ہمارے جہاں کے علاوہ ٹائٹن وہ واحد جگہ ہے جہاں پر دریاؤں اور جھیلوں سے ہونے والی تبخیر سے بارش کا ایک سرگرم چکر چل رہا ہے۔ اس کی دریائی وادیاں مائع سے بھرے طاس کی نکاسی کرتی لگتی ہیں، کچھ تو بحیرہ اسود جتنی بڑی ہیں۔ سائنس دان ٹائٹن کی سطح پر مائع میتھین اور ایتھین کے پائے جانے کا ١٩٦٠ء کی دہائی کے اواخر سے اندازہ لگا رہے ہیں۔ وائیجر کے بعد سیاروی سمندر کا خیال تو رائج تھا۔ لیکن دور سے سراغ لگانے والے زمینی اور ہبل خلائی دوربین سے حاصل کردہ اعداد و شمار کیسینی سے حاصل کردہ شروع کی اطلاعات کے ساتھ مل کر بتا رہے تھے کہ ٹائٹن ایک صحرائی دنیا ہے۔ مائع کے سطح پر ذخیرے ٢٠٠٦ء تک صرف امید بھری قیاس آرائیاں ہی تھیں۔
اسی برس کیسینی خلائی جہاز پر موجود امیج سائنس سب سسٹم نے پہلی جھیل کا مشاہدہ کیا۔ تصویر ایک گہری جگہ جنوبی قطب کے قریب دکھا رہی تھی جس کو اب ہم لاکوس اونٹاریو کے نام سے جانتے ہیں۔ ریڈار سے گہری نظر والی یہ جھیل شمالی امریکہ کی اسی نام کی عظیم جھیل جیسی لگ رہی تھی۔ علاقے کی ریڈار کے آلات نے کافی مفصل تصویر حاصل کی تھی۔ بعد میں کیسینی کے ریڈار کی آنکھوں نے نارنجی کہر کے نیچے جھانکا اور اس کو سینکڑوں چھوٹی جھیلیں ملیں جس میں زیادہ تر کھوکھلی جگہ پر ٹائٹن کے شمالی قطبی علاقے کی جانب تھیں۔
کافی سطحی ثبوت اس بات کی ترجمانی کر رہے تھے کہ وہ علاقے بجائے سادے میدانوں کے جھیلیں تھیں: (١)ان کی شکلیات ارضی جھیلوں جیسی اور ان کا تعلق دریا جیسے خدوخال (آبی گزر گاہوں، ڈیلٹا وغیرہ) سے تھا ؛ (٢) نچلا ریڈار معکوس انتشار بتا رہا تھا کہ سطح کافی ہموار ہے؛(٣) قطبی علاقوں میں میتھین کی کافی زیادہ نمی ، یہ تمام باتیں کمپیوٹر کے ماحولیاتی اور موسمی نمونہ جات سے لگائے گئے اندازوں کے عین مطابق تھیں۔؛ (٤) اشعاع پیما سے ان علاقوں کی حاصل کردہ روشنی کی سطح آس پاس کے علاقے سے کافی درجے زیادہ تھی، یہ چیز بلند اشعاعیت کے ساتھ اس قسم کی مائع کے سطح سے ملتی جلتی تھی جیسے میتھین، ایتھین ، بٹھین اور اس سے ملتے جلتے مادّے۔ اشعاع پیما کی روشنی ریڈار کی روشنی سے الگ ہوتی ہے، یہ آلہ بتا سکتا ہے کہ سطح سے کتنی توانائی خارج ہو رہی ہے۔ گرم سطح ٹھنڈی سطح کے مقابلے میں زیادہ توانائی خارج کرتی ہے، اور جھیلیں زیادہ توانائی خارج کرتی ہوئی لگ رہی تھیں – وہ آس پاس کی زمین سے زیادہ گرم تھیں۔
بعد کی اڑانوں نے عظیم الجثہ جھیلوں کا پتا دیا جو حجم میں بعینہ ارضی اندرونی سمندروں جیسی تھیں۔ اپنے حجم کی وجہ سے ان کو جلد ہی ماریا کہا جانے لگا جس کا لاطینی میں مطلب سمندر ہی ہے۔ اس وقت تک ابھی تین ہی ایسی ملی ہیں۔ چھوٹی سے لے کر بڑی ترتیب میں ان کے نام یہ ہیں، پونگا مئیر ، لیجیا مئیر، اور کریکن مئیر۔ ٹائٹن کی جھیلیں اور سمندر حجم میں بہت زیادہ متنوع فیہ ہیں کیسینی ریزولوشن کی حد( ٣٠٠ سے لے کر ١٠٠٠ میٹر ) کریکن مئیر سے چار لاکھ مربع میل اوپرتک ۔ موازنے کے لئے شمالی امریکہ کی جھیل برتر ٨٢ ہزار مربع کلو میٹر ہے اور یورپ اور ایشیا کا بحیرہ اسود ٤٣٦٤٠٠ مربع کلومیٹر ہے۔
ٹائٹن پر پائےجانے والے بڑے سمندر کی ناہموار ساحل اسکینڈی نیویا کی فیورڈ چٹانی کھاڑی کی رشتے دار لگتی ہے۔ چند بڑی جھیلوں میں بھی اس قسم کے ناہموار خدوخال ہیں، لیکن چھوٹوں کے بہت ہی مختلف خصائص ہیں۔ یہ زیادہ تر دائروی، بیضوی یا خمیدہ ساحل ہیں اور ان کے کنارے کافی ڈھلوان والے ہیں۔ ان کھڑی چٹانوں کے کناروں کی وجہ سے کچھ محققین کہتے ہیں کہ یہ جھیلیں منہدم یا پگھلنے کے نتیجے میں بنیں ہیں، جس طرح سے گول جھیلیں پگھلتی ہوئی برف کا نتیجہ ہوتی ہیں جو زمین پر جاتے ہوئے برف کے تودے کے بعد پیچھے رہ جاتی ہیں۔ اس قسم کی زمین معدنی علاقہ کہلاتی ہے۔ زمین پر ایسے علاقے کافی مسام دار اور اکثر شکستہ ہوتے ہیں ، جن کے نیچے زیر زمین پانی بہہ رہا ہوتا ہے۔ ٹائٹن پر بھی ایسا ہو سکتا ہے، یہ جھیل کے علاقے زیر سطح میتھین کے آب اندوخت کی نکاسی کرتے ہیں جو اپنا راستہ نیچے کی طرف بناتی ہیں اور بالآخر سمندر کو بھرتی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ زیر زمین دریاؤں کا جال ٹائٹن کے میتھین کے کرۂ فضائی کا ایک بہت ہی اہم حصّے دار ہوگا۔
خاکہ 7.16 لگ بھگ ٥٠٠ کلومیٹر پھیلا ہوا، شاندار لیجیا مئیرٹائٹن پر دوسری بڑی مائع کا ذخیرہ کرنے والی ہے۔ یہاں پر اس کی ریڈار میں نظر آنے والی تصویر بناوٹی رنگ میں ہے۔ بشمول: پراسرار غائب ہوتا " جادوئی جزیرہ"
اگر جھیلوں کا ماخذ معدن ہے، تو وہ ٹائٹن کی جھیلوں اور سمندروں کی کیمیا کے مضمرات کے بارے میں بیان کر سکتی ہیں۔ جھیل میں ہائیڈرو کاربن کی درست آمیزش معلوم نہیں ہے، لیکن لگتا یہی ہے کہ اس آمیزے میں ایتھین اور میتھین کا ہی غلبہ ہوگا۔ ہرچند کہ میتھین کی بارش کا اندازہ ایتھین سے سو گنا زیادہ لگایا گیا ہے - جو شاید رسوبیت سے ملتی ہے - میتھین ، ایتھین کے مقابلے میں زیادہ جلد اڑنے والی ہے۔ سطح پر موجود میتھین تیزی سے تبخیر ہو جائے گی۔ وقت کے ساتھ ایک ساکن مائع جسم پائیدار ایتھین سے جلد ہی بھر جائے گا اس صورت میں ایتھین کا غلبہ ہونا چاہئے تھا۔ لیکن اب تک کوئی نہیں جانتا کہ ٹائٹن کے زیر زمین کتنا مائع تقسیم ہوا ہے۔ اگر اور مزید چھوٹی جھیلیں معدن ہوئیں تو یہ ممکن ہے کہ تمام قطبی جھیلوں کے علاقے میں زیر زمین وسیع دریائی نظام ہوگا جس نے جھیلوں کو سمندروں سے غیر مرئی آبی گزر گاہوں کے جال کی صورت میں جوڑا ہوا ہوگا۔ اگر بہاؤ ایک سمت سے اونچی اوپر جھیلوں سے نیچے سمندر کی طرف ہوگا تو سمندروں میں ایتھین کی زیادتی ہوگی کیونکہ زیادہ تر ایتھین سمندروں میں ہی جمع ہوگی۔ چھوٹی جھیلوں میں شاید زیادہ مائع میتھین کی مقدار ہوگی۔
یہ بتانا مشکل ہے کہ ٹائٹن کی جھیلیں کتنی بھری ہوئی ہیں۔ اصل میں مہم کے شروع میں کچھ ٹائٹن کے محققین تو اس بارے میں متشکک تھے کہ آیا کہ کیسینی نے مائع کو دیکھا بھی ہے کہ نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹائٹن کی جھیلیں اور سمندر ریڈار آلات میں شفاف نظر آتے ہیں۔ مائع کی سطح ہموار ہوتی ہے، لہٰذا وہ آئینہ کی طرح برتاؤ کرتی ہے۔ آنے والی ریڈار کی اشعاع تھوڑے سے اچٹتے ہوئے زاویہ سے پڑتی ہے اور منعکس ہو جاتی ہے اور یوں تاریک تصویر ملتی ہے۔ لیکن مائع میتھین ریڈار کی کچھ اشعاع کو گہرائی میں جانے دیتی ہے، جس طرح سے روشنی صاف پانی کی جھیل سے گزرتی ہے۔ یہ ریڈار کی شعاعوں کو کچھ دس بلکہ سینکڑوں میٹر تک آہستہ آہستہ غائب ہونے سے پہلے یا جھیل کی ناہموار فرش سے ٹکرا کر واپس جانے سے پہلے سرایت کرنے دیتی ہے۔ یہ شفافیت میتھین /ایتھین کے چشموں کے کنارے یا ساحل کے شروع ہونے کے بارے میں کافی مشکل صورتحال پیدا کرتی ہے۔
کچھ زیر سطح آبی گزرگاہیں ٹائٹن کے سمندروں کے اندر میں دیکھی گئی ہیں، اور محققین ان کی گہرائی کو– یا کم از کم عمومی ڈھلان - کو لمبائی کے ساتھ ناپنے کے قابل ہو گئے تھے ۔ کیونکہ دریا پہاڑ سے نیچے بہتے ہیں، یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ اگر یہ پہاڑ کے نیچے دریائی وادیاں ہیں تب تو آبی گزرگاہیں بتدریج نیچے جاتے ہوئے تاریک ہوتی جائیں گی، کیونکہ خلائی جہاز ان کو بتدریج گہرے مائع میں سے دیکھے گا۔ حقیقت میں اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے۔
خاکہ 7.17ٹائٹن کی کچھ شمالی جھیلوں کی ناہموار ساحلی پٹی اسکینڈنیویا فیورڈ کی یاددہانی کراتی ہے۔ وسط : عظیم جزیرہ میاڈا انسولا ٹائٹن کے سب سے بڑے سمندر کریکن مئیر جو بحیرہ اسود جتنا بڑا ہے اس کے اندر واقع ہے۔ دائیں: ریڈار کی مختلف تاریکیاں شاید ان کی گہرائی یا پھر میتھین کی کیچڑ کو بیان کر رہی ہیں۔ ان دائروی جھیلوں کی ہئیت شاید معدن کی ہے ۔
٢٠٠٩ء میں ویمس نے سب سے بڑے سمندر کریکن مئیر کے اوپر سورج کی روشنی کی کوند کو دیکھا، اور یوں باقی بچا ہوا شک بھی دور ہو گیا کہ اصل میں ٹائٹن کے تاریک علاقے سمندر ہی ہیں۔ محققین اب کیسینی ویمس کا استعمال کرتے ہوئے موجی حرکت کی تلاش اس علاقے میں کر رہے ہیں جہاں سورج کی روشنی نے سطح پر کوند پیدا کی تھی۔ وہ موجوں کا سراغ دوسرے طریقوں سے بھی ریڈار کے ذریعہ لگا رہے ہیں۔ کچھ مخصوص حجم کی موجیں کیسینی کے سینتھیٹک آپرچر ریڈار کی موجوں کو منتشر کرتی ہیں اور یوں تصویر روشن ہو جاتی ہے۔ جب ریڈار کو مقام نگاری کے لئے نیچے کیا جاتا ہے تو ریڈار کے تاریک علاقے ٣ ملی میٹر سے کم کی موجوں کو دکھا سکتے ہیں۔ ابتدائی تجزیوں نے کافی ممکنہ موجی حرکت کو جھیلوں کے اوپر دکھایا ہے۔ ایک اور مظہر اس بات کی جانب اشارہ کر رہا ہے کہ موجیں سطح پر بلبلے یا جھاگ بناتی ہیں۔ کیسینی نے ایک روشن جزیرہ اپنی جولائی ٢٠١٣ ء کی اڑان میں دیکھا ہے۔ یہ روشن علاقہ پرانی اڑانوں میں لیجیا میئر میں مکمل طور پر غائب تھا۔ یہ پراسرار طریقے سے جس طرح سے غائب ہوا تھا ویسے ہی واپس ظاہر ہو گیا۔ یہ سولہ دن بعد کی اگلی اڑان میں نمایاں طور پر غائب ہو گیا تھا۔
آگے آنے والی موجوں کے علاوہ ضو فشانی شاید بلبلوں کی وجہ سے تھی جو سمندر کی تہ سے یا سطح پر تیرتی ہوئی برفیلی کیچڑ سے نکل رہے تھے۔ میتھین کی برف مائع میتھین سے زیادہ کثیف ہوتی ہے، لہٰذا کیچڑ کو ہلکا مادّہ ہونا چاہئے شاید یہ پولی ايسيٹيلِيَن کی زنجیر تھی۔ ٹائٹن کے ماہرین مزید تصاویر کے انتظار میں ہیں تاکہ اس کا سراغ لگایا جا سکے۔[1]
ٹائٹن کی متحرک دنیا میں اضافہ کرتے ہوئے جھیلیں اپنی ہئیت بھی تبدیل کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ٹائٹن کی سب سے بڑی جنوبی جھیل اونٹاریو لاکوس کا ساحل صرف چار برسوں میں ١٠ کلومیٹر تک پیچھے ہٹا ہے۔ کچھ عارضی جھیلیں تو اسی دوران مکمل طور پر ہی غائب ہو گئیں۔ شمال میں موجود جھیلوں کی الگ کہانی ہے۔ ان کا ساحل ایک عشرے کی دیکھ بھال کے اندر بھی غیر متغیر رہیں۔ واضح طور پر یہ جنوبی حصّے میں پائی جانے والی جھیلوں کے مقابلے میں زیادہ پائیدار ہیں۔ شمالی جھیلیں زیادہ تعداد میں ہیں اور ان کی ڈھلوان ساحل کا مطلب یہ ہے کہ اوپری سطح میں تبدیلی ساحل کو پیچھے نہیں کرے گی اس طرح یہ ناقابل سراغ ہوگی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شمال میں موسم کافی مختلف ہوگا جو اس عمل کو ٹائٹن کے برسوں میں کم طور پر منتقل کرے گا۔
شمالی تالاب شاید کافی گہرا اور کم تبخیر ہونے والا ہوگا، لیکن زیادہ تر محققین اس بات پر متفق ہیں کہ جنوب میں جھیلیں بہ نسبت شمال کے زیادہ شفاف اور موسمی ہیں۔ ٹائٹن پر موجود زیادہ تر اجنبی جھیلیں اور سمندر پیچ در پیچ وادیوں یا مخرجی علاقے ہیں۔ ہرچند کہ ان کی گہرائی اور مقدار معلوم کرنا مشکل ہے، ٹائٹن پر میتھین اور ایتھین کی وسیع جھیلیں، دریا اور سمندر ٹائٹن کے ہائیڈرو کاربن کے چکر کے ساتھ دھسنے اور بطور روک ہر دو طرح سے نہایت اہم ہیں۔ اگر یہ مریخ جیسا ہوتا، تو مائع کے وسیع ذخیرے سطح کے نیچے موجود ہوتے، تب مائع میتھین کی مقدار ٹائٹن پر کافی زیادہ مقدار میں موجود ہوتی۔ – اور منتقلی کا عمل سطح کے نیچے ، سطح سے اوپر کے مقابلے میں کافی زیادہ پیچیدہ ہوتا۔
ہم مزید طویل المیعاد تبدیلیوں کے بارے میں جاننا چاہئیں گے کیونکہ اس عجیب دنیا میں موسم آتے اور جاتے رہتے ہیں، تاہم بیرونی نظام شمسی میں وقت کا پہیہ کافی سست گھومتا ہے۔ اس وقت جب کیسینی کو زحل کے کرۂ فضائی میں ٢٠١٧ء کے آخر میں داخل ہونے کا حکم دیا جائے گا،[2] تو اس نے دو مکمل موسموں سے بھی کم کا عرصہ ان پراسرار ، کہر سے ڈھکے چاند پر دیکھے ہوں گے۔
استوائی خطوں میں ٹائٹن ایک طرح سے آراکس ہے، ایک ٹیلہ نما جہاں جو میتھین کے بادلوں کی پھوار سے دھلتا رہتا ہے۔ لیکن قطبی علاقوں میں ہمیں ایک الگ کہانی دیکھنے کو ملی ہے۔ یہاں پر موسمی برسات ہوتی ہے اور میتھین بطور مائع اور گیس کی شکل میں موسم کا اہم جز ہے۔ ٹائٹن کا موسم زمین کے موسم سے الگ ہے اور مریخ اور زہرہ سے کافی الگ ہے۔ ایک طرح سے ٹائٹن مستقبل میں جھانکنے کا موقع ہے، جو ہمیں بتاتا ہے کہ اس وقت زمین کیسی لگے گی جب بوڑھا ہوتا ہوا سورج زیادہ روشن ہوگا اور سمندروں کو خشک کر دے گا۔ اس وقت زمین کے پاس وسیع استوائی ٹیلوں کے سمندر موجود ہوں گے اور جو بھی پانی باقی رہ گیا ہوگا وہ قطبین کی طرف منتقل ہو گیا ہوگا۔
ٹائٹن اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور دلچسپ دنیا ہے جو کسی نے سوچی بھی نہیں ہے۔ سیارے کے حجم کے چاند نے ہمارے عظیم دماغوں کو چکرا کر گومگو صورتحال سے دوچار کیا ہوا ہے اور یہ ہمیں اس وقت سے للکار رہا ہے جب سے پہلے خلائی جہاز کا اس سے سامنا کرنے کی شروعات ہوئی ہے۔ رالف لورینز کہتے ہیں کہ اس کے ٹیلے صرف ایک مثال ہیں:
یہ ایک ارتقائی کہانی ہے۔ شاید اگر ہم زیادہ ہوشیار ہوتے، شاید ہمارے پاس کچھ ریت کے ٹیلوں کے ماہر ہوتے جو ان اوّلین حاصل ہونے والی تصاویر کو دیکھ رہے ہوتے، وہ جلد ہی سمجھ جاتے لیکن یہی کھوج کی خاصیت ہے۔ آپ کو پہلے سے نہیں معلوم ہوتا کہ آپ کیا دیکھنے جا رہے ہیں۔ اگر میں اپنے آپ کو پہلے سے کسی کیفیت میں رکھتا تو میں مجھے ٹائٹن پر تو ریت کے ٹیلے ملنے کی بالکل توقع نہیں تھی کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ ٹائٹن کے کرۂ فضائی میں میتھین موجود ہے، اور ہم جانتے تھے کہ میتھین بارش کی طرح ایک دوسرے مادّے کے ساتھ جو روشنی سے کیمیائی طور پر تبدیل ہوتا ہے اور ایتھین جو ٹائٹن کی سطح کے درجہ حرارت پر مائع ہوتی ہے گرتی تھی لہٰذا ہم ٹائٹن کو نم زدہ سمجھتے تھے۔ جب کوئی چیز نم ہوتی ہے تو آپ ریت کو آس پاس حرکت نہیں دے سکتے۔ ہمیں سمندروں اور سمندروں میں پھنسی ہوئی ریت کو پانے کی امید تھی ۔ لہٰذا ہمیں ٹیلوں کو دیکھنے کی امید تو بالکل بھی نہیں تھی۔ ہم بہت زیادہ ہوشیار نہیں تھے۔ کیسینی کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہم ٹائٹن کے بارے میں ایک جہتی سوچ کے ساتھ غور کرتے تھے 'ٹائٹن کی سطح کیسی نظر آتی ہوگی؟' 'یہ شاید ایکس جیسی ہوگی "۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ٹائٹن ایک وسیع دنیا ہے جو بہت زیادہ رنگا رنگ ہے۔ بالخصوص اس کے لمبے سال اور ہائیڈرو کاربنی چکر ہیں، وہاں پر کافی مضبوط موسمی اور عرض بلدی اثر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ ماحولیاتی چکر کو بناتے ہیں جس میں وہ نیچےعرض بلد کو خشک کر دیتا ہے اور زیادہ تر نمی بلند عرض بلد پر مرتکز رہتی ہے لہٰذا آپ کو سمندر شمالی قطب کے پاس اور ریت کے ٹیلے استوائی علاقوں میں ملیں گے۔ اس دو شاخیت کا زمینی منظرپر گہرا عمیق اثر بطور عرض بلد ایک ایسی چیز تھی جس کا اندازہ ہم پہلے سے نہیں لگا سکتے تھے چاہئے ہم جتنے بھی ہوشیار ہوتے۔
شاید لورینز نے سب سے گہرا سبق دے دیا ہے۔ ٹائٹن ایک یکساں برف کی گیند نہیں ہے، نہ ہی وقت میں منجمد کیمیائی تجربہ گاہ ہے، نہ ہی کوئی دور دراز کا چاند ہے کہ اس کو دیکھیں اور حیران ہوتے رہیں۔ یہ ایک متنوع فیہ اور متحرک جہاں ہے جو وعدوں اور تخلیقی کام کی تحریکوں سے بھرا ہوا ہے ۔
خاکہ 7.18 بائیں: میتھین کا بہاؤ بظاہر کافی مفصل گھاٹی اور وادیاں اس پہاڑی علاقے میں بنا رہا ہے۔ دائیں: کچھ دریا جو ناہموار زیناڈو علاقے کے کنارے پر آج بھی سرگرم ہیں، پیچ دار وادی اور ڈھلوان گھاٹیاں زبردست میتھین کے کٹاؤ کی جانب اشارہ کر رہی ہیں۔ شاید بارش اور رسنے دونوں کی وجہ سے زیر سطح ، زمین کے اندر موجود مائع کی وجہ سے منہدم ہو گئی ہے۔
[1]۔ دیکھئے "شفاف خاصیت ٹائٹن کے سمندر میں" از جے ڈی ہوف گارٹنر اور دیگر ۔، نیچر جیو سائنس آن لائن اشاعت ٢٢ جون ء٢٠١٤۔
[2] ۔ ہرچند کیسینی کے پاس اب بھی ایندھن موجود ہے لیکن ہوائی انجنیئر اس کو زحل کے ماحول میں خود سے تباہ ہونے کے احکامات دیں گے تاکہ یہ ٹائٹن یا انسیلیڈس سے نہ ٹکرائے جہاں پر ماورائے ارض حیات کے ہونے کا امکان موجود ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں