سائنس اور انتباہ
ٹائٹن کی تحقیق کافی تنبیہی کہانیاں دیتی ہے۔ کیسینی مہم کی شروعات میں ایک شاندار ساخت نظر آئی جس نے تفتیش کاروں کو دوسرے جہانوں کے آتش فشانوں کی یاد دلا دی۔ ریڈار کی تصاویر نے ایک ١٨٠ کلومیٹر رقبے پر پھیلے ہوئے دائروی خدوخال کا پتا لگایا جس کا نقشے بنانے والوں نے گنیزا ماکولا نام رکھا۔ ہرچند کہ پہلی اڑان میں اس کی مقامیت سے متعلق کچھ زیادہ مواد موجود نہیں تھا ، لیکن پہاڑی خدوخال زہرہ یا زمین پر موجود آتش فشانوں جیسے تھے، بالخصوص چپٹے کیک جیسے گنبد یا ڈھالی آتش فشانوں جیسے۔
گنیزا اسی حجم کا تھا جس حجم کا بڑا ڈھالی آتش فشاں زمین پر ہے۔ گنبد کی چھت نسبتاً چپٹی تھی جبکہ وسطی جھکاؤ ٢٠ کلومیٹر پر پھیلا ہوا تھا۔ محققین نے اس جھکاؤ کو آتش فشانی دہانہ سمجھا۔ سینوس گزرگاہ نے مرکزی شہابی گڑھے سے پہاڑی کے اندر جاتے ہوئے گزرگاہ کو زخمی کیا تھا ، یوں یہ بالکل تمام جہانوں میں نظر آنے والے پہاڑ کے ایک جانب گزرنے والے برفانی لاوے کی گزر گاہوں جیسی لگتے تھے۔ مزید براں بہاؤ کے خدوخال جو گنبد سے خارج ہوتے نظر آتے تھے وہ ترجیحی طور پر جنوب اور مشرقی حصّے کی جانب تھے جو اتار چڑھاؤ کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔ ایک آتش فشانی ماہر نے تبصرہ کیا، "قیاسی بہاؤ کی شکلیات جو گنیزا کے جنوب اور مشرق جانب سے نکل رہی ہیں یہ کسی لیس دار چیز کے بہاؤ کا نشان نہیں ہیں۔ اس کے برعکس وہ مہین، چادر جیسی اور چوڑی ہیں۔" اگر گنیزا اصل میں ٹائٹن کے آتش فشانوں کو اگلنے والی ہوتی، تو اس کا پہلو پانی کے لاوا کے بہاؤ سے کسا ہوا ہوتا جو یک بیک پہاڑ کی جانب سے ایسے گرتا جیسا کہ ارضیاتی برفانی تودے۔
ایک دوسری ریڈار کی اڑان یہاں پر کافی برسوں بعد کی گئی جس نے تفتیش کاروں کو گنیزا کی تصویر کو جوڑنے میں مدد دی۔ گنبد جیسا ہونے کے بجائے "پہاڑ" لگ بھگ سیدھا چپٹا نکلا۔ اس کے بہاؤ اور شکلیات اب بھی اسرار میں ہی ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر ای ایس اے کے ہائی گنز کھوجی نے دوسرے سراغ حاصل کیے جو آتش فشانوں کی موجودگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ سطح کی تصاویر ایسے کوئی بھی خدوخال نہیں دکھا رہے ہیں جو صریحی طور پر برفانی آتش فشانی ہوں، لیکن ہائی گنز نے ٹائٹن کے کرۂ فضائی میں آرگان کے تابکار ہم جا کا سراغ لگایا ہے۔ اس کی موجودگی اس جانب اشارہ ہے کہ کرۂ فضائی کا رابطہ لازمی طور پر زیر زمین پوٹاشِيَم سے رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹائٹن کے قلب میں پوٹاشِيَم والا مادّہ زیادہ تر سیلیکٹ چٹانوں نے ہی بنایا ہے۔ برفانی آتش فشاں تو صرف ایک ذریعہ ہیں جو اس مادّے کو سطح پر لے کر آتے ہیں۔
خاکہ 7.13 گنیزا ماکولا کا کیسینی کے ریڈار سے حاصل کردہ پہلی تصویر، اوپر، جس نے مشاہدین کو یہ نتیجہ اخذ کروایا کہ یہ خدوخال شاید زہرہ کے چپٹے کیک جیسے آتش فشاں سے مماثلت رکھتے ہیں۔ نیچے ایک ابتدائی – اور غلط توضیح ہے۔
پہاڑ
مذکورہ بالا ساختیں چاہے آتش فشانی ہوں یا نہ ہوں اس بات کو ابھی جاننا باقی ہے۔ متشکک تجویز کرتے ہیں کہ ہوٹے اور دوسرے نظریاتی آتش فشانی علاقے شاید نیچے سے اوپر اٹھنے کے عمل یا پہاڑوں کے بنانے کے دوسرےعوامل کا نتیجہ ہوں۔ لیکن ٹائٹن میں دوسری قسم کے پہاڑ موجود ہیں جو اتنے ہی پراسرار ہیں۔
کافی لوگوں کے لئے ٹائٹن کی پہاڑی چوٹیاں کافی حیرانگی کی بات ہیں۔ صرف اس حجم کے دو دوسرے چاند کیلسٹو اور گینی میڈ پر شہابی گڑھوں کا راج ہے اور گینی میڈ پر تو کھانچے دار سطح موجود ہے۔ سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ ٹائٹن پر زیادہ تر پہاڑ شہابی گڑھوں کی باقی بچے ہوئے کنارے یا وسطی چوٹیاں ہیں۔ ماہرین ارضیات ان پہاڑوں کے ماخذ کی چار ممکنہ وجوہات بیان کرتے ہیں:
١۔ پہاڑ نیچے سے پھٹ کراس وقت نکلے ہیں جب قشر کے دو علاقوں نے ایک دوسرے کو دبانے کے عمل میں دھکا دیا ہوگا۔
٢۔قشر کے دو حصّے الگ ہو گئے؛ ایک باقی رہا جبکہ دوسرا چھٹ گیا، جس نے لمبوترا گڑھا یا ارضی ابھار بنایا، پہاڑی ڈوبے ہوئے حصّے کے بعد بچ گئی۔ اس عمل کو توسیع کہتے ہیں جو ممکنہ طور پر گینی میڈ پر غالب ہے (پانچواں باب دیکھیں)۔
٣۔ پہاڑیاں اس مادّے کی باقیات ہیں جو بڑے شہابی تصادم کے باعث نکلا تھا۔
٤۔ کٹاؤ نے مادّے کو پہلے سے موجود میدان سے دور کر دیا جس کی وجہ سے چھوٹے نسبتاً اونچے قطعہ زمین بچ گئے۔ (ہم اس عمل کو یورینس کے چاند ایریل پر آٹھویں باب میں دیکھیں گے۔)
کچھ یا تمام کے تمام عوامل شاید کام کر رہے تھے، جانی ریڈ با کہتے ہیں۔ "یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کہاں دیکھ رہے ہیں۔ یہاں پر کافی لمبی زنجیریں ہیں۔۔۔ جو متوازی ہیں اور ان کا رجحان مشرق/مغرب کی جانب ہے۔ ہم ان کے منقبض تشکیل کے آگے کی جانب جھک رہے ہیں۔" لیکن شہابی گڑھے سن لیپ سے ٢٠٠ کلومیٹر دور بہت ساری پہاڑیاں بالکل الگ ہی نوعیت کی ہیں۔ شروع میں سرخی مائل دکھنے والی یہ چوٹیاں شہابی گڑھے کے وسط سے نکلتی ہوئی لگتی ہیں جیسا کہ یہ تصادم کے نتیجے میں سن لیپ سے خود سے نکلی ہوں۔ حساب بتا رہے ہیں کہ ٹائٹن کا کثیف کرۂ فضائی اور کم قوّت ثقل کی وجہ سے تصادم سے نکلنے والے مادّے کا کافی سارا حصّہ نسبتاً محفوظ حالت میں باہر آیا ہوگا۔ لیکن بعد کی تحقیق اس منظر نامے کی تردید کرتی ہوئی لگتی ہے۔" ریڈ با کہتے ہیں۔ "یہ باقیات کے سلسلہ کا حصّہ لگتے ہیں جس کو سیلابی یا ہوائی عمل نے چاک کر دیا ہے۔ یہ بات حقیقت میں اس ایک ممکنہ نمونے کے خلاف ہے جو میں نے پہاڑی مقالہ میں پہلے اس پر لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ شہابی گڑھے سے نکلے ہوئے پہاڑ ہونے چاہئیں - میں نہیں سمجھتا کہ ثبوت یہاں پر موجود ہیں۔"
جنوب سے دور اور سن لیپ کے مغرب میں ایک علاقہ زیناڈو کہلاتا ہے جہاں لگتا ہے کہ ناہموار پہاڑوں کو دریائی عمل نے کاٹا ہے۔ زیناڈو پہاڑی چوٹیوں کا وسیع علاقہ ہے جو ایک دوسرے میں گھسی ہوئی ہیں جن کو دریائی وادی نے قطع کیا ہوا ہے ایسا لگتا ہے جیسے کہ پورے میدان میں انہوں نے مادّے کو بکھیر دیا ہے۔ رینڈل کرک کہتے ہیں کہ "پوری گھاٹیوں کا نظام چپٹے سطح مرتفع میں ڈھل گیا ہے جنوب مشرق صحرا کی طرح ۔۔۔ بالکل بریس گھاٹی کی طرح۔"
ٹائٹن کی برفیلی پہاڑیاں کوئی بڑے پہاڑی سلسلے نہیں ہیں؛ ان کی دھیمی کھنچی ہوئی ڈھلانیں ہیں۔ اونچائی ١٢٠ میٹر سے لے کی ١٠٠٠ میٹر تک کی ہے۔ یکساں ارتفاع حیرت انگیز ہے۔ آخر کیوں تمام چوٹیوں کی اونچائی ایک جیسی ہے؟ ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ پہاڑیاں قدیمی ہوں اور بہت زیادہ کٹاؤ کے عمل سے گزری ہوں۔ شاید ان کے اوپر ایک گرم برف کی تہ موجود ہو جو ایک مخصوص اونچائی تک پہنچنے کے بعد مزید اضافہ نہ کرنے دیتی ہو۔ ان کے کٹاؤ کی شرح ٹائٹن کی سطح بنانے والی پانی کی برف میں کثافت کے ساتھ متغیر ہو سکتی ہے۔ مزید تفصیل سے تصاویر لینے کی ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ تمام پہاڑ قدیم ہیں یا اگر وہ بننے کے مختلف مراحل میں موجود ہیں تو کس چیز سے منضبط ہیں۔
خاکہ 7.14 ایڈیری علاقے میں موجود متوازی پہاڑی سلسلے(بائیں) اور زیناڈو کی شمالی سرحد۔
خاکہ 7.15شگافی خط سلوٹوں والے پہاڑوں کو دو علاقوں میں ٹائٹن کے میدان میں کاٹ رہے ہیں۔ شہابی گڑھے سے خارج زدہ لاوے جیسے سن لیپ کو کبھی یہ سمجھا جاتا تھا کہ انہوں نے پہاڑی سلسلوں کو بنایا ہے۔
ٹائٹن کی پہاڑیاں دوسرے سیاروں کی اوپر اٹھی ہوئی سلوٹوں والی پہاڑیوں سے الگ ہیں۔ یہ زہرہ کے پہاڑی سلسلوں سے بھی مختلف ہیں، جو سطح پر تہ کی ہوئی لگتی ہیں۔ اس قسم کی تہ کا کوئی بھی ثبوت زحل کے چاند پر نہیں پایا گیا۔ بہرحال یہ زمین پر موجود پانی کے کٹاؤ والی پہاڑیوں سے ملتی ہیں۔ ریڈ با کہتے ہیں کہ یہ اہم بات ہے۔" زمین پر دریائی گزر گاہوں سے بنی زمین کا غلبہ ہے۔ دوسرے سیاروں پر شہابی گڑھوں سےداغ دار زمین کا غلبہ ہے۔ اب ہم نے ٹائٹن کو دیکھا جہاں سطح کے اہم حصّے کو زمین کی طرح دریاؤں نے بنایا ہے۔" جنوبی علاقوں میں گزرگاہیں میدانوں کو مختلف شدت کے ساتھ کاٹتی ہیں ۔ کچھ سطح کو رگڑتی ہیں، جبکہ کچھ گھاٹیوں کو ڈھلوان کی صورت میں کاٹتی ہیں۔ فرق شاید اس مادّہ کی کثافت میں تفاوت کی وجہ سے ہوتا ہے جو اس کی سطح پر بہت ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں