مصنوعی جوف
جب ایک قوّت سے
ٹوٹ کر دوسری قوّتیں نکلتی ہیں تو اس عمل کا موازنہ کسی ڈیم کے ٹوٹنے سے کیا جا
سکتا ہے۔ دریا نشیب کی طرف بہتے ہیں کیونکہ پانی پست ترین توانائی کی جانب رواں
ہوتا ہے جو کہ سطح سمندر پر ہی موجود ہوتی
ہے۔ پست ترین توانائی کی حالت کو جوف کہتے ہیں۔ بہرحال ایک غیر معمولی حالت بھی
ہوتی ہے جو مصنوعی جوف کہلاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم دریا پر ڈیم بنائیں تو
ڈیم پائیدار لگے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہوگی کہ وہ شدید دباؤ میں ہوگا۔ اگر کوئی چھوٹا
سا شگاف بھی ڈیم میں پڑ گیا تو دباؤ ڈیم کو یکایک پھوڑ دے گا اور زبردست توانائی
کی مقدار کو مصنوعی جوف (دریا کے ڈیم )سے خارج کرے گا اور ایک تباہ کن سیلاب کا
سبب حقیقی جوف (سطح سمندر)کی جانب بنے گا۔ اگر ڈیم یکایک ٹوٹ جائے اور اچانک ہی
حقیقی جوف کی جانب چل پڑے تو گاؤں کے گاؤں سیلاب میں بہ سکتے ہیں ۔
بعینہ اسی طرح عظیم وحدتی نظریئے میں کائنات کی ابتدا ایک مصنوعی
جوف سے ہوئی، جہاں تین قوّتیں متحد ہو کر ایک میں مجتمع ہو گئیں تھیں۔ بہرحال
کائنات غیر پائیدار تھی اور یکایک ٹوٹ گئی جس کے نتیجے میں وہ مصنوعی جوف سے ،
جہاں قوّتیں متحد تھیں ، ایک حقیقی جوف کی طرف روانہ ہوا جہاں قوّتیں ٹوٹ گئیں
تھیں۔
اس چیز کا
ادراک گتھ کے عظیم وحدتی نظریئے کی جانچ سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ لیکن گتھ نے کچھ
ایسی چیز دیکھی جو اس سے پہلے دوسروں کی نظروں سے اوجھل تھی۔ مصنوعی جوف کی حالت
میں ، کائنات زبردست اسراع کے ساتھ پھیلنا شروع ہوئی بالکل اسی طرح جیسا کہ ڈی سٹر
نے ١٩١٧ء میں اندازہ لگایا تھا۔ یہ کونیاتی مستقل یعنی مصنوعی جوف کی توانائی تھی جس نے کائنات کو ایسی
زبردست اور شاندار شرح سے پھیلایا تھا۔ گتھ نے خود سے ایک ثمر آور سوال کیا۔ کیا
ڈی سٹر کا بیان کردہ پھیلاؤ فلکیات کے کچھ مسائل کو حل کر سکتا ہے؟
یک قطبی مسئلہ
عظیم وحدتی
نظریئے کے اندازوں میں سے ایک اندازہ وقت کی ابتدا میں موجود یک قطبیوں کی کثرت کا
ہے۔ یک قطبی ایک ایسا مقناطیس ہوتا ہے جس کا یا تو شمالی قطب ہوتا ہے یا پھر جنوبی
قطب۔ قدرتی طور پر یہ قطبین ہمیشہ جوڑے میں ہی ملتے ہیں۔ اگر آپ ایک مقناطیس کو
لیں ، تو آپ کو دونوں قطبین شمالی اور جنوبی ایک ساتھ ملیں گے۔ اگر آپ ہتھوڑی لیں
اور مقناطیس کو آدھا کر دیں تب بھی آپ کو دو علیحدہ قطبین نہیں حاصل ہوں گے؛ اس کے
بجائے آپ کو دو چھوٹے مقناطیس ملیں گے جن میں سے ہر ایک کا اپنا شمالی اور جنوبی
جوڑا ہوگا۔
بہرحال مسئلہ
یہ ہے کہ سائنس دان صدیوں کے تجربات کے بعد بھی حتمی طور یک قطبیوں کا کوئی ثبوت
حاصل نہیں کر سکے۔ کیونکہ ابھی تک کسی بھی یک قطبی نہیں دیکھا گیا ہے لہٰذا گتھ الجھا ہوا تھا کہ عظیم وحدتی نظریہ
کیوں اتنی وافر مقدار میں یک قطبیوں کے ہونے کا بیان کر رہا ہے۔ "افسانوی
جانور کی طرح باوجود کسی تصدیقی ثبوت کے یک قطبیوں نے انسانی دماغ کو حیران کرنا
جاری رکھا ہے ،" گتھ کہتے ہیں۔
پھر یکایک اس
پر کچھ آشکار ہوا۔ یکدم تمام ٹکڑے مل کر ایک تصویر بناتے ہوئے نظر آئے۔ اس کے فہم
کے مطابق اگر کائنات کی شروعات مصنوعی جوف کی حالت میں ہوئی ہے تو وہ غیر معمولی
شرح سے پھیلی ہوگی جیسا کہ ڈی سٹر نے ایک عشرے پہلے تجویز کیا تھا۔ اس مصنوعی جوف
میں کائنات یکدم ناقابل تصور طور پر پھول سکتی ہے جس کے نتیجے میں یک قطبیوں کا
گنجان پن کم ہو سکتا ہے۔ اگر سائنس دانوں نے یک قطبیوں کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تو
یک قطبی ایک ایسی کائنات میں پھیلے ہوئے ہوں گے جو ہماری سوچ سے بھی بڑی کائنات
ہے۔
گتھ کے لئے یہ افشائے
حقیقت لطف و سرور کا منبع تھا۔ ایسا سادہ مشاہدہ ایک ہی ہلے میں یک قطبیوں کے
مسئلہ کا حل پیش کر دیتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی گتھ کو یہ ادراک بھی ہو گیا کہ اس
اندازے کا فلکیاتی دنیا میں اس کے اصل خیال سے کہیں زیادہ اثر ہوگا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں