پانچواں باب
ہر منہدم ہوتے بلیک ہول کے اندر شاید ایک نئی پھیلتی ہوئی کائنات کا تخم ہوتا ہے۔
- سر مارٹن ریس
روزن سیاہ کسی اور جگہ جانے کا شگاف ہو سکتے ہیں۔ ایسا قیاس کیا جاتا ہے کہ اگر ہم روزن سیاہ میں جا سکتے تو ہم کہیں اور نکلتے، کائنات کے کسی مختلف حصّے اور مختلف دور میں۔۔۔ روزن سیاہ حیرت کے جہاں کے دروازے ہو سکتے ہیں۔ لیکن کیا وہاں کوئی ایلس یا سفید خرگوش موجود ہیں؟
- کارل ساگان
عمومی اضافیت ایک کاٹھ کے گھوڑے کی طرح ہے۔ اوپر سے دیکھنے پر نظریہ نہایت شاندار نظر آتا ہے۔ صرف چند سادہ سے مفروضوں کا استعمال کرتے ہوئے کوئی بھی کائنات کے عمومی خدوخال بشمول روشنی کے خم اور بگ بینگ کو حاصل کر سکتا اور ان سب کو حیرت انگیز صحت کے ساتھ ناپ سکتا ہے۔ اگر ہم ابتدائی کائنات میں کونیاتی مستقل کو ہاتھ سے ڈال دیں تو افراط زدہ دور بھی اس میں صحیح طرح سے بیٹھ جاتا ہے۔ یہ حل ہمیں کائنات کی پیدائش اور موت دونوں کے نہایت پراثر نظریات کو پیش کرتا ہے ۔
لیکن اس کاٹھ کے گھوڑے کے اندر ہمیں ہر قسم کے بھوت اور بد روح گھات لگائے ملیں گے جس میں روزن سیاہ ، روزن سفید، ثقب کرم یہاں تک کہ ٹائم مشین بھی ملیں گی جو ہماری عقل عامہ سے باہر کی بات ہے۔ یہ بے قاعدگیاں اس قدر عجیب سمجھی جاتی ہیں کہ آئن سٹائن خود یہ سمجھتا تھا کہ ان کو قدرتی طور پر کبھی بھی تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ آج ہم جانتے ہیں کہ یہ بے قاعدگیاں آسانی سے نظر انداز نہیں کی جا سکتیں۔ یہ عمومی اضافیت کا ایک لامحالہ حصّہ ہیں۔ اصل میں یہ تو عظیم انجماد کا سامنے کرنے والی شعوری مخلوق کے لئے راہ نجات ہیں۔
لیکن شاید ان بے قاعدگیوں میں سب سے عجیب بے قاعدگی ممکنہ متوازی کائناتوں اور ان کو جوڑنے والے دروازوں کی ہے۔ اگر ہم اس تمثیل کو دوبارہ یاد کریں جس میں شیکسپیئر نے کہا تھا کہ دنیا ایک سیج ہے ، تو عمومی اضافیت اس میں چور دروازہ ہونے کے ممکن ہونے کو تسلیم کرتی ہے۔ لیکن یہ چور دروازہ ہمیں زیر زمین لے جانے کے بجائے ایک ایسی متوازی سیج پر لے جائے گا جو اصل کی طرح ہی ہوگی۔ حیات کی سیج کو ایک مختلف مراحل کی سیج تصوّر کریں ، جس میں ہر مرحلہ دوسرے مرحلے کے اوپر موجود ہے ۔ ہر سیج پر اداکار اپنی سطریں پڑھ کر سیٹ کے پاس گھوم رہا ہے اور یہ سمجھ رہا ہے کہ اس کی سیج ہی وہاں موجود ہے ، اور مختلف حقیقتوں کے ممکنہ وجود سے بے خبر ہے۔
بہرحال اگر ان کا سامنا کسی دن چور دروازے سے ہو گیا اور وہ اس میں داخل ہو گئے، تب وہ اپنے آپ کو ایک بالکل ہی نئے جہاں میں پائیں گے ، جہاں نئے قوانین، نئے اصول اور نیا اسکرپٹ موجود ہوگا۔
لیکن اگر لامحدود کائناتیں وجود رکھ سکتی ہیں ، تو کیا ان میں سے کوئی ایک جو مختلف قوانین طبیعیات کے تابع ہو حیات کو پروان چڑھا سکتی ہے۔ یہ وہ سوال ہے جو آئزک ایسی موف نے اپنے کلاسک سائنسی قصّے " دا گاڈ دیم سیلفس " میں اٹھایا ہے۔ وہ اس ناول میں ایک ایسی متوازی کائنات کا بیان کرتا ہے جہاں کی نیوکلیائی قوّت ہم سے مختلف ہوتی ہے۔ نئے حیرت انگیز امکانات کا دروازہ اس وقت کھل جاتا ہے جب طبیعیات کے مروجہ قوانین متروک ہو جاتے ہیں اور نئے قوانین کا اجراء ہوتا ہے۔
کہانی شروع ہی ٢٠٧٠ء سے ہوتی ہے جب ایک سائنس دان فریڈرک ہالم اس بات کا مشاہدہ کرتا ہے کہ عام ٹنگسٹن -١٨٦ عجیب طرح سے ایک پراسرار پلوٹونیم - ١٨٦ میں بدل جاتا ہے جس میں کافی سارے پروٹون ہوتے ہیں اور اس کو غیر پائیدار ہونا چاہئے۔ کیونکہ یہ عجیب پلوٹونیم - ١٨٦ بڑی مقدار میں توانائی کو الیکٹران کی صورت میں فراہم کر سکتا ہے لہٰذا اس کو قابو میں کرکے مفت کی زبردست توانائی کی مقدار کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مشہور زمانہ ہالم الیکٹران پمپ کی ایجاد ہوتی ہے جو کرہ ارض پر توانائی کے مسئلہ کو حل کر دیتا ہے اور یہ کافی امیر ہو جاتا ہے۔ لیکن ہر چیز کی قیمت تو دینی ہی ہوتی ہے۔ اگر کافی مقدار میں اجنبی پلوٹونیم - ١٨٦ ہماری کائنات میں داخل ہوتا تو عام طور پر پائی جانے والی نیوکلیائی توانائی کی شدت میں بھی اضافہ ہو جاتا ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ گداختی عمل میں توانائی کا اخراج زیادہ ہوتا اور سورج زیادہ روشن ہو کر آخر کار پھٹ پڑتا نتیجتاً تمام نظام شمسی تباہ ہو جاتا!
اسی دوران متوازی کائنات کی خلائی مخلوق کا نقطہ نظر کچھ اور تھا ۔ ان کی کائنات مر رہی تھی ۔ ان کی کائنات میں نیوکلیائی توانائی کافی مضبوط تھی جس کا مطلب تھا کہ ستاروں میں موجود ہائیڈروجن انتہائی بلند شرح سے تیزی سے جل رہی تھی اور ستارے جلد ہی ختم ہونے والے تھے۔ انہوں نے ایک تبادلے کا نظام بنایا جہاں بیکار پلوٹونیم - ١٨٦ کو ہماری کائنات میں بھیج دیا اور قیمتی ٹنگسٹن -١٨٦ کو یہاں سے لے گئے ، جس کے نتیجے میں انہوں نے پوزیٹرون پمپ بنا لئے اور اس طرح سے اپنی مرتی ہوئی کائنات کو بچایا۔ ہرچند کہ ان کو اس بات کا احساس تھا کہ ہماری کائنات میں نیوکلیائی توانائی میں اضافہ ہو جائے گا جس کی وجہ سے ستارے پھٹ پڑیں گے لیکن انہوں نے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی۔
لگتا تھا کہ زمین تباہی کی طرف روانہ ہے۔ انسانیت ہالم کی مفت کی توانائی کی رسیا ہو گئی تھی اور اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ سورج جلد ہی پھٹ جائے گا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ایک دوسرا سائنس دان انتہائی اختراع پسند حل کے ساتھ نمودار ہوا۔ اس کو پورا یقین تھا کہ دوسری کائناتوں کا وجود ہے۔ اس نے کامیابی کے ساتھ ایک طاقتور جوہری تصادم گر میں کچھ تبدیلیاں کیں تاکہ خلاء میں ایک سوراخ بنا کر اپنی کائنات کو دوسری کائناتوں سے جوڑ دے۔
دوسری کائناتوں کو تلاش کرتا ہوا بالآخر وہ ایک ایسی کائنات کو ڈھونڈ نکالتا ہے جو خالی خولی ہوتی ہے بس وہاں پر ایک کائناتی انڈہ ہوتا ہے جس میں لامتناہی مقدار میں توانائی ہوتی ہے لیکن یہاں پر نیوکلیائی توانائی کمزور ہوتی ہے۔
اس کائناتی انڈے سے توانائی کو حاصل کرکے وہ نئے خالی پمپ کو بنا سکتا تھا اور بیک وقت ہماری کائنات میں موجود نیوکلیائی قوّت کو کمزور کر سکتا تھا اس طرح سے سورج پھٹنے سے بچ سکتا تھا۔ لیکن ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ اس نئی متوازی کائنات کی نیوکلیائی قوّت میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ پھٹ پڑتی ہے۔ لیکن وہ اس پھٹنے کو کونیاتی انڈے سے بچہ نکلنے کی تعبیر لیتا ہے جس کے نتیجے میں ایک نیا بگ بینگ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اصل میں وہ ایک طرح سے نئی بننے والی کائنات کے لئے دائی کا کام سرانجام دیتا ہے۔
ایسی موف کا سائنسی قصّہ ان چند کہانیوں میں سے ہے جس نے اصل میں نیوکلیائی طبیعیات کا استعمال کرتے ہوئے ، حرص کے پجاریوں ، حیرت کے ماروں اور راہ نجات حاصل کرنے والوں کی کہانی کو بیان کیا ہے۔ ایسی موف نے یہ بالکل درست قیاس لگایا کہ ہماری کائنات میں نیوکلیائی قوّت میں ہونے والی ذرا سی بھی تبدیلی کے انتہائی خوفناک نتائج سامنے آئیں گے۔ یعنی اگر نیوکلیائی قوّت کی طاقت میں اضافہ ہوگا تو ہماری کائنات کے ستارے زیادہ روشن ہو کر پھٹ پڑیں گے ۔ یہ ایک ایسا ناگزیر سوال اٹھاتا ہے کہ آیا دوسری کائناتوں میں مروجہ قوانین طبیعیات الگ ہوں گے؟ اگر ایسا ہی ہے تو ہمیں اس میں داخل ہونے کے لئے کس چیز کی ضرورت ہوگی؟
ان سوالات کو سمجھنے کے لئے بلاشبہ ہمیں سب سے پہلے ثقب کرم(وارم ہول)، منفی توانائی اور ان پراسرار اجسام کو سمجھنا ہوگا جن کا نام روزن سیاہ یا بلیک ہول ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں