سرخ نقشہ ساز طیف پیما - (Visual and Infrared Mapping Spectometer اور آئی ایس ایس (تصویری سائنس ذیلی نظام - (Imaging Science Subsystem کے آلات نے گہرے علاقوں کو چاند کے نقاب زدہ چہرے سے نکال کر منکشف کیا۔ مزید تفصیلی ریڈار نے کچھ خطی خدوخال کو حل کرلیا جو کم از کم ان کچھ تاریک علاقوں کو ڈھانپے ہوئے تھے ۔ اطلاقی طبیعیاتی تجربہ گاہ کے رالف لورینز کہتے ہیں کہ پہلے پہل حاصل کردہ تصاویر گمراہ کن تھیں۔

    خاکہ 7.6 سفید میتھین کے طوفانی بادل سرمئی سطحی خدوخال پر تیرتے ہوئے کیسینی ریڈار سے عظیم جنوبی جھیل اونٹاریو لاکوس کے علاقے کی لی گئی تصویر میں دکھائی دے رہے ہیں۔ تاریک علاقوں کے اندر بدلتے ہوئے نمونوں کو سطح پر دیکھیں جب روشن بادل ان کے اوپر تیرتے ہیں۔

    "ایک طرح سے ہم اس وقت کافی بد قسمت رہے جب ہم نے ٹائٹن کو پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ ہم چیزوں پر اس طرح کا سرنامہ لگا رہے تھے مثلاً "بلی کی کھرنچیں۔" اکتوبر ٢٠٠٤ء میں پہلی قریبی ریڈار کی پرواز ناقابل فہم تھی۔"

    بہرحال کیسینی کے دوسرے ریڈار کی اڑان میں جس کو شاندار ہائی گنز کے کچھ ہفتوں بعد وہاں بھیجا گیا تھا کچھ قابل فہم ساختیں سامنے آئیں۔ ریڈار کے راستے میں دو عظیم شہابی گڑھے اور ایک الگ دریاؤں کی شاخوں کا نظام سامنے آیا۔ "ہائی گنز کھوجی پہلے ہی دریائی گزر گاہوں کو کافی قریب سے دیکھ چکا تھا، لہٰذا یہ دریافت پہلے ہی ہائیگنز کھوجی تاریخی حادثے میں لے اڑا تھا۔ لیکن اس اڑان میں یہ تمام تاریک پٹیاں بھی ملی تھیں اور یہ مکمل طور پر اس علاقے میں متوازی نہیں تھیں۔ یہ اکثر "Y" کی شکل میں کامیابی سے شاخ در شاخ بٹ رہی تھیں۔ ہمیں لگا کہ شاید یہ ہوائی - ہوا کے چلنے سے بننے والی – ہیں تاہم ہمیں یقین نہیں تھا وہ کسی اور قسم کی سطح پر بہنے والی جیسا کہ یہ دریائی مٹی کا جمع ہونا جیسی نہیں تھیں۔ یہ واضح طور پر ان چیزوں سے الگ تھی جس کو ہم دریاؤں کے پاس دیکھتے ہیں لیکن ہم اس کے بارے میں پر یقین نہیں تھے۔" لورینز کہتے ہیں۔

    ایک نظریہ جس پر محققین کام کر رہے تھے وہ ان ریڈار سے حاصل کردہ ساختوں کا مطالعہ ہے جنہیں انٹارکٹکا میں دیکھا گیا ہے اور جو عظیم ٹیلے کہلاتے ہیں۔ یہ پہاڑ نہیں ہیں؛ ان کی مغلوب مقامیت لگ بھگ کچھ بھی نہیں ہے۔ لیکن کافی حد تک لورینز اور ان کے رفقائے کار ان چیزوں سے گمراہ ہو گئے جنھیں انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا لہٰذا انہوں نے شہابی گڑھوں اور دریائی گزر گاہوں پر توجہ مرکوز رکھی۔ صرف پانچ مہینے بعد ایک اور اڑان بھری گئی (اکتوبر ٢٠٠٥ء ) جس میں انہوں نے ٹائٹن کے اس حصّے کو قریب سے دیکھا جو استواء کے قریب تھا اور جس کو پہلی اڑان میں اتنے نزدیک سے نہیں دیکھا گیا تھا یہ وہ حصّہ تھا جہاں پر دوربینوں نے بڑے تاریک پیوند دیکھے تھے۔ ریڈار سے حاصل کردہ نئی تصاویر میں یہ خطی خدوخال مکمل طور پر ڈھکے ہوئے تھے، اور اب یہ صرف تاریک پٹیاں روشن پس منظر میں نہیں تھیں، لورینز کہتے ہیں۔ " ہم ریڈار سے حاصل کردہ تصاویر میں روشن اور تاریک نمونوں کو دیکھ سکتے تھے ، ریڈار کی جانب اور اس سے دور ڈھلوانیں تھیں، لہٰذا ہمیں معلوم ہوا کہ یہ پہاڑیاں ہیں۔ یہ کافی یکساں تھیں ، چند کلومیٹر دور پھیلی ہوئی، کچھ جگہوں پر یہ بیس کلومیٹر سے کے کر سینکڑوں کلومیٹر لمبی تھیں۔ کیونکہ یہ اٹھی ہوئی تھیں لہٰذا ہمیں پہلا سراغ جمع ہوئے ٹیلوں کے لئے ملا، اور اصل میں ہوا بھی ایسا ہی۔ جس لمحے بالآخر ہمیں یہ معلوم ہوا ہم خلائی جہاز سے حاصل کردہ نامب ریت کا سمندر دیکھ رہے تھے جہاں اگرچہ ریت مختلف تھی اور قوّت ثقل بھی الگ تھی اور ہوا بھی مختلف تھی لیکن پھر بھی آپ بعینہ وہی دیکھ رہے تھے۔ یہ بڑے خطی ٹیلے ٢ کلومیٹر تک پھیلے ہوئے تھے اور سو اور دو سو میٹر اونچے اور دسیوں سے لے کر سینکڑوں کلومیٹر طویل تھے۔ 

    کیسینی کے زحل پر پہلے چار برسوں میں سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ ان ٹیلوں سے سطح کا ممکنہ طور پر ١٠ فیصد حصّہ گھرا ہوا ہے۔ مزید چھان بین کے بعد یہ تبدیل ہو گیا، بریگھم ینگ یونیورسٹی کے سیاروی ریتیلے ٹیلوں کے ماہر جانی ریڈ با کے مطابق۔ " اب ہمارا اندازہ ہے کہ کم از کم ٹائٹن کی ٢٠ فیصد سطح ان ٹیلوں سے ڈھکی ہے شاید ہو سکتا ہے کہ اس سے بھی زیادہ۔" موازنے کے لئے دیکھیں کہ زمین کی سطح ٥ فیصد جبکہ مریخ کی سطح ١ فیصد سے بھی کم ان ٹیلوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ ٹائٹن کے لمبے ٹیلے ایک طرح سے موسمی باد نما کا کام سرانجام دیتے ہیں، اور چاند کی پر چلنے والی ہواؤں کا اتباع کرتے ہیں۔ ٹائٹن کا کرۂ فضائی زمینی سطح سمندر پر موجود کرۂ فضائی کی کثافت سے کم از کم ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔ صفر درجے سے ١٤٣ درجے نیچے سست رفتار ہوا ٹائٹن کی سطح پر اس طرح چلتی ہے جیسا کہ سیاروی مدو جذر کی موجیں۔ ٹیلوں کی سمت اور شکل بتاتی ہے کہ ہوائیں مغرب سے مشرق کی جانب چلتی ہیں۔ فروری ٢٠٠٩ء تک محققین نے ١٦ ہزار ٹیلوں کو نقشہ بند کرنے کے بعد ان کی تصدیق کردی ہے۔ مزید ملنے کی توقع ہے۔

    خاکہ 7.7 عظیم ریت کے سمندر جو ٹائٹن کے استوائی علاقوں پر پھیلے ہوئے ہیں کیسینی کے تصاویر اتارنے والے نظام میں کہر میں تاریک انباروں کی صورت میں دکھائی دیئے۔

    ٹائٹن کے ٹیلے سیارے کی سب سے عجیب خاصیت میں سے ایک ہیں۔ ان کی نوعیت کو سمجھنے کے جتنا ٹائٹن کی سطح کو دیکھا جا سکے دیکھا جانا چاہئے، بین کلارک کہتے ہیں۔ "ٹائٹن کی سطح میں چٹانیں ہیں تاہم چٹانیں پانی کی برف سے بنی ہوئی سمجھی جاتی ہیں۔ آپ کے پاس یہاں پانی ہے لیکن وہ ٹھوس پتھر کی طرح جمع ہوا ہے۔" اگر یہ زمینی ٹیلوں کے مشابہ ہوتے - سیلیکا ریت فرش کی چٹان سے نکل کر اوپر آ جاتی – ٹائٹن کے ٹیلے برف کے ہونے چاہئیں۔ لیکن ٹائٹن کے ٹیلے صرف پانی کی برف سے نہیں بنے ہیں۔ اصل میں وہ اس مادّے سے بنے ہو سکتے ہیں جو آسمان سے گرا ہو۔ کیسینی کے بصری اور زیریں سرخ نقشہ ساز طیف پیما تمام ٹیلوں کو تاریک دیکھتے ہیں۔ اگر وہ پانی کی برف کے ہوتے تو روشن نظر آتے۔ کیسینی کے ریڈار نے ایک اور سراغ دیا۔ بصری تصویر مہیا کرنے کے علاوہ ریڈار نے اس بات کے بارے میں بھی جانکاری دی کہ مادّہ کس طرح کا برتاؤ کرتا ہے۔ ریڈار کی موجیں سطح سے ٹکراتے ہوئے برق گزاری مستقل کو ناپتی ہیں، اعداد و شمار سائنس دانوں کو مادّے کے حجم اور ہئیت کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ٹائٹن کے ٹیلے وہ برق گزار مستقل دکھا رہے ہیں جو پانی کے ساتھ میل نہیں کھاتے بلکہ وہ باریک دانے والے نامیاتی مادّوں کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ یہ راکھ جیسا ہائیڈرو کاربنی مادّہ آسمان سے برسا ہوگا جو سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں اور ٹائٹن کے کرۂ فضائی میں موجود میتھین کے باہمی تعامل کا نتیجہ ہوگا۔ "مادّہ وافر مقدار میں ہے،" لورینز کہتے ہیں،" لیکن یہ ممکن ہے کہ اس کو جمع ہونے میں ارب ہا برس لگ گئے ہوں گے۔ کسی بھی ایک دن گرنے والی مادّہ کی مقدار نہایت خفیف ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ ٹیلے اسی مادّے سے بنے ہیں جس نے ٹائٹن کے کرۂ فضائی کو نارنجی اور دھندلا کیا ہوا ہے۔ روشنی سے تبدیل ہوا کیمیائی مادّہ جس نے کرۂ فضائی کو بنایا ہے لگتا ہے کہ نیچے بہت ہی باریک ذرّات مائکرون کے ایک تہائی جتنے کہر کی صورت میں گرتا ہوگا لہٰذا ایک طرح سے یہ کہر کے گرنے جیسا ہی ہوگا۔ لیکن یہ اصل میں برف کے طوفان کی طرح نیچے نہیں گرتا ہوگا۔ آپ اس کو جمع ہوتے ہوئے نہیں دیکھتے۔ اب اس مادّے نے جس نے ٹیلے کو بنایا ہے رنگ میں کافی گہرا لگتا ہے، اور اس کو لازمی طور پر کافی مقدار میں ہونا چاہئے تھا۔"

    ایک خیال جو حال میں ہی پیش کیا گیا ہے اس میں ہائیڈرو کاربن کو آسمان سے تیرتے ہوئے سمندر میں اترتے ہوئے بیان کیا گیا ہے۔ مائع میتھین اور ایتھین کی کثافت ایسی ہوتی ہے کہ لگ بھگ اس میں ہر چیز ڈوب جاتی ہے۔ "آپ کسی بہت ہی پھولی ہوئی چیز کا تصوّر کریں جیسے مسام دار پتھر ، لیکن کوئی بھی قرین قیاس مادّے کا ڈھیر ٹائٹن کے سمندر میں ڈوب جائے گا۔ چیزیں بہت آہستہ سے ڈوبیں گی کیونکہ قوّت ثقل کم ہے اور ذرّات اور مائع کے درمیان کمیت کا فرق کم ہوگا، تو میسو یخنی کا تصوّر کریں۔" لورینز کہتے ہیں۔

    خاکہ 7.8 کیسینی "بلی کی کھرونچیں " (بائیں جانب) خطی ٹیلوں کی شکل میں اس وقت ابھرے جب ریڈار سے اچھی طرح ان کی چھان بین کی گئی۔ 

    ذرّات آخر کار بیٹھ جاتے ہیں لیکن برق رسائی رو اتنی ہوتی ہے کہ ذرّات کو اوپر اٹھا سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ذرّات کے لئے کے ٹائٹن کے سمندر میں بیٹھنے سے پہلے جھنڈ بنانے کے خاصے موقع مل جاتے ہیں۔ لمبے برفانی دور جیسے عرصے میں ٹائٹن کا سمندر اصل میں خشک ہو گیا۔ یہ لمبے عرصے تک جاری رہنے والے چکر کرول میلانکو وچ چکر کہلاتے ہیں۔ ان چکروں کا انحصار سیارے کا سورج کے گرد اطمینان سے تبدیل ہوتے ہوئے مداری راستے پر ہوتا ہے۔

    ٹائٹن کی صورت میں اس کے کرول میلانکو وچ چکر خود زحل کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ جب زحل کا مدار آگے بڑھتا ہے تو زحل اور ٹائٹن دونوں پر ایک نصف کرۂ میں موسم لمبا ہوتا ہے جبکہ دوسرے پر چھوٹا۔ یہ تبدیلی ٹائٹن کے ایک نصف کرۂ پر سمندر کو خشک کرتی ہے اور دوسری جگہ میتھین کی نمی میں تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ ہمیں زمین کے سلسلے میں ایسے ہی ارضیاتی مظاہر دیکھنے کو ملے ہیں۔ نمک کی عظیم پرتیں بحیرہ ارب اور بحیرہ روم کے نیچے بچھی ہوئی ہیں، کیونکہ وہ کسی زمانے میں سمندری طاس تھے جو بالآخر خشک ہو کراب بند ہو گئے ہیں۔[1]

    خشک ہوتے اس عمل میں ٹائٹن کے سمندر میں باریک ہائیڈرو کاربن کے ذرّات آپس میں قریب بطور دانے آ گئے تاکہ ریت کو بنا سکیں۔ ریت اڑ کر اپنا راستہ بناتی ہوئی استوائی حصّہ میں پہنچ گئی۔ ٹائٹن کے ماہرین سیاروی ایسی گاد کو دیکھتے ہیں جس میں ریت بنتی ہے، ہجرت کرکے بالآخر غائب ہو جاتی ہے۔ یہ سیاروی گاد کا منظرنامہ ٹائٹن کی سب سے بڑی پہیلی بنی ہوئی ہے۔ اصل میں یہ کافی حد تک مریخ جیسا سوال ہی ہے۔ 

    خلائی جہاز سے کئے جانے والے لمبے عرصے کے مطالعہ اور ہمارے کمپیوٹر نمونوں کی بدولت ہم نے مریخ کے ماضی کے موسمیاتی حالات کے بارے میں کافی معلومات اکٹھی کی ہوئی ہے مریخ پر بھی بعینہ یہی کرول میلانکووچ چکر کی قسم کے ادوار پائے گئے ہیں جن کے چکر کا تخمینہ ٥٠ ہزار سے ایک لاکھ برس تک لگایا گیا ہے۔ اور اسی طرح کی مدار کے مخروط اور خمیدگی میں ہونے والی تبدیلیوں اور اس تبدیلی کہ گرمیوں میں کس قدر سورج کی روشنی میسر ہے ، کو مریخی قطبین میں گرد اور برف کی تہوں سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ اگر ٹائٹن کے دریا آج خوابیدہ ہیں لیکن یہ آبی گزرگاہیں مریخ کی آبی گزر گاہوں جیسی ہیں جو آج کے موجودہ حالات میں نہیں بن سکتی ہیں۔ مریخ کے اکثر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ مریخ پر مختلف موسموں کے ہونے کا ثبوت ہیں، ایک گرم نم ماضی۔ اب تفتیش کاروں نے ٹائٹن کے بارے میں یہ تجربہ محسوس کرنا شروع کر دیا ہے، ہر چند کہ ٹائٹن کا موجودہ موسم اپنے متحرک مائیاتی چکر کے ساتھ مریخ کے حالیہ موسم سے کہیں زیادہ سرگرم ہے۔ حالیہ حاصل ہونے والی اطلاعات کی بدولت تفتیش کار وقت کے ساتھ ٹائٹن کے ارتقاء کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

    خاکہ 7.9 ٹائٹن کے ٹیلے سیاروی باد نما کے طور پر کام کرتے ہیں۔ تیر کے نشان ہوا کا رخ سیاروی پیمانے پر بتا رہے ہیں۔

    سیاروی پیمانے پر ہونے والی ہمہ وقت نامیاتی ذرّات کی برسات کے ساتھ ٹائٹن کو شمال سے جنوب تک ٹیلوں سے ڈھکا ہوا ہونا چاہئے تھا، تاہم ایسا نہیں تھا۔ درحقیقت زیادہ تر ٹیلے استواء سے ٢٥ درجے یا ٣٠ درجے کی پٹی میں موجود ہیں۔ ان کا محل وقوع ٹائٹن کے ماحولیاتی چکر کا اہم اور بنیادی عامل لگتا ہے۔ زمین کے زیادہ تر ٹیلے استواء سے دو پٹیوں میں ٢٠ درجے یا ٣٠ درجے میں موجود ہوتے ہیں، کیونکہ زمین کافی تیزی سے گھومتی ہے ، اور استواء سے گرم اٹھتی ہوئی ہوا قطب کی جانب جاتی ہے اور زمین کی گردش سے کٹ جاتی ہے۔ لورینز واضح کرتے ہیں : "نیچے کنویں کی شاخ والی ہوا لگ بھگ ٢٠ سے ٣٠ درجے پر ہوتی ہے اور کیونکہ اس میں بادل بنتے ہیں، تو جو ہوا نیچے آتی ہے وہ خشک ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے جو یہاں زمین پر ریگستان بناتی ہے۔ ٹائٹن پر گردش کیوں کہ بہت سست ہے لہٰذا یہاں پر استوائی پٹی پر خشکی ہوتی ہے۔" اس کی وجہ ٹائٹن کا ضخیم ٹیلوں کا علاقہ بنا ہے۔ سب سے بڑا ٹیلے کا سمندر بیلٹ کے نام سے جانا جاتا ہے جو ٣ ہزار کلومیٹر طویل ہے۔ اس کے ٹیلے کی چوٹی کی اونچائی ١٥٠ میٹر ہے۔

    خاکہ 7.10 اونچی بلندی یا بلند عرض بلد پر (نیچے بائیں، فینسل )، ٹائٹن کے ٹیلے پتلے اور زیادہ پھیل کر الگ ہوئے ہیں جہاں مہین ریت سے ڈھکے ہوئے خالی جگہیں موجود ہیں۔ بیلٹ علاقے (اوپر بائیں) میں موجود ٹیلے چوڑے ہیں جن کے درمیان ریت کی موٹی چادر موجود ہے ۔

    جنوبی افریقہ اور نمیبیا میں موجود کالا ہاری ٹیلے ایک ایسے علاقے میں موجود ہیں جہاں محدود تعداد میں گاد میسر ہے (نیچے دائیں) یہ فینسل ٹیلوں جیسا ہی اثر دکھاتی ہے۔ ٹائٹن میں موجود بیلٹ ٹیلے زمین پر عمان، یمن اور سعودی عرب کے ٹیلوں سے کافی مشابہ ہیں جہاں پر کافی گاد میسر ہے (اوپر دائیں)۔ عرض بلد کا اثر بتاتا ہے کہ "ریت"( جو لگتا ہے کہ ہائیڈرو کاربن پر مشتمل ہے) کو ٹیلے بنانے کی ضرورت زیادہ تر ٹائٹن کے نچلے حصّوں میں ہے۔ عمانی ٹیلے کی تصویر کو ہم ربع الخالی یا خالی ربع کے نام سے جانتے ہیں۔ ربع کی تصویر کو ایڈوانسڈ اسپیس بورن تھرمل ایمیشن اور ریفلیکشن ریڈیو میٹر (اے ایس ٹی ای آر) سے حاصل کیا گیا ہے ایک آلہ جو ناسا کے ٹیرا سیٹلائٹ پر لگا ہوا ہے۔

    زمین پر ساحلی ٹیلے سانپ کی طرح جھیلوں اور سمندروں کے ساحل کے ساتھ چلتے ہیں۔ اس طرح کا کوئی بھی ٹیلہ زحل کے چاند پر نہیں ہے، جانی ریڈبا کہتے ہیں۔ "یہ واقعی دلچسپ بات ہے کہ ہمیں اس معمے کو حل کرنا ہے۔ کوئی بھی ٹیلہ ٦٠ درجے ارض بلد سے اوپر نہیں ہے۔" ٹیلوں کو بننے کے لئے کافی ہوا اور گاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کو کافی خشک حالات بھی درکار ہوتے ہیں ، لہٰذا ریڈبا تجویز کرتے ہیں کہ قطبی علاقوں میں ٹیلوں کی عدم دستیابی ، جہاں پر میتھین کی جھیلوں کے ثبوت موجود ہیں، شاید میتھین کے بخارات کی بلند سطح کی وجہ سے ہے۔

    ریڈبا نے چند خال خال ٹیلوں کو شناخت کیا ہے جو استواء سے اور دور ہیں۔ وہ زیادہ کثیف لگتے ہیں۔ تفتیش کار ریڈار کے گہرے مادّہ کو کم کثافت کے ساتھ نسبت دیتے ہیں، جس طرح سے نامیاتی دھول ۔ ریڈار کے روشن مادّے برف یا چٹان کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ دورافتادہ ٹیلے روشن لگتے ہیں جس سے لگتا ہے ان کی بناوٹ مختلف ہے۔ ایک امکان یہ ہے کہ یہ منجمد ٹیلے ہیں جو کسی طرح ایک دوسرے سے جڑ گئے۔ ان کا رخ استوائی علاقے کے اہم ریت کے سمندر سے مختلف ہے، لہٰذا ایک خیال یہ ہے کہ یہ پرانے موسمی دور کی باقیات ہیں جب ہوائیں مختلف سمت میں چل رہی تھیں تو ان کے رخ کو بدل دیا تھا ۔ شاید نمی ماضی کے ادوار میں مختلف رہی ہے جن نے ریت کو مزید شمال میں دھکیل دیا تھا۔ یہ منظرنامہ مزید کرول میلانکو وچ تصویر کو واضح کرتا ہے۔

    یہ ریت کا منبع ماضی سے جڑا ہوا ہے اور مریخ جیسے سیارے یا ٹائٹن میں کافی لمبی یادداشت ہوتی ہے۔ ٹیلوں کی تاریخ شاید ماضی میں ہزار برس یا بلکہ لاکھوں برس پیچھے تک جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک بڑے ٹیلے کو بننے میں مخصوص ہوا اور موسمی حالت کے ساتھ دسیوں ہزار برس لگے ہوں گے۔ لیکن جب یہ حالات بدلتے ہیں تو ٹیلوں کی سمت اور بناوٹ موجودہ موسم کے لحاظ سے ترچھی ہوتی ہے۔ چھوٹے ٹیلوں کے خدوخال بنتے اور تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں۔ لورینز اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مریخ کے بھی ایسے ہی حالات اس کے ٹیلوں کے ساتھ تھے۔ "بڑے ٹیلے مریخ کی وہ یادگار ہیں کہ اس کی ہوائیں کسی زمانے میں کیسی تھیں۔" اسی طرح ٹائٹن کا قریبی تجزیہ شروع کرتے ہی اس بات کو بتاتا ہے کہ جبکہ ٹیلوں کے نمونے بہ حیثیت مجموعی کافی ترتیب سے ہیں جو ایک پختہ حالت کے ختم ہونے کی نشانی ہیں، کچھ چھوٹے خدوخال کچھ ٹیلوں کے کناروں پر شاید بدلتے ہوئے موسم کا عندیہ دے رہے ہیں۔"

    دونوں لورینز اور ریڈ با سمجھتے ہیں کہ ٹائٹن ٹیلوں کے میدان آج بھی کافی سرگرم ہیں۔ ریڈبا اس بات کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ کیسینی کے ریڈار نے کسی مخصوص تبدیلی کا سراغ نہیں لگایا لیکن ان کو اس کی امید بھی نہیں تھی۔

    خاکہ 7.11 ریتیلے ٹیلوں نے ایک بڑے شہابی گڑھے پر قبضہ کر لیا جس کا قطر ٤٠ کلومیٹر کا تھا۔

    ہماری ریزولوشن کافی کم تھی۔ زمین پر بھی جہاں ہوائیں اونچی ہوتی ہیں ١٧٠ میٹر بلندی پر کچھ برسوں تک سرگرمی کو دیکھنا بھی کافی لمبا عرصہ ہو سکتا ہے۔ تاہم کچھ ایسی نشانیاں ہیں جو یہ بتا رہی ہیں کہ یہ ٹیلے کچھ زیادہ ہی جوان ہیں بلکہ کافی سرگرم بھی لگ رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وہاں بارش ہوتی ہے، اس کے باوجود ہم وہاں مضبوط دریائی گزر گاہوں کے ثبوت ٹیلوں کو کاٹتے ہوئے نہیں دیکھ پا رہے ہیں۔

    نمیبیا میں بھی بڑی، سوکھی دریائی وادی ٹیلوں کے درمیان بنی ہوئی ہے جس کو اب ہوا اپنے ساتھ اڑا رہی ہے۔ مزید براں جیسا کہ ویمس نے دیکھا کہ بین ٹیلہ علاقے ایسے صاف ہیں جیسے کسی نے یہاں جھاڑو لگا دی ہو ان تمام باتوں کے باوجود بھی اگر وہ زبردست قطع و برید کے عمل سے گزر رہے ہیں تو اندرونی ٹیلوں کو لازمی طور پر ڈھکا ہوا ہونا چاہئے تھا جس طرح سے نیبراسکا ریت کی پہاڑیاں ہیں ۔ میں تو فی الحال حرکت کرتے ہوئے ٹیلوں کے ساتھ ہوں۔ 

    ٹائٹن کے ان عجیب ہائیڈرو کاربن سے بنے ہوئے ٹیلوں کی بناوٹ اور منتقلی کا انحصار چاند کی متحرک کثیف ہوا پر ہے۔ اور ہرچند کہ ٹائٹن کے کرۂ فضائی کی اکثریت نائٹروجن پر مشتمل ہے اس کا دوسرا سب سے وافر جز میتھین ہے جو کیمیا اور موسموں کو بنانے والا اصل محرکی قوّت ہے۔ کیونکہ سورج کی روشنی میتھین کو تباہ کر دیتی ہے، لہٰذا گیس کو ٹائٹن کے کرۂ فضائی میں بہت تھوڑے عرصے تک رہنا چاہئے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ کوئی چیز اس کو دوبارہ سے بھر رہی تھی۔



    [1] ۔ بے شک بحیرہ روم اور بحیرہ عرب پانی سے بھرے ہوئے ہیں تاہم یہ بات ان کو ٹائٹن میں واقع کچھ شمالی جھیلوں سے اور زیادہ بہتر طور پر تشبیہ دیتی ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ٹائٹن کے عجیب ریت کے ٹیلے Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top