Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 19 اپریل، 2016

    ایریل (یورینس کا چاند)


    سبز دیوہیکل سیارے کے گرد بادلوں سے ١٧٥ ہزار کلومیٹر اوپر چکر لگاتا ہوا ایریل یورینس کے پانچ اہم مہتابوں میں چوتھا بڑا چاند ہے۔ اپنے چھوٹے حجم کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ مرانڈا کے بعد سب سے زیادہ سرگرم ہے۔ شگافتہ گھاٹیوں کے درمیان ایریل کا چہرہ حیرت انگیز طور پر چوپی فرش کے مماثل ہے۔ پرانے شہابی علاقے بلند سطح مرتفع جو عجیب وادی کی سطح سے بلند ہو کر دوبارہ سے ہموار مادّے کے بہاؤ کی وجہ سے نمودار ہو گئے ہیں۔ یہ منجمد دریا مرکز میں چڑھے ہوئے ہیں اور مرکزی حصّے میں سے ہو کر پیچ دار نالیاں گزر رہی ہیں۔ 


    خاکہ 8.4 اوپر: ایریل ، بائیں جانب مرنڈا کا تقابل بحیرہ روم اور مشرق وسطیٰ سے ۔ نیچے: چنے ہوئے عجیب و غریب سیارچوں کا موازنہ گلیلائی چاند کے سب سے چھوٹے چاند یوروپا (پیچھے)سے کیا گیا ہے۔ ان کے نام آئیاپیٹس ، ایریل، انسیلیڈس ، مرنڈا اور ڈائی اونی ہیں۔ 



    جس چیز نے بھی ان وادیوں پر سیلاب کی صورت میں دھاوا بولا ہے وہ زحل کے مہتابوں پر دیکھے جانے والی مہتابوں کے مقابلے میں زیادہ کمیت اور چپچپا ہے۔

    ایریل نے گھاٹی سے باہر کسی چیز کے ممکنہ طور پر سیارے کی پوری زندگی میں حال ہی میں دوبارہ نکلنے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ اس کی برف یورینس کے تمام سیارچوں میں پائی جانے والی برف کے مقابلے میں روشن اور تازہ ہے۔ ایریل کا چہرہ نظام شمسی کے شروع کے دور میں ہونے والی بمباری کے کچھ عرصے بعد بنا ہوا لگتا ہے۔ اس دور میں آج سے ٣ ارب ٩٠ کروڑ برس پہلے شہابیوں اور سیارچوں کی بارش ہوئی تھی۔ مرنڈا کے نصف قطر سے دوگنا ایریل کی سطح بھی اتنے فی مربع فٹ ہی سیارچوں کا نشانہ بنی ہوگی تاہم اس کے باوجود اس کی سطح پر شہابی گڑھوں کے کم نشان ہیں۔ سطح پر ١٠٠ کلومیٹر کے کئی شہابی گڑھے موجود نہیں ہیں جو اس پر ہونے والی ارضیاتی سرگرمی اپنے بہن بھائیوں امبریل اور اوبرائن کے مقابلے میں زیادہ دیر سے ہوئی ہوگی ۔ کافی تصاویر میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ختم ہوتے یا زیادہ قدیمی شہابی گڑھے موجود ہیں لیکن اچھے طرح سے باقی بچے ہوئے شہابی گڑھے ارضیاتی طور پر غیر عامل مہتابوں کے شہابی گڑھوں کی نسبت چھوٹے اور زیادہ چھدرے ہیں ۔ شہابی گڑھوں سے نکلتا ہوا مادّہ زیادہ روشن اور شاید زیادہ تازہ برف اس مادّے سے متعلق ہے جو سطح پر بہا ہوا ہے۔ دوسرے سیاروں کے سیارچوں کی طرح یورینس کے مہتابوں کی کثافت سورج کی روشنی میں تاریک ہو جاتی ہے۔ اگر تازہ برف نکل کر سطح پر بہہ کر پھیلتی ہے تو وہ شمسی اشعاع کی وجہ سے تاریک پرت بنا لے گی لیکن اس کے نیچے موجود ہلکی برف باقی بچی رہے گی۔ ایریل کے شہابی گڑھوں کے گرد موجود روشن ہالے اصل میں سطح کے بالکل نیچے قدیم روشن بہاؤ کا ثبوت ہیں۔

    اے پی ایل کی ایلزبتھ ٹرٹل کہتی ہیں، "ایریل اور ٹائٹینیا دونوں کے پاس ایسے علاقے موجود ہیں جو بڑی دراڑوں والی وادیوں جیسے لگتے ہیں جہاں ان کی سطح کے ساتھ بہاؤ موجود تھا جو ماضی کے کسی دور میں ہونے والی برفیلے آتش فشانوں کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ تصاویر اتنی اچھی نہیں ہیں کہ تمام باتوں کو بتا سکیں۔ وہاں پر لازمی طور پر کچھ تو چل رہا ہے، اور جو کچھ بھی ہی وہ سوائے انسیلیڈس کے دوسرے مہتابوں کی نسبت کافی زیادہ ہے۔"

    ماضی میں برفیلے آتش فشانوں کی سرگرمی نے شاید مداروی گمگ کو پیدا کیا ہوگا جو اب ایریل کو کسی طرح سے متاثر نہیں کر رہی ہے۔ بہت ساری جماعتیں [1]یورینس کے سیارچوں کو بنانے کے نمونوں کا مطالعہ کر رہی ہیں اور یہ نمونے ہمیں بتا رہے ہیں کہ شاید ایریل بہت زیادہ گمگ کے ادوار سے گزرا ہے جو اتنے طاقتور تھے کہ آتش فشانی اخراج کا باعث بنے ہوں گے (ممکن ہے کہ ٹائٹینیا کے ساتھ - بالخصوص امبریل کے ساتھ ٣ اور ١ کی نسبت سے گمگ میں رہا ہے )۔ " لوگ اس بارے میں بات کرتے ہیں کہ کس طرح سے گمگ اور مدوجزر انتشار [قریبی مہتابوں کی قوّت ثقل کا چاند کی محوری گردش کو آہستہ کرنا] نے ماضی میں کام کیا ہوگا، واضح طور پر کسی نقطے پر جا کر کچھ ہوا ہوگا۔ صرف ان پر نظر مار کر ہی آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ یہ چھوٹے سطح مرتفع کافی قدیم لگتے ہیں لہٰذا سطح ٹوٹ گئی ہوگی اور چیزیں نیچے گر گئی ہوں گی اور پھر ان دراڑ والی وادیوں کی سطح کے ساتھ بہتی گئی ہوگی۔" ایلزبتھ ٹرٹل کہتی ہیں۔

    چھوٹے مہتابوں پر موجود شہابی گڑھوں کی ضخامت بتا رہی ہے کہ ایریل ماضی کے کسی حصّے میں بلاشبہ کافی عرصے تک ارضیاتی طور پر متحرک رہا ہوگا، اس لمبے عرصے کو صرف تابکاری سے حاصل ہونے والی حرارت سے ہی بیان کیا جا سکتا ہے۔ مزید اس کو سہارا دینے کے لئے یہ تصوّر بھی موجود ہے کہ مدوجزر کی حرارت ماضی میں ہونے والی امبریل اور ٹائٹینیا سے پیدا ہونے والی گمگ سے حاصل ہوئی ہوگی۔ جس طرح سے گلیلائی مہتاب برجیسی نظام میں ہجرت کے ادوار سے گزرے تھے بعینہ ایسے ایریل بھی کافی مرتبہ ابتدائی نظام کی ہجرت کے ادوار سے گزرا ہوگا۔ 

    ہرچند کہ محققین نے کسی مخصوص قسم کے آتش فشانوں کے منبع کو نہیں دیکھا لیکن جانچ کے لئے انھیں لاوے کی طرح کے بہاؤ کی کافی چیزیں مل گئی ہیں۔ اور یہ بہاؤ مشتری اور زحل کے مقابلے کے ہی ہیں۔ یہاں پر مہین بہاؤ وسیع میدانوں کو بناتے ہوئے لگ رہے ہیں۔ یورینس کے ایریل اور مرنڈا پر اور نیپچون کے ٹرائیٹن پر یہ بہاؤ سینکڑوں میٹر موٹے ہیں۔ ایک ممکنہ وجہ ان کے اجزائے ترکیبی کا اختلاف ہو سکتا ہے ۔ ہرچند کہ مشتری اور زحل پر موجود زیادہ تر برف پانی اور امونیا پر مشتمل ہے لیکن یورینس اور نیپچون پر موجود برف سیارچوں کی طرح طیران پذیر مادّوں جیسا کہ میتھانول اور فارمَل ڈی ہائيڈ پر مشتمل ہو سکتی ہے۔ اجزائے ترکیبی میں فرق ہی کثافت میں ہونے والے فرق کو ظاہر کرتی ہے شاید یہ ہی وجہ ہے کہ گیسی دیوہیکل کے مقابلے میں برفیلے دیوہیکل میں زیادہ چپچپا برفیلے آتش فشاں موجود ہوتے ہیں ۔

    وہ برفیلے آتش فشانوں کا وہ مسئلہ جویورینس سیارچوں پر محققین کو بھوت بن کر تنگ کرتا رہا ہے وہ وائیجر سے حاصل کردہ تصاویر کی کوالٹی ہے۔ کیرولن پورکو، کیسینی امیجنگ ٹیم کی سربراہ کہتی ہیں کہ زحل نے ہمیں ایک نصیحت آموز سبق دیا ہے:

    ہم نے آتش فشانوں سے متعلق ثبوت اس طرح سے نہیں دیکھے جس طرح سے وائیجر کے دور میں زحل کے نظام میں لوگوں نے سوچا تھا۔ اس دور میں جب ہم نے ڈائی اونی اور ریا کے لچھے دار ارضی میدان دیکھے تھے تو ہم سمجھے تھے کہ یہ برف کا اخراج ہے۔ لہٰذا میں پوری طرح اس بات کی امید کر رہی تھی کہ بڑے ٹیلے نما ان مہتابوں کی سطح سے باہر کو نکلی ہوئی برف آڑے ترچھے داغوں کی صورت میں دیکھوں گی۔ ان تمام تر توقعات کے برخلاف ہم نے جو دیکھا وہ ذیلی متوازی برفیلے شگافوں کا نظام تھا جہاں پر تمام تازہ برف ایک ہی جگہ کی طرف رخ کئے ہوئے تھی۔ یہ صرف ایک بصری دھوکہ تھا جو ان تازہ شگافوں کی جتھوں نے دیا تھا۔ یہاں تک کہ انسیلیڈس پر بھی کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں پر برف آکر اس طرح سے سطح سے نکل جائے جس طرح سے میگما نے ہمارے چاند پر ماریا کو بنایا ہے۔ ہم نے اس طرح کی کوئی بھی چیز نہیں دیکھی اور یہ کیسینی کا کافی بڑا حاصل تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ زحل کے نظام میں فی الوقت موجود نہیں ہے۔ اس نے ثابت کیا کہ قریب جانا کتنی اہمیت کا حامل تھا۔

    قسمت کی دیوی کی مہربانی اور سماوی میکانیات کے ساتھ وائیجر یورینس کے ایک اور اہم چاند مرنڈا کے قریب سے گزرا۔ اور وہ چاند سب سے عجیب ہی نکلا۔


    خاکہ 8.5 بائیں: وائیجر دوم سے اعلیٰ کوالٹی کی ایریل کے سائیلف گھاٹی کی تصویر میں بہاؤ گمنام ہوتے یا شہابی گڑھے کے حصّہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آرہے ہیں۔ دائیں: ایک وادیوں اور نالیوں کا پیچیدہ جال جو شہابی گڑھے کی چوٹی کے ارد گرد ہے۔ غور فرمائیں کہ کس طرح سے وادی کی سطح ایک دوسرے میں ضم ہوئی ہے ، یہ بات اس جانب اشارہ ہے کہ ٹیکٹونک عمل کے دوران بننے کے بعد کس طرح سے یہاں پر سیلاب آیا تھا۔ وائیجر دوم سے لی گئی سب سے بہتر تصویر میں فی پکسل 1.3 کلومیٹر کا علاقہ نظر آتا ہے۔ 




    [1] ۔ اس کے لئے ملاحظہ کیجئے "لانگ ٹرم ڈائنامکل ایولوشن آف دا یورینس از کیرا ٹیکن اور نوئلز ، رائل آبزر ویٹری آف بیلجیئم شایع کردہ اے اے ایس ، ٢٠١٣ء۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ایریل (یورینس کا چاند) Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top