Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعرات، 10 مارچ، 2016

    سیارہ زہرہ کے گم شدہ سمندروں کی تلاش - حصّہ چہارم

    اور ویسے میری نظر میں  وہ سمندر حیات سے لبریز ہیں؟[1]  نہیں مذاق  کی بات نہیں ہے  - بھائی آخر وہاں کے سمندروں میں حیات  کیوں نہیں ہوگی ؟ زمین پر حیات کے ماخذ کے بارے میں کافی چیزیں ایسیہیں جن کو ہم نہیں جانتے تاہم آج سے چار ارب برس پہلے جب ایک مرتبہ سیاروی تشکیل کی باقیات  نے سیاروں سے اپنے ہلاکت انگیز تصادموں کو ختم کر دیا تو یہ تیزی سے ظہور پذیر ہونے لگی  تھی ۔ اس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آسانی کے ساتھ یا ناگزیر طور پر سیاروں میں موزوں شرائط کے ساتھ وقوع پذیر ہو جاتی ہے۔ ہر وہ چیز جس کے بارے میں ہمارا شک ہے کہ وہ موزوں شرائط  میں شامل ہیں غالباً اسی وقت زہرہ پر بھی موجود ہوں گی۔

    سمندر؟ دیکھ لئے۔
    تازہ چٹانی سطح؟ دیکھ لی۔
    سمندر کی تہ میں آتش فشانی دہانے؟ کڑکتی بجلی؟ خلاء سے گرتے ہوئے معقول تعداد میں اور سطح پر بنتے ہوئے  نامیاتی مادّے؟ سب  دیکھ لئے ہیں ۔
    عظیم بمباری کے دور کے خاتمے کے  دس کروڑ برس بعد بتدریج کم ہونے سے شاذونادر ہونے والی آتشیں بمباری کے بعد  زمین کے سمندر پہلے قدیمی جانداروں سے لبریز تھے اور کوئی ایسی چیز ہمیں نہیں معلوم جو یہ بتائے کہ زہرہ پر اس طرح  سے الگ کوئی صورتحال ہوگی۔

    مزید اس پر بھی غور کیجئے –  چٹانیں بڑے تصادموں میں ٹوٹ کر ایک جہاں سے دوسرے جہاں میں جا سکتی ہوں گی ۔ یہ ہم جانتے ہیں۔ ہمیں انٹارکٹکا میں مریخی شہابیے ملے ہیں۔ اس طرح کے واقعات اس دور میں کافی عام تھے جب سیارے  نوجوان تھے۔ زہرہ، مریخ اور زمین سب ایک دوسرے پر اپنے چٹانی ٹکڑے پھینک رہے تھے۔ اور ہمیں معلوم ہے کہ سادہ حیوی جرثوموں کو مارنا بہت ہی مشکل ہے اور وہ چٹانوں کے اندر بین السیاروی سفر کے دوران زندہ باقی رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر حیات ان میں سے کسی جہاں میں پیدا ہو گئی تو قدرتی طور پر وہ دوسری جگہوں پر پھیلی ہوگی بشرطیکہ وہ ایسے سیارے پر پہنچی ہو جہاں وہ زندہ باقی رہ سکتی ہو۔ زہرہ، زمین اور مریخ کے ابتدائی سمندر الگ نہیں تھے اور اگر ان میں سے کوئی بھی ایک آباد رہا ہو تو امکان یہ ہے کہ پھر سب میں ہی حیات موجود  ہوگی۔ ذرا رکیں – ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے ایک آباد تھا، لہٰذا۔۔۔۔۔لہٰذا ہاں چلیں آسانی کے ساتھ زہرہ کے سمندروں کو حیات کے ساتھ تصوّر میں دیکھیں جہاں جرثومے اور نہ جانے کون کون سے جاندار ہوں گے۔

    اس حیات کا اس وقت کیا ہوا ہوگا جب سطح خشک ہو کر گرم ہو کر اس  مقام پر پہنچ گئی ہوگی جہاں نامیاتی مادّے نہیں بن سکتے؟ ہو سکتا ہے کہ وہ آسمان کی طرف منتقل ہو گئے ہوں۔ یہ چیز اس  امکان کے برخلاف ہے جس کا اندازہ  ہم مریخ میں  لگاتے ہیں، جہاں پر جب سطح خشک ہوئی ہوگی تو حیات شاید زمین کے اندر چلی گئی ہوگی۔ آج ایک طرح سے زہرہ کے بادل سمندروں کی جگہ ہیں – موٹے، عالمگیر جن کے اطراف میں مرطوب پرت ہے جو سیارے کے آسمان میں تیس میل اوپر تک کے حصّے کو ڈھانپے ہوئے ہے۔ ہم میں سے کچھ لوگوں کا اندازہ ہے کہ آج بھی وہاں پر ابری حیات کی کوئی قسم آسمان میں موجود ہوگی۔ دور کی کوڑی ہے شاید ، تاہم یاد رہے کہ ہمارے پاس ابھی تک حیات کے ارتقاء کے بارے میں کہیں اور کا کوئی سائنسی سراغ نہیں ہے لہٰذا فلکی حیاتیات میں اجنبی خیالات کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔[2]

    شاید زہرہ پر حیات آج کافی زیادہ کَسی ہوئی ہے۔ مجھے نہیں معلوم ، تاہم اتنا ضرور سوچتا ہوں کہ جب ہم زہرہ  سیارے کو دوسری تمام وجوہات کی بنا پر کھوج رہے ہوں گے۔ ان وجوہات میں یہ جاننا شامل ہوگا  کہ زمین جیسے سیارے کس طرح سے کام کرتے ہیں اور اس کھوج کے ذریعہ زمین   کے ماحولیاتی نمونوں کی جانچ بھی کی جا سکے گی۔ اور چاہئے زہرہ آج قابل رہائش ہے یا نہیں  میں سمجھتا ہوں کہ اس مخلوق کی تلاش کی ہمارے پاس کافی اچھی توجیحات  موجود ہیں جو وہاں کبھی چاند کی چاندنی کے بغیر راتوں کا لطف اٹھاتی اور اجنبی آسمان میں  تیرتی رہتی تھی۔

    اور آسمان کا کیا رنگ تھا؟ کوئی نہیں جانتا (افسوس کہ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ابتدائی ارض بھی ایک  بے حد طاقتور نامیاتی کہر زدہ نارنجی ، بھاپ ، سفید ابر یا نیلے سنگ مرمر جیسی تھی)۔ لہٰذا میں تو نیلے  سفید دھبوں کے ساتھ والی دنیا کے حق میں ہوں۔ آج زہرہ بہت ہی کثیف بادلوں کے ساتھ  ہے  -  باہر سے دیکھنے میں ایک روشن نگینہ تاہم سطح سے کند سرخ رنگ کا۔ میں شرط لگانے کو تیار ہوں کہ ہم جو  مستقل بادلوں سے  ڈھکی ہئیت آج دیکھتے ہیں یہ  کوئی نئی نہیں ہے تاہم یہ کوئی قدیمی بھی نہیں ہے، یعنی کہ یہ اسی سیاروی تشکیلی دور سے پیدا ہوئی ہے  جس نے اس کے بھاری  نمکین سمندروں کو  انجام پہنچایا تھا۔

    زہرہ پر سمندروں کے  موجود ہونے  کے تصوّر سے پہلی بار اس وقت متعارف ہوا جب میں پانچویں جماعت میں تھا اور جب میں آئزک ایسی موف کی  نئی نئی سائنسی  کہانی کی کتاب "خوش قسمت ستارہ اور زہرہ کے سمندر" کو پڑھا تھا۔ اس قصّے میں بتایا گیا تھا کہ انسان دیو ہیکل آبدوز گنبدوں کی شکل  والے شہر میں رہتے تھے ۔ یہ گنبد  ان کی حفاظت عالمگیری سمندر سے کرتے تھے  جو اجنبی حیات سے لبریز تھے۔ جن میں سے کچھ نقصان پہنچانے والی جبکہ کچھ بے ضرر  قسم کی حیات تھیں ۔ (اور  ہاں کچھ تو بہت ہی پراسرار قسم کے جانداروں کے بارے میں بتایا گیا تھا جس طرح سے خیال خواں مینڈک۔۔۔۔۔)(خاکہ 2.6
    خاکہ 2.6 کہانیاں زہرہ کی سمندری اور زمینی بلاؤں سے بھری ہوئی ہیں۔

     ١٩٥٠ء میں جب یہ کہانی  لکھی  جا رہی  تھی  تو یہ سائنسی طور پر زہرہ کے بارے میں ایک معقول نظریہ تھا۔ تاریخی طور پر زہرہ پر سمندر   ہونے کا خیال خلائی دور سے صدیوں پہلے سے موجود تھا۔ حقیقت  تو یہ ہے کہ جب خلائی جہاز نہیں بنے تھے تو ہر ایک  سمجھتا تھا کہ زہرہ پر سمندر ہیں۔ بلاشبہ کیونکہ اس کا حجم زمین کے حجم جتنا ہی ہے، بس زمین کی نسبت سورج  سے تھوڑا قریب ہے اور  ایک کثیف کرہ فضائی کے ساتھ بادلوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ معقول طور پر ایسا لگتا تھا کہ وہ  زمین کی نسبت تھوڑا سا  زیادہ  گرم اور ذرا زیادہ  منطقہ حارہ جیسا ہوگا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ، جنگ کے لئے بنائی گئی ریڈار کی ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زہرہ کے  کئے گئے   پہلے  ریڈیائی مشاہدے نے کچھ اشارے  اس بابت دیئے کہ وہ کوئی جنت کی طرح گرم مرطوب علاقہ نہیں ہے۔ "خلاف معمول خرد امواج کی شعاعوں " کے منبع سے متعلق قیاس میں کافی سارے امکانات شامل تھے بشمول وہ اشارے جو   اس کی گرم سطح کا عندیہ دے رہے تھے۔ زمین سے وہ پہلا خلائی جہاز جو کسی سیارے پر کامیابی کے ساتھ بھیجا گیا تھا وہ مرینر دوم  تھا جس کو زہرہ  کی طرف ١٩٦٢ء میں بھیجا گیا۔ مرینر دوم پر جو سب سے اہم تجربہ تھا وہ "خرد امواج کی ریڈیائی پیمائی " تھی۔ اس کو بنانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ ان عجیب شعاعوں کا سراغ لگا سکے۔ بین السیارہ خلائی کھوج مرینر دوم سے سے حاصل ہونے والے  پہلے  نتیجے میں معلوم ہوا کہ اشارے حقیقت میں اس سطح سے آرہے ہیں جو مائع پانی کی میزبانی کرنے سے کہیں زیادہ  گرم ہے۔ تب ہمیں  معلوم ہوا کہ زہرہ کی سطح زمین جیسی تو بالکل بھی نہیں ہے، یعنی یہ کافی گرم اور خشک ہے (خاکہ 2.7

    ہم خلائی کھوج کی ٥٠ سالہ تاریخ میں کافی آگے آ گئے ہیں تاہم وہ ڈرامائی سوال جو مرینر دوم کی پہلی کھوج نے رکھا تھا  اس کا جواب حاصل کرنا باقی  ہے، "یہ دونوں جڑواں ایک دوسرے سے کس طرح سے اس طرح سے الگ ہو گئے ہیں ؟" اور "زہرہ کے گم شدہ  سمندروں کا کیا ہوا؟"
      
     خاکہ 2.7 مرینر دوم پہلا کامیاب بین السیاروی خلائی جہاز جو زہرہ کی طرف ١٩٦٢ء  میں گیا۔ پروں جیسے شمسی پینل کے بائیں طرف ایک  ہشت پہلو آلات کا ڈبہ ہے ("بس")، اور اس کے بالکل  بائیں طرف دائروی "خرد امواج ریڈیائی پیما"  موجود ہے جس کا کام سیارے کا درجہ حرارت کو ناپنا تھا۔

    ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ زمین کے عدم تحفظ کے بارے میں ہم جتنا سیکھتے جا رہے ہیں اس لہٰذا سے  ہمارے پاس  کافی ایسی چیزیں ہوں گی  جو  ہمیں  اپنا  علم اور قابلیت کی  جانچ  کے لئے پڑوسی دنیا میں مدد گر ثابت ہو سکیں گی  اور ہم معلوم کر سکیں گے کہ وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بنیاد پر  شناسا ماحولیاتی عمل نے ایک  بالکل ہی اجنبی دنیا کو جنم دیا۔ کیونکہ اب  ہم سیاروں کو دریافت کرنے کے دور میں داخل ہو رہے ہیں جہاں ان میں سے کچھ زمین کی طرح کے ہیں اور جیسا کہ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان کی کہانیوں کو دوبارہ سے بنائیں  لہٰذا  اس کے لئے پڑوسی سیاروں کو سمجھنے کی ضرورت  ناگزیر اور لامحالہ ہے۔ ہم جلد ہی  زہرہ پر واپس جائیں گے، اور بالآخر گم شدہ  سمندروں کی پہیلی کو بوجھ لیں گے۔





    [1] ۔ ارے یہ میرا خواب ہے اگر آپ کو نہیں پسند تو آپ اپنا خواب دیکھیں۔
    [2] ۔ بلاشبہ اپنے خیالات  کو اتنا مت کھول دیجئے گا کہ دماغ اس سے نکل کر  باہر گر جائے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: سیارہ زہرہ کے گم شدہ سمندروں کی تلاش - حصّہ چہارم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top