زبردست قدرتی قوتوں کو برداشت کرنے والے یہ ڈھانچے کس طرح سے بنائے جاتے ہیں
پانی کے لئے ترستے کراچی میں ابر رحمت کیا برسا لوگ خوشی سے دیوانے ہوگئے! لیکن ان کی یہ خوشی زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی کیونکہ قدیم انفرا اسٹرکچر اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے یہ ابر رحمت ان کے لئے جلد ہی زحمت بن گئی۔ کہیں بجلی غائب تو کہیں پانی لی لائن پھٹ گئی اور زیادہ تر سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرتی ہوئی ٹریفک کی روانی کو متاثر کرتی رہیں!
بہرحال یہ تو ایک ہلکی بارش کی جھلک تھی۔ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی کچھ زیادہ اچھی صورتحال نہیں ہوتی! بارش نہ ہو تو خشک سالی کا سننے کو ملتا ہے بارش ہو تو طوفانی سیلابوں کا! کہتے ہیں کہ اگر ڈیم بنا لئے جائیں تو وہ پانی جو زیادہ تر سمندر میں جاکر ضائع ہوجاتا ہے وہ ملکی ضرورت کو پورا کرنے میں کام آسکتا ہے۔ لیکن وائے قسمت کہ قوم ڈیم بنانے کے مسئلے پر بھی بٹی ہوئی ہے! کچھ لوگ کالا باغ ڈیم کے حق میں ہیں تو کچھ نہیں! مجھے نہیں معلوم کہ بڑے ڈیم سے کیا فائدہ ہوگا اور کیا نقصان البتہ اتنا ضرور ہے کہ جب کراچی سے حیدرآباد جاتے ہیں تو دریائے سندھ کا ایک حصہ ریگستان کا منظر پیش کررہا ہوتا ہے۔ وجہ یہی معلوم چلتی ہے کہ اوپر سے پانی نہیں آرہا۔ شاید اسی وجہ سے ٹھٹہ کے قریب ڈیلٹا میں سمندر ہزاروں ایکڑ اراضی کھاتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے اور دریائے سندھ کی مشہور پلا مچھلی اب دریائے سندھ میں ناپید ہے اور بنگلہ دیش و دیگر ممالک سے درآمد کرکے دریائے سندھ کے کنارے بیجی جاتی ہے (یہی وجہ ہے کہ وہ اس قدر مہنگی ہوتی ہے) کہتے ہیں کہ پلا مچھلی سمندر میں رہتی ہے اور جب انڈے دینے کا وقت آتا ہے تو سمندر سے دریا کی طرف پانی کے بہاؤ کے مخالف تیرتی ہوئی سکھر تک جاتی ہیں اور وہاں وہ انڈے دیتی ہے۔ کیونکہ اب دریا کا پانی متواتر سمندر میں نہیں گرتا تو پلا مچھلی کو سمندر سے دریا میں آنے کا راستہ نہیں ملتا جس کی وجہ سے اس کی دریائے سندھ میں پیدا وار متاثر ہورہی ہے۔
بہرحال کالا باغ ڈیم بنایا جائے یا چھوٹے چھوٹے ڈیم! ڈیم ضرور بننے چاہیں تاہم اس بات کا بھی خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس سے ماحولیاتی توازن خراب نہ ہو!
چلیں یہ تو پانی کے حوالے سے ایک تجزیہ ہوگیا جو صحیح غلط ہوسکتا ہے لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ ڈیم کو کس طرح بنایا جاتا ہے! آئیے آج معلوم کرتے ہیں کہ ڈیم کیسے بنتے ہیں، ان کی کتنی اقسام ہوتی ہیں اور ان کی تاریخ کہاں تک جاتی ہے:
کسی بھی ڈیم کو بنانے کے دوران انفرادی مسائل سے نمٹنا ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی زمین یا پانی کا نظام بعینہ ایک جیسا نہیں ہوتا۔ ڈیم کو بنانے کے لئے سب سے اچھی جگہوں میں سے ایک تنگ دریائی وادی ہوتی ہے جس کے اطراف میں کھڑی چٹانیں ہوں جو اس کے ڈھانچے کو سہارا دے سکیں۔ سب سے پہلے مرحلے پر آپ کو پانی کو اس علاقے سے موڑنا ہوگا جہاں آپ اسے بنانا چاہتے ہیں اور چٹانی ماحول میں بڑے ڈیموں کے لئے زمین میں نہر بنانے کے لئے بارود کا استعمال کیا جاتا ہے۔ عام طور پرایک زیر آب علاقے سے پانی کو دور رکھنے کے لئے عارضی رکاوٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ روایتی طور پرگیلا کنکریٹ سانچوں میں ڈالا جاتا ہے تاکہ وہ سخت ہوکر ڈیم کی درکار صورت اکو ختیار کرلے ۔ دریں اثنا ثقلی ڈیموں جیسا کہ تین دروں والا چین کا ڈیم ہے، کی دیواریں سیدھی ڈھلانوں کے ساتھ ہوتی ہیں اور پانی کو روکنے کے لئے صرف اپنے زبردست وزن پر انحصار کرتے ہیں۔ محرابی ڈیم جس طرح یو ایس میں موجود ہوور ڈیم ہے وہ اپنی خم دار صورت کو دباؤ کو متوازن کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ پشتے والے ڈیم اپنی قوت کنکریٹ کے ستونوں سے حاصل کرتے ہیں جو ڈھانچے کے ساتھ قطار بند ہوتے ہیں اور بند والا ڈیم بتدریج ڈھلوان ہوتا ہے اور زمین کو دبا کر بنایا جاتا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے ڈیم کا وزن کروڑ ہا ٹن ہوتا ہے جو مضبوط بنیاد کو بناتا ہے جو سطح زمین سے کہیں زیادہ گہرائی میں ہوتی ہیں۔
پشتے والا ڈیم
پشتے والا ڈیم اس وقت استعمال ہوتا ہے جب اطراف کی چٹانیں اتنی مضبوط نہیں ہوتیں کہ ٹھوس بنیاد مہیا کرسکیں۔ ٹھوس کنکریٹ کے پشتوں کے سلسلے ڈیم کے بہاؤ کے ساتھ قطار بند ہوتے ہیں اور وہ ضروری طاقت مہیا کرتے ہیں جسے ان کو تھام کر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پشتے ڈھانچے میں وزن کا اضافہ کرتے ہیں اور سطح کو دھکیلتے ہیں اور ڈیم میں مزید لنگر کاری کرتے ہیں۔ کیونکہ زیادہ تر سہارا پشتوں سے ملتا ہے لہٰذا ڈیم کی دیوار یا تو چپٹی ہوتی ہے یا پھر خم دار۔
بند والا ڈیم
زمین کے بند سے بنے یہ ڈیم اپنے زبردست وزن اور ڈھلوانی صورت پر پانی کو روکنے کا انحصار کرتے ہیں۔ کنکریٹ، پلاسٹک یا کسی بھی دوسرے مادّے کی بھی ایک دشوار گزار پرت بہاؤ کی طرف ہوسکتی ہے بشرطیکہ زمین پر ذرّات کا حجم اتنا ہو کہ اس میں سے پانی رس سکے۔ مٹی سے بھرے ڈیم مکمل طور پر کسی ایک مادّے کی قسم سے الگ بنائے جاسکتے ہیں تاہم ان کو ایک ایسی پرت کی ضرورت ہوتی ہے جو رستے ہوئے پانی کو جمع کرکے نکاسی کرسکے تاکہ ساخت کی بناوٹ کو قائم رکھنے کو یقینی بنا سکے۔
محرابی ڈیم
تنگ چٹانی آبی راستوں کے لئے جس میں کھڑی دیواریں ہوتی ہیں اتنی مضبوط ہوتی ہیں کہ ڈھانچے کو سہارا دے سکیں، یہ ٹھوس کنکریٹ کے ڈھانچے ہوتے ہیں جو بہاؤ کے مخالف خم دار ہوکر محراب کو بناتے ہیں۔ پانی کا دباؤ ڈھانچے کی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لئے یکساں تقسیم ہوتا ہے بعینہ جس طرح ایک محرابی پل ہوتا ہے۔ ڈیم کا وزن اس کو زمین پر دھکیلتا ہے اور یوں اس کو مضبوط کرنے میں مدد دیتا ہے۔ وہ مثالیں جو افقی اور عمودی دہری خم دار ہوتی ہیں ان کو اکثر گنبدی ڈیم کہا جاتا ہے۔
ڈیم کی تاریخ
سب سے پہلا ڈیم ثقلی ڈیم تھا جو صرف راج مزدوروں نے بنایا تھا۔ قدیم مصری پہلے لوگ تھے جنہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ ڈیم سیلابوں کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ 2650 قبل مسیح میں بڑے بند والے ڈیم پر کام شروع ہوا جس کو سد الکفرہ کہتے ہیں۔ 110 میٹر (360 فٹ) لمبا اور 14 میٹر (46 فٹ) اونچا یہ دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہوتا تاہم اس کے بننے سے پہلے ہی سیلاب نے اس کو تباہ کردیا۔ تقریباً 2000 قبل مسیح میسوپوٹامیا میں مرڈک ڈیم سب سے پہلا بند والا ڈیم تھا جس کا مقصد سیلاب کی روک تھام اور فصلوں کو پانی دینا تھا۔
رومیوں نے ڈیموں کی تعمیر کو اپنایا وہ ان کا استعمال کرتے ہوئے پانی کو نئے طریقوں سے ذخیرہ، تقسیم اور منتقل کرتے تھے - اور کم از کم آج بھی دو رومی ڈیم استعمال ہورہے ہیں۔ جدید ڈیم کی تعمیر انیسویں صدی کے وسط میں اس وقت زورو شور سے شروع ہوئی جب ساختی نظریہ اور مادّی سائنس کے علم کی روشنی چمکی۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں