چپٹے یا
سپاٹ پن کا مسئلہ
گتھ کو احساس
ہو گیا تھا کہ اس کے نظریہ نے ایک اور مسئلہ یعنی کہ چپٹے پن کو حل کر دیا ہے جس
کو ہم پہلے زیر بحث کر چکے ہیں۔ بگ بینگ کی معیاری تصویر یہ بیان نہیں کرتی کہ آیا
کیوں کائنات اس قدر چپٹی ہے۔١٩٧٠ء کے عشرے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ کائنات میں
مادّے کی کثافت جس کو اومیگا کہتے ہیں وہ لگ بھگ 0.1 کے قریب تھی۔ اس کا ایک(1) کی مبصرانہ کمیت سے کافی قریب ہونا سائنس دانوں کو دق کئے ہوئے تھی کیونکہ بگ بینگ
کو گزرے ہوئے ارب ہا برس گزر چکے تھے۔ پھیلتی ہوئی کائنات کے ساتھ اومیگا کو تبدیل
ہونا چاہئے تھا۔ یہ اعداد جو ایک کے انتہائی قریب تھا ایک مکمل بے عیب چپٹے بن کو
بیان کر رہا تھا اور یہ بات سائنس دانوں کو مضطر کر رہی تھی۔
وقت کی ابتدا
میں اومیگا کی کوئی بھی معقول قدر لے لیں، آئن سٹائن کی مساوات بتاتی ہے کہ اس کو
لازمی طور پر صفر کے قریب ہونا چاہئے تھا۔ اومیگا کا بگ بینگ کے اتنے ارب ہا برس
گزرنے کے بعد ایک سے قریب تر ہونے کے لئے کسی معجزے کی ضرورت تھی۔ خدا یا کسی خالق
نے اومیگا کی قدر کو اس قدر شاندار اور درست طور پر چنا تھا جو آج 0.1 کے لگ بھگ ہے۔
اومیگا کو 0.1 سے
لے کر 10 تک ہونے کے لئے بگ بینگ کے وقوع پذیر ہونے کے ایک سیکنڈ بعد اس کی قدر کو 1.00000000000000
ہونا چاہئے تھا۔ بالفاظ دیگر زمان کی ابتدا میں قدر کو ہر صورت میں ایک ہزار کھرب
میں سے ایک حصّہ کے اندر ہونا چاہئے تھا ، یہ ایک ایسی بات ہے جس کا وقوع پذیر
ہونا ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔
تصور کریں کہ
آپ ایک پنسل کو عمودی طور پر اس کی نوک پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم چاہئے
کچھ بھی کر لیں عام طور پر پنسل گر ہی جائے گی۔ اصل میں پنسل کو توازن میں کھڑا
کرنے کے لئے شروع سے ہی ایک عظیم درستگی کے ساتھ اس کو کھڑا کرنا ہوگا تاکہ وہ گرے
نہیں۔ اب پنسل کو اس کی نوک پر کھڑا کرکے توازن قائم کرنے کی کوشش کریں تاکہ یہ
عمودی طور پر صرف ایک سیکنڈ کے بجائے برسوں تک قائم رہے! آپ دیکھیں گے کہ آج اومیگا
کو 0.1 کے
نزدیک حاصل کرنے کے لئے ناقابل بیان درستگی درکار ہوگی۔ اومیگا میں ہلکی سی خطا اومیگا
کو ایک کی قدر سے الگ کر دے گی۔ لہٰذا ایسا کیوں ہے کہ اومیگا ایک سے آج اتنا
نزدیک ہے جبکہ اس کو تو فلکیاتی پیمانے پر اس سے دور ہونا چاہئے تھا۔
گتھ کے لئے اس
کا جواب واضح طور پر سامنے تھا۔ کائنات سادہ طور پر اس پیمانے پر پھولی ہے جس کی
وجہ سے یہ چپٹی نظر آتی ہے۔ جس طرح سے زمین پر رہنے والا شخص یہ خیال کرتا ہے کہ
زمین چپٹی ہے کیونکہ وہ افق کو نہیں دیکھ سکتا، اسی طرح سے فلکیات دانوں نے یہ
نتیجہ اخذ کیا کہ اومیگا لگ بھگ ایک کے قریب ہے کیونکہ افراط نے کائنات کو چپٹا کر
دیا ہے۔
افق کا مسئلہ
افراط نہ صرف
کائنات کے سپاٹ پن سے متعلق اعداد و شمار کو بیان کرتا ہے بلکہ یہ افق کا مسئلہ
بھی حل کر دیتا ہے۔ یہ مسئلہ اس بات کے احساس سے شروع ہوتا ہے کہ رات کا آسمان
کیوں نسبتاً یکساں نظر آتا ہے اس بات سے
کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کہاں دیکھ رہے ہیں۔ اگر آپ اپنے سر کو ١٨٠ درجے کے زاویہ
پر بھی گھما لیں تو بھی آپ کا مشاہدہ کائنات کو یکساں ہی بیان کرے گا۔ ہرچند کہ آپ
کائنات کے ان حصّوں کو بھی دیکھ لیں جو ایک دوسرے سے ارب ہا نوری برس کے فاصلے پر
موجود ہیں۔ طاقتور دوربینیں جو آسمان کی خاک چھانتی رہتی ہیں وہ بھی اس یکسانیت
میں کوئی قابل ذکر فرق نہیں ڈھونڈ پائی ہیں۔ ہمارے خلائی سیارچوں نے بھی اس بات کی
تصدیق کی ہے کہ کائناتی خرد امواج بھی شدید طرح سے یکساں ہیں۔ اس بات سے کوئی فرق
نہیں پڑتا کہ آپ خلاء میں کس طرف دیکھ رہے ہیں ، پس منظر کی اشعاع کا درجہ حرارت بھی
ایک درجہ کے ہزار حصّے سے زیادہ کہیں مختلف نہیں ملتا۔
لیکن یہ ہی تو
مسئلہ ہے۔ کیونکہ روشنی کی رفتار کائنات میں کسی بھی چیز کے سفر کرنے کی حد رفتار
ہے۔ لہٰذا ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ کائنات کی عمر میں روشنی یا اطلاع رات کے
آسمان کے ایک حصّہ سے سفر شروع کرکے دوسرے حصّے کی جانب پہنچ سکے۔ مثال کے طور پر
اگر ہم پس منظر کی امواج میں ایک طرف دیکھتے ہیں تو اس نے بگ بینگ کے بعد سے ١٣
ارب نوری برس کا سفر طے کیا ہے۔ اگر ہم اپنا سر گھما کر دوسری مخالف جانب دیکھیں
تو ہمیں خرد موجی امواج بالکل ویسی ہی نظر آئیں گی جیسے کہ ١٣ ارب نوری برس سے سفر
کرکے آنے والی مخالف سمت کی امواج ہوں گی۔ کیونکہ ان کا درجہ حرارت ایک جیسا ہی ہے
لہٰذا زمان کے شروع میں ان کا تعلق حدت کے ایک ہی منبع سے ہونا چاہئے۔ لیکن کوئی
بھی ایسا طریقہ نہیں ہے کہ اطلاعات رات کے آسمان میں موجود بگ بینگ کے وقت سے اب
تک دو مخالف سمتوں سے آپس میں رابطہ کر سکیں (جو ٢٦ ارب نوری برس کے فاصلے پر
موجود ہوں گی)۔
صورتحال تو اس سے بھی زیادہ خراب اس وقت ہو جاتی
ہے جب ہم بگ بینگ کے شروع ہونے کے تین لاکھ اسی ہزار برس بعد بننے والی پس منظر کی
اشعاع کو دیکھتے ہیں جب وہ پہلی دفعہ بنی تھیں۔ اگر ہم آسمان کے مخالف سمت میں
دیکھتے ہیں تو ہمیں پس منظر اشعاع یکساں ہی نظر آتی ہیں۔ بگ بینگ کے نظریئے کے
مطابق ان نقاط کو ایک دوسرے سے نو کروڑ نوری برس دور ہونا چاہئے تھا ( کیونکہ خلاء
دھماکے کے وقت سے ہی پھیل گئی تھی )۔ لیکن ایسا تو کوئی طریقہ نہیں تھا کہ روشنی
صرف تین لاکھ اسی ہزار برس میں نو کروڑ نوری برس تک کا سفر کر چکی ہو۔ اطلاعات کو
روشنی کی بھی رفتار سے تیز سفر کرنا ہوگا جو کہ ایک ناممکن سی بات ہے۔
اصولی طور پر
کائنات کو گلٹی دار ہونا چاہئے تھا جس میں ایک دور دراز کا حصّہ اتنا دور ہوتا کہ
وہ دوسرے حصّے سے کسی قسم کا رابطہ کر سکتا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کائنات اتنا
زیادہ یکساں نظر آتی ہے جبکہ روشنی کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہے کہ وہ اطلاعات کو
ایک دور کے حصّے سے لے کر کسی اور حصّے تک پھیلا سکے؟ (پرنسٹن کے طبیعیات دان
رابرٹ ڈک اس کو افقی مسئلہ کہتے ہیں کیونکہ افق وہ دور دراز کا حصّہ ہوتا ہے جو آپ
دیکھ سکتے ہیں ، وہ دور کا حصّہ جہاں روشنی سفر کر سکتی ہے۔)
گتھ کو اس بات
کا احساس ہو گیا تھا کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کی کنجی افراط ہی ہے۔ اس نے کہا کہ
ہماری قابل مشاہدہ کائنات ممکنہ طور پر اصل کائناتی آگ کے گولے کا ایک ننھا سا
حصّہ ہے۔ یہ حصّہ بذات خود کمیت اور درجہ حرارت میں یکساں ہے۔ تاہم افراط نے یکایک
اس ننھے سے حصّے کو یکساں مادّے میں 10 کی قوت نما 50کے بقدر پھیلا دیا ، جو روشنی
کی رفتار سے کہیں زیادہ تھی۔ لہٰذا آج شاندار طور پر یکساں نظر آنے والی قابل
مشاہدہ کائنات کی وجہ یہ افراط ہی ہے۔ لہٰذا
رات کا آسمان اور خرد موجی اشعاع اس قدر یکساں اس لئے ہیں کیونکہ کائنات ایک موقع پر نہایت ننھا لیکن یکساں حصّہ
اس اصل آگ کے گولے کا تھی جو یکدم پھول کر کائنات میں بدل گیا ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں