کسی ابلتے ہوئے پانی کے برتن کا
تصوّر کریں۔ ابلنے سے ذرا ہی پہلے وہ بلند توانائی کی حالت میں ہوتا ہے۔ وہ ابلنا
چاہتا ہے لیکن ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ اس کو بلبلے پھلانے کے لئے کچھ کثافت کی
ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جب ایک دفعہ بلبلہ بننا شروع ہو جاتا ہے تو وہ فوری طور پر کم
توانائی کی حالت میں حقیقی جوف کر طرف چلا جاتا ہے اور برتن بلبلوں سے بھر جاتا ہے۔
آخر کار بلبلے اتنے بڑے ہو جاتے ہیں کہ وہ باہم ایک دوسرے میں پیوستہ ہو جاتے ہیں
، تاآنکہ برتن یکساں طور پر بھاپ سے بھر جائے۔ جب تمام بلبلے ضم ہو جاتے ہیں، تو پانی
کا بھاپ کی جانب عبوری مرحلہ مکمل ہو جاتا ہے۔
گتھ کی اصل
تصویر میں ہر بلبلہ ہماری کائنات کے ایک حصّے کی نمائندگی کرتا ہے جو جوف میں سے
نکل کر پھول رہی ہے۔ لیکن جب گتھ نے یہ حساب لگایا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ بلبلے
صحیح طرح سے آپس میں پیوستہ نہیں ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں کائنات ناقابل تصوّر
حد تک گلٹی زدہ ہونی چاہئے۔ بالفاظ دیگر اس کے نظریئے نے برتن کو تو بھاپ سے مکمل
طور پر بھرا ہوا ہے جو کبھی بھی مل کر بھاپ کا یکساں برتن نہیں بنائیں گے۔ گتھ کے
ابلتے پانی کا ظروف کبھی بھی موجودہ دور کی کائنات کی شکل میں نہیں آئے گا۔
١٩٨١ء میں روس
کے پی این لیبی دیف انسٹیٹیوٹ کے انڈری لنڈے اور اس وقت یونیورسٹی آف پنسلوانیا
میں کام کرنے والےپال جے اسٹائن ہارڈت اور اینڈریاس نے اس معمے کو سلجھانے کا ایک
راستہ نکال لیا تھا۔ ان کو اس بات کا ادراک ہو گیا تھا کہ مصنوعی جوف کا اگر ایک
اکلوتا بلبلہ کافی پھول جائے تو وہ بالآخر پھول کر پورے برتن میں پھیل جائے گا اور
ایک یکساں کائنات کی تخلیق کر دے گا۔ زیادہ بلبلوں کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی کہ وہ
پیوستہ ہو کر ایک یکساں بھاپ کا برتن بنائیں۔ صرف ایک بلبلہ ایسا کر سکتا ہے بشرطیکہ
وہ کافی زیادہ پھولے۔
ذرا واپس سے
ڈیم اور مصنوعی جوف کی مثال کو ذہن میں لیں۔ جتنا زیادہ چوڑا ڈیم ہوگا پانی کو
اتنا ہی وقت اس میں سے گزرنے میں لگے گا۔ اگر ڈیم کی دیواریں زیادہ موٹی ہوں گی تو
پانی کے گزرنے کو لمبے عرصے تک روک کر رکھا جا سکے گا۔ اگر کائنات 10 کی قوت نما
50 کی نسبت سے پھولتی ہے تو ایک ہی بلبلے کے پاس اتنا وقت ہوگا کہ وہ افقی، چپٹے
پن اور یک قطبی کے مسئلوں کو حل کر سکے۔ بالفاظ دیگر اگر پانی کو ڈیم میں کافی دیر
تک روکا جا سکتا ہے تو کائنات اتنے عرصے کے لئے پھول سکتی ہے جس سے وہ چپٹی دکھائی
دے اور یک قطبیوں کو رقیق بنا دے۔ لیکن یہ اب بھی ایک سوال اپنے پیچھے چھوڑ جاتا
ہے : کون سا ایسا نظام ہے جو افراط کو اس قدر بڑے مقدار میں جاری رکھ سکتا ہے؟ آخر
کار یہ چمٹنے والا مسئلہ "با وقار اخراجی مسئلہ " کے نام سے مشہور ہو
گیا۔ یعنی کہ کائنات کو کیسے اتنا وقت مل گیا کہ ایک بلبلے نے پوری کائنات کو پیدا
کر دیا۔ برسوں تک کم از کم پچاس نظام تجویز کئے گئے تاکہ اس با وقار اخراجی مسئلہ
سے جان چھڑائی جا سکے۔ ( یہ بہت ہی دھوکہ دینے کی حد تک ایک مشکل مسئلہ ہے۔ میں نے
خود سے کافی حل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ابتدائی کائنات میں معمولی سی افراط کی
مقدار پیدا کرنا نسبتاً آسان ہے۔ لیکن جو بات مشکل ہے وہ یہ کہ افراط کو 10 کی قوت
نما 50 کی مقدار سے پھلایا جائے۔ ظاہر سی
بات ہے کہ کوئی بھی 10 کی قوت نما 50 کی
قدر کو ہاتھ سے ڈال سکتا ہے لیکن یہ مصنوعی اور بناوٹی ہوگا۔) بالفاظ دیگر افراط
کا عمل کافی حد تک یک قطبی، افقی اور چپٹے پن کے مسئلوں کا حل تجویز کرتا ہے لیکن
یہ بات کوئی بھی درست طور پر نہیں جانتا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے افراط کو شروع
اور ختم کیا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں