افراط کی
پیدائش
"شاندار
احساس"، ایلن گتھ نے ١٩٧٩ء میں اپنی ڈائری میں لکھا۔ وہ اس بات کو جان کر
انتہائی مسرت محسوس کر رہا تھا کہ شاید وہ کائنات سے متعلق ایک عظیم خیال تک پہنچ
چکا ہے۔ گتھ نے بگ بینگ کے نظریہ کے پچاس سال بعد پہلی مرتبہ اس میں کبیر نظر ثانی
کروائی ہے جو ایک سادے سے مشاہدے کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ وہ کائنات سے متعلق کچھ
گہرے رازوں کو صرف اس وقت حل کر سکتا تھا جب وہ یہ فرض کرے کہ کائنات اپنی تخلیق
کے وقت ایک اضافی افراط سے گزری ہے، فلکیاتی طور پر اتنا سریع رفتار کہ کسی
طبیعیات دان کے گمان میں بھی نہیں ہوگا۔ اس اضافی پھیلاؤ کے ساتھ اس نے دیکھا کہ
وہ بغیر کسی مشکل کے کائنات سے متعلق کچھ گہرے سوالات کو حل کر سکتا ہے جن کی ابھی
تک وضاحت نہیں کی جا سکی تھی۔ یہ ایک ایسا خیال تھا جس نے فلکیات کی دنیا میں
انقلاب برپا کرنا تھا۔ (حالیہ کائناتی اعداد و شمار ، بشمول ڈبلیو میپ سیارچے کے
نتائج اس نظریہ سے ہم آہنگ ہیں۔) یہ صرف کائناتی مفروضہ نہیں ہے بلکہ اب تک کا پیش
کیا جانے والا سادہ اور سب سے قابل بھروسے نظریہ ہے۔
یہ قابل تعریف
بات ہے کہ اتنے سادے سے خیال نے فلکیات سے متعلق کافی سارے کٹھن سوالات کو حل کر
دیا ہے۔ ان کافی سارے مسائل میں سے ایک "چپٹے پن" یا "سپاٹ پن
" کے مسئلہ کا حل ہے۔ فلکیاتی اعداد و شمار اس بات کو بیان کر رہے ہیں کہ
حیرت انگیز طور پر کائنات کا خم صفر سے قریب تر ہے، اصل میں یہ صفر سے اتنا زیادہ
نزدیک ہے جتنا پہلے ماہرین فلکیات سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
یہ آسانی سے اس
بات کو بیان کر دیتا ہے کہ اگر کائنات غبارے کی طرح تیزی سے پھول رہی ہے تو افراطی
دور میں وہ چپٹی نظر آئے گی۔ ہم چیونٹی کی طرح غبارے کی سطح پر چل رہے ہیں لہٰذا
ہم اس قدر چھوٹے ہیں کہ غبارے کے خم کا مشاہدہ نہیں کر سکے۔ افراط نے مکان و زمان
کو اس قدر کھینچ دیا ہے کہ وہ ہمیں سپاٹ نظر آتا ہے۔
ایلن گتھ کی
دریافت میں تاریخی بات بنیادی ذرّات کی طبیعیات کا اطلاق بحیثیت مجموعی کائنات بشمول
اس کے ماخذ کے مطالعہ پر ہے جس میں قدرتی طور پر پائے جانے والے ننھے ذرّات کا
تجزیہ کیا جاتا ہے۔ ہمیں اب یہ معلوم ہے کہ کائنات کے گہرے اسرار شدید چھوٹی چیزوں
کی طبیعیات (کوانٹم نظریئے کی دنیا اور بنیادی ذرّات کی طبیعیات)کے بغیر حل نہیں
کئے جا سکتے۔
وحدت کی تلاش
گتھ ١٩٤٧ء میں
نیو جرسی میں واقع نیو برنسوک میں پیدا ہوا۔ آئن سٹائن، گیمو یا ہوئیل کے برعکس کوئی
بھی ایسی چیز یا اہم واقعہ نہیں تھا جو اس کو طبیعیات کی دنیا میں لے آتا۔ نہ ہی
اس کے والدین نے کسی تعلیمی ادارے سے کوئی سند حاصل کی تھی اور نہ ہی سائنس میں
کچھ زیادہ دلچسپی دکھائی تھی۔ لیکن وہ خود سے ہمیشہ ہی سے ریاضی اور قوانین قدرت
کے تعلق کے بارے میں متجسس رہا تھا۔
١٩٦٠ء کے عشرے
میں ایم آئی ٹی میں اس نے سنجیدگی سے بنیادی ذرّاتی طبیعیات میں اپنا مستقبل بنانے
کا سوچا۔ بالخصوص وہ طبیعیات کی دنیا میں ہونے والی نئی انقلابی سوچ یعنی کہ تمام
بنیادی قوّتوں کی وحدت کی تلاش کی وجہ سے پیدا ہونے والی سنسنی سے بہت متاثر تھا۔
کافی عرصے طبیعیات کی دنیا کی مہم جوئی اس وحدت کی تلاش میں تھی جو کائنات کی
پیچیدگی کو سادے اور سب سے مربوط انداز میں بیان کر سکے۔ یونانیوں کے دور سے لے کر
سائنس دانوں کا خیال رہا ہے کہ کائنات جس کا مشاہدہ ہم دور حاضر میں کرتے ہیں ایک
عظیم سادگی کی ٹوٹی اور بکھری ہوئی باقیات ہے اور ہمارا مقصد اس وحدت کو پانا ہے۔
مادّے اور توانائی کی نوعیت کو دو ہزار برسوں پر محیط تفتیش کے دوران جاننے کے بعد
طبیعیات دانوں نے اس بات کا تعین کیا ہے کہ چار بنیادی طاقتیں کائنات کو چلا رہی
ہیں۔ (سائنس دانوں نے پانچویں قوّت کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن ابھی تک اس
سمت سے آنے والے نتائج نے منفی یا غیر حتمی اشارے دیے ہیں۔)
پہلی قوّت ،
کشش ثقل ہے جس نے سورج کو تھام کر رکھا ہوا ہے اور سیاروں کو نظام شمسی کے سماوی
مدار میں چکر لگانے میں رہنمائی کی ہے۔ اگر قوّت ثقل کو اچانک ہی ختم کر دیا جائے
تو فلک میں موجود ستارے یکدم پھٹ پڑیں گے ، زمین ریزہ ریزہ ہو جائے گی اور ہم
فضائے بسیط میں ایک ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے اڑ جائیں گے۔
دوسری عظیم
طاقت برقی مقناطیس کی ہے ، وہ طاقت جس نے ہمارے شہروں کو روشن کیا ہوا ہے، ہماری
دنیا میں ٹیلی ویژن کی صورت میں رنگینی بکھیری ہوئی ہے اور ہمارے زندگی میں موبائل
فون، ریڈیو، لیزر اور انٹرنیٹ جیسی آسائشیں مہیا کی ہیں۔ اگر برقی مقناطیسی قوّت
اچانک ختم ہو جائے، تو تہذیب اچانک ہی سے ایک سے دو صدی پیچھے ماضی کے تاریک دور
میں پہنچ جائے گی۔ اس بات کا اندازہ بہتر طور پر ٢٠٠٣ء کے بلیک آوٹ سے ہو سکتا ہے جس
نے پورے شمال مشرق کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔ اگر ہم برقی مقناطیسی قوّت کا خرد
بین سے جائزہ لیں ، تو ہم یہ جان سکیں گے کہ اصل میں یہ ننھے ذرّات یا کوانٹا فوٹون
کہلاتے ہیں۔
تیسری قوّت
کمزور نیوکلیائی طاقت ہے جو ریڈیائی تابکاری کی ذمہ دار ہے۔ کیونکہ کمزور قوّت
اتنی مضبوط نہیں ہوتی کہ وہ جوہر کے مرکزے کو ایک ساتھ جڑا رکھ سکے لہٰذا یہ مرکزے
کی ٹوٹ پھوٹ یا انحطاط کی اجازت دیتی ہے۔ ہسپتال میں استعمال ہونے والی نیوکلیائی
ادویات اس ہی قوّت پر انحصار کرتی ہیں۔ کمزور قوّت زمین کے قلب کو تابکاری مادّے
کے ذریعہ گرم رکھنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے جس کے نتیجے میں آتش فشاؤں کو زبردست
توانائی ملتی ہے۔ کمزور قوّت الیکٹران اور نیوٹرینو (بھوت جیسے ذرّات جن کی کمیت
قریباً نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور جو دسیوں کھرب میل پر مشتمل ٹھوس سیسے سے
بغیر کسی تعامل کے گزر سکتے ہیں)کے تعامل پر انحصار کرتی ہے۔ یہ الیکٹران اور
نیوٹرینو دوسرے ذرّات کے ساتھ تعامل کرتے ہیں جو ڈبلیو اور زی بوسون کہلاتے ہیں۔
مضبوط قوّت
جوہر کے مرکزے کو ایک ساتھ پکڑ کر رکھتی ہے۔ نیوکلیائی طاقت کے بغیر، مرکزہ ریزہ
ریزہ ہو جائے گا، جوہر الگ ہو جائیں گے اور ماہیت جس کو ہم جانتے ہیں ختم ہو جائے
گی۔ مضبوط نیوکلیائی توانائی ہی تقریباً ایک سو کے قریب عناصر جو کائنات میں ہمیں
جا بجا نظر آتے ہیں کو جوڑے رکھنے کی ذمہ دار ہے۔ کمزور اور مضبوط قوّت مل کر ہی
اس روشنی کے اخراج کا باعث بنتی ہیں جو ستارے بذریعہ آئن سٹائن کی مساوات E=MC2 سے
پیدا کرتے ہیں۔ نیوکلیائی توانائی کے بغیر تمام کائنات میں ظلمت کا اندھیرا ہوتا اور
زمین پر درجہ حرارت اس قدر گر جاتا کہ سمندر ٹھوس ہو جاتے۔
سب سے تعجب خیز
چیز ان تمام قوّتوں کا ایک دوسرے سے مکمل طور پر مختلف ہونا ہے جس میں ان کے مختلف
خواص اور مضبوطی بھی شامل ہے۔ مثال کے طور پر قوّت ثقل ان تمام چاروں قوّتوں میں
سب سے کمزور ہے ، یعنی کہ برقی مقناطیسی قوّت کے مقابلے میں ١٠٣٦ گنا
زیادہ کمزور۔ زمین کا وزن چھ سو کھرب کھرب کلوگرام ہے ، اس کے باوجود اس کا ضخیم
وزن اور اس کی قوّت ثقل آسانی کے ساتھ برقی مقناطیسی قوّت سے زائل ہو جاتی ہے۔
مثال کے طور پر آپ کا کنگھا کاغذ کے ننھے ٹکڑے ساکن برق کے ذریعہ اٹھا سکتا ہے جس
کا مطلب ہوا کہ اس نے پوری زمین کی کشش کو زائل کر دیا۔ مزید براں یہ کہ قوّت ثقل
ہمیشہ کشش رکھتی ہے۔ جبکہ برقی مقناطیسی قوّت دونوں دفع اور کھینچے کی قوّت رکھتی
ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ذرّہ پر کونسا بار ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں