Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 13 اپریل، 2016

    انسانی آنکھ کا اندرون



    بصریات کی سائنس 


    قدرتی دنیا میں پائے جانے والے پیچیدہ ترین جسم میں سے ایک کا راز ہوا طشت از بام 

    انسانی آنکھ کی ساخت اتنی پیچیدہ ہے کہ - اس بات پر یقین کرنا ممکن نہیں ہوتا کہ - یہ ذہین صورت گری نہیں ہے، تاہم دوسرے جانوروں کی طرف دیکھ کر سائنس دان بتاتے ہیں کہ یہ سادہ روشن تاریک حساسیوں سے بتدریج لگ بھگ 10 کروڑ برس میں ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے بنے ہیں۔ یہ بڑی حد تک کیمرے کی طرح کام کرتے ہیں، ان میں کھلنے کی جگہ جو روشنی کو اندر داخل ہونے دیتی ہے، ایک مجتمع کرنے والا عدسہ اور پیچھے کی جانب ایک جھلی ہوتی ہے۔

    آنکھ میں داخل ہونے والی روشنی کی مقدار کو پردے میں موجود گشتی اور شعاعی پٹھے قابو رکھتے ہیں جو حالت سکون میں آنے کے لئے پتلی کے حجم پھیل و سکیڑ کر تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ روشنی سب سے پہلے ایک سخت حفاظتی چادر میں سے گزرتی ہے جس کو قرنیہ کہتے ہیں اس کے بعد روشنی عدسے کی طرف جاتی ہے۔یہ قابل ترتیب حصّہ روشنی کو موڑکر آنکھ کے پیچھے موجود پردہ چشم پر مرکوز کرتا ہے۔

    پردہ چشم کو دسیوں لاکھوں روشنی کو محسوس کرنے والے وصول کنندگان نے ڈھکا ہوا ہوتا ہے جو سلاخوں اور مخروطیوں کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ہر وصول کنندہ میں رنگدار سالمات ہوتے ہیں جو اس وقت صورت بدلتے ہیں جب ان پر روشنی پڑتی ہے جس سے ایک برقی پیغام نکلتا ہے جو بصری اعصاب کے ذریعہ دماغ تک سفر کرتا ہے۔


    تین جہتوں میں دیکھنا 

    ہر آنکھ تھوڑی سی الگ تصویر دیکھتی ہے جس سے دماغ کو اس چیز کی گہرائی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔


    ہماری آنکھیں صرف دو جہتی تصویر بنانے کے ہی قابل ہیں تاہم کچھ ہوشیار طریقہ کار کو اختیار کرکے دماغ ان چپٹی تصاویر کو سہ جہتی منظر میں تبدیل کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ ہماری آنکھیں ایک دوسرے سے لگ بھگ پانچ سینٹی میٹر (دو انچ) دور ہوتی ہیں، اس طرح سے ان میں سے ہر ایک دنیا کو تھوڑے سے مختلف زاویے سے دیکھتی ہے۔ دماغ ان دو تصاویر کا موازنہ کرکے تفاوت کا فائدہ اٹھا کر گہرائی کا فریب نظر دیتا ہے۔


    حفاظتی نظام 

    کئی حفاظتی پرتوں سے آنکھوں کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ وہ پیچھے موجود ہڈی میں ملفوف اور پٹھوں کی تہوں اور جوڑوں کے بافتوں سے پیدا ہونے والی صدماتی امواج سے لگ بھگ مکمل طور پر حاجز ہوتی ہیں۔ سامنے کا حصّہ آنسوؤں سے نم اور پپوٹوں سے متواتر صاف ہوتا رہتا ہے، جبکہ بھنووں اور پلکوں کے بال کسی بھی گرنے والی دھول کو پکڑ لیتے ہیں۔


    ہماری بصارت ساتھ سب سے زیادہ عام مسائل

    بصارت کے مسائل

    بعید نظری 

    اگر آنکھ بہت مختصر ہوگی، قرنیہ کافی چپٹا ہو یا عدسہ کافی پیچھے موجود ہو تو آنے والی روشنی پردہ چشم کے پیچھے مجتمع ہوگی جس سے قریبی اجسام بطور خاص تاریکی میں دھندلے نظر آئیں گے ۔

    کوتاہ بینی 

    اگر آنکھ بہت زیادہ طویل ہوتی ہے یا قرنیہ اور عدسہ بہت زیادہ خم دار ہوتے ہیں تو روشنی آنکھ کے پیچھے ٹکرانے سے پہلے ہی مجتمع اور پردہ چشم پر پہنچتے وقت دوبارہ سے منتشر ہو جاتی ہے جس سے دور کے اجسام کو دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

    رنگوں کا امتیاز نہ کر سکنا

    اس انوکھی صورتحال کو اکثر ایکس لونیہ سے جوڑا جاتا ہے اور یہ خواتین کی نسبت مرد حضرات میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ آنکھ کے مخروطی خلیات میں کوئی خامی شناخت ہونے والے رنگوں کی تعداد کو کم کر دیتی ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: انسانی آنکھ کا اندرون Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top