ہمارے اہم سیاروی نظام کی بیرونی سرحد پر نیپچون کے عقب میں پژمردہ علاقے میں سفر کرتے ہوئے ، چکر لگاتا ہوا ٹرائیٹن ملے گا یہ سب سے دور اور سرد مہتاب وہ ہے جہاں کوئی بھی خلائی جہاز اب تک گیا ہے۔
جب ہم چاند کو دیکھتے ہیں تو ٹرائیٹن بڑا اور مخالف سمت میں چکر لگاتے ہوئے پاتے ہیں۔ یعنی کہ نیپچون کے گھماؤ کی مخالفت میں۔ اگر ٹرائیٹن نیپچون کے نظام کے ساتھ بنا ہوتا تو طبیعیات ہمیں بتاتی ہے کہ اس کا مدار اس کو اس کی مخالف سمت میں گھماتا یعنی کہ یہ سیارے اور اس کے مقامی سیارچوں کے ساتھ ایک ہی سمت میں چکر کھاتا۔ ٹرائیٹن کی ایک اور عجیب خاصیت یہ ہے کہ اس کا مدار استواء کے طرف جھکا ہوا ہے۔ مزید براں مشتری، زحل اور یورینس کے مقابلے میں یہ مدار میں اسی نسبتی علاقے میں چکر لگاتا ہے - بمقابل اپنے مرکزی سیارے کے – جس کو تمام اہم سیارچوں نے اپنا مسکن بنایا ہوا ہے۔ لیکن صرف ایک ہی ایسا ہے پروٹیس ۔ باقی دوسروں کا کیا ہوا ہے؟
اس سوال کا جواب نہ صرف ٹرائیٹن سے ملے گا بلکہ اس کے ساتھی بھی اس کو حل کرنے میں مدد کریں گے۔ وائیجر نے نیپچون کے نظام سے گزرتے ہوئے چھ نئے مہتابوں کا عقد کھولا تھا۔ پروٹیس سب سے بڑا ٤٢٠ کلومیٹر پر پھیلا ہوا تھا۔ اس کے قابل ذکر حجم نے اس کو اسی کلب میں جگہ دلوا دی تھی جس میں زحل کا چاند میماس اور انسیلیڈس یورینس کا چاند مرنڈا موجود تھے۔ میماس کی طرح (لیکن انسیلیڈس اور مرنڈا کے برخلاف)، پروٹیس کی سطح پر بھاری شہابی گڑھے موجود تھے، ناہموار جسم اپنی تخلیق کے بعد سے تھوڑا ہی تبدیل ہوا تھا۔ اور خاندان میں پروٹیس کے بھائی بہنوں کے بجائے یہ ایک ایسے علاقے کو پیش کر رہا تھا جو بڑے مہتابوں سے خالی تھا۔
اس علاقے کے دوسرے حصّہ میں ایک قابل قدر ٣٥٠ کلومیٹر نصف قطر کا غیر معمولی نیریڈ تھا، نیپچون کو سب سے دور دراز کا معلوم چاند۔ نیریڈ کا مدار اب تک کے دریافت شدہ کسی بھی سیارے کے چاند کے مقابلے میں سب سے زیادہ بیضوی مدار ہے۔ نیپچون کے مہتابوں کا یہ بے ترتیب مدار شاید ابتدا میں ہونے والے اس عظیم تصادم کا نتیجہ ہیں جس میں ٹرائیٹن نیپچون کے اس قدر نزدیک سے گزرا کہ اس کا قیدی بن کر رہ گیا۔ اس متشدد تعامل نے ٹرائیٹن کو مخالف سمت میں گھومنے پر مجبور کر دیا اور کافی زیادہ اہم مہتابوں کو یا تو تباہ کر دیا تھا یا نیپچون کے اہم مہتابوں کو نکال کر باقی بچ جانے والے چاندوں کو عجیب و غریب مدار میں ڈال دیا تھا۔ ٹرائیٹن کا مدار بالآخر دائروی ہو کر اس راستے پر گامزن ہو گیا تھا جس کو ہم آج دیکھتے ہیں اور اس نے اپنے پیچھے اہم کمیاب مہتاب چھوڑ دیے تھے۔ تمام چھوٹے بچ جانے والے مہتاب ٢٢٠ کلومیٹر سے بھی کم نصف قطر کے ہیں۔
نیپچون کے خدام مہتابوں کی تصاویر کم ریزولوشن کی ہیں ، اور اگرچہ ان کا چھوٹا حجم سادگی اور قدامت ہئیت کا گواہ ہے بیرونی نظام شمسی نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ وہ شاید کچھ حیرت انگیز چیزیں اپنے اندر چھپا کر رکھے ہوئے ہو سکتے ہیں۔ تاہم ٹرائیٹن نے بہت سیارے سیاروی سائنس بشمول ولیم مک کنن دانوں کے تخیل کو بھی اڑا کر رکھ دیا ہے۔ "ٹرائیٹن ایک وحشی اور عجیب و غریب دنیا ہے۔ نیپچون پر شمسی ہوائیں کمزور ہوتی ہیں، لہٰذا وہاں پر کافی شفیق ماحول ہوتا ہے۔ وہاں آپ کے پاس تصعید کرۂ فضائی اور میلوں اونچے چشمے ہوں گے۔ میں تو وہاں لمبے جوتے پہننا پسند کروں گا۔" ٹرائیٹن کا عجیب و غریب ماحول شاید کچھ حد تک اس کے بننے کے بعد سے سیاروی سطح کے دوبارہ نمودار ہونے کی وجہ سے ہے۔ جب مداخلت کار نیپچون کے نظام میں داخل ہوا تھا تو یہ کافی حد تک شہابی گڑھوں سے پر ایک برفیلی گیند کی طرح تھا۔ قید کے دوران ثقلی طاقت نے اس کی سطح پر رگڑ سے اتنی حرارت پیدا کردی جو سطح پر موجود برف کو پگھلا سکتی تھی۔ سیارچے میں موجود کسی بھی چٹان کے پاس اس امتیازیت حاصل کرنے کے عمل میں کافی وقت تھا ، اور وائیجر دوم سے کی گئی ثقلی تحقیق اس کے اچھے ثبوت مہیا کر رہی ہے۔ تاہم اس کے چٹانی قلب کے اوپر موجود برف مکمل طور پر پگھل کر سمندر میں بدل گئی ہوگی کیونکہ نیپچون کی ثقلی قوّت نے اس کو بیضوی مدار سے دائروی مدار میں لانے کے لئے زور آزمائی کی ہوگی۔ بالآخر پانی برف کی پرت میں تبدیل ہو گیا ہوگا، لیکن یہ عمل شاید آج بھی جاری ہے جس کی وجہ سے وہ چاند کو عجیب و غریب طریقوں سے کندہ کر رہا ہے۔
صرف چاند کا ایک تہائی حصّہ ہی کی تصاویر درمیانی سے لے کر بہترین ریزولوشن(٤٠٠ میٹر فی پکسل) میں لی گئی ہیں۔ کرۂ کے اتنی ہی حصّے میں محققین کو صرف ١٥ شہابی گڑھے مل سکے ہیں۔ شہابی گڑھوں کی کمیابی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ٹرائیٹن کی سطح پر چلنے والی ارضیاتی سرگرمی کس حد تک حالیہ دور کی ہے۔
ٹرائیٹن کی زمین پر پائے جانے والے عام گڑھے والی چپٹے میدان کینٹالوپ میدان کہلاتے ہیں۔ جنوب مغرب تحقیقاتی ادارے کے جان اسپینسر اس کی تحقیق میں ٹرائیٹن کے دوسرے مظاہر کے ساتھ مصروف ہیں ساتھ ساتھ وہ کائپر پٹی میں موجود بونے سیاروں کی بھی تحقیق میں مصروف عمل ہیں:
بلاشبہ کینٹالوپ میدان مختلف ہیں۔ یہ بالکل ایسے لگتے ہیں جیسا کہ پلیٹوں کی قطار کو میز پر الٹا کرکے ترتیب میں رکھا ہے۔ یہ عجیب ٹوٹی ہوئی زمین ہے۔ ہمارے پاس اس کی ایک مفصل تصویر ہے، آخری لیکن بہتر ریزولوشن کی تصویر جو وائیجر نے لی تھی ، جہاں پر کینٹالوپ میدان کا ایک ترچھا نظارہ دکھائی دے رہا ہے اور آپ کو تھوڑا سے اندازہ ہوگا کہ اگر آپ وہاں سطح پر کھڑے ہوں تو زمین کیسی دکھائی دے گی۔ وہاں پر پہاڑیاں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی ہیں، لیکن تمام پہاڑیاں ٹیڑھی ہیں جس طرح سے کسی نے ان پر مشعل سے حملہ کیا ہو۔ وہاں پر کافی کچھ چل رہا ہے جس کی ہمیں کچھ سمجھ نہیں ہے۔ یوروپا کی پہاڑیاں کافی سیدھی اور پرانی ہیں جیسا کہ وہ کل کی ہوں۔ ٹرائیٹن پر ہر چیز اکھٹا ہو کر نیچے کی طرف اور ٹیڑھی اور گھسی ہوئی اور عجیب طرح سے دفن ہے۔
خاکہ 8.12 وائیجر سے حاصل کئے گئے بہترین نظارے، پروٹیس، لاریسزا ، ڈیسپنا اور نیریڈ لگ بھگ اپنے بلحاظ حجم ۔ غور کریں کہ نیریڈ کی تصویر کافی دور سے کم ریزولوشن کی ہے۔
اس کی دوسری ارضیاتی خصوصیات سے نسبت کو دیکھتے ہوئے، کینٹالوپ میدان شاید ٹرائیٹن پر سب سے قدیم علاقوں کو پیش کرتا ہے۔ اس کی پلیٹ جن کو کاوی کہتے ہیں وہ ٢٥-٣٠ کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کو آپس میں جڑی ہوئی پہاڑی وادیوں نے کاٹا ہوا ہے۔ کینٹالوپ کو بنانے کا عمل شاید کوئی نامعلوم کٹائی کی سرگرمی ہے یا پھر یہ میدان شاید برف کے تبخیر بننے کے عمل سے وجود میں آئی ہیں۔ کئی جگہوں پر، نیچی چوٹیوں کے کنارے پلیٹ جیسے میدان ہیں۔ جبکہ دوسرے علاقوں میں چوٹیاں مرحلہ وار نیچے جاتے ہوئے ہموار میدان بناتی ہیں۔ ان میں سے کچھ میدانوں میں سیلاب آیا ہوگا شاید برفیلا آتش فشانی بہاؤ۔ بالخصوص روآچ پلانٹیا اپنی فرش پر منجمد لہروں کی طرح لگتا ہے۔ اس کے مرکز میں ایک منہدم جوہڑ ہے جو آتش فشانی دھانے کی خاصیت کا بھی حامل ہے۔ ایک وسیع روشن نارنجی رنگ کا مادّہ خطاطی کرتا ہوا ٹرائیٹن کے جنوبی نصف حصّے پر پھیلا ہوا ہے جو وائیجر سے حاصل کردہ تصاویر میں دکھائی دے رہا ہے۔ وائیجر سے سامنے کے دوران، ٹرائیٹن جنوب میں گرمی کے موسم کی طرف بڑھ رہا تھا۔ گلابی مادّہ سطح پر موجود جمی ہوئی نائٹروجن کی برف لگتا ہے۔ برف کے کنارے پر پیچیدہ جھیل جیسی ساخت روشن مادوں کے ہالے کے اندر موجود ہے۔ ان کو گٹا ئی یا لاکس (لاطینی زبان میں جس کا مطلب "جھیل" ہے) کہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کو ٹرائیٹن کے واپس جاتے ہوئے قطبی ٹوپیوں نے یہاں چھوڑا ہے، جان اسپینسر بیان کرتے ہیں۔ "لاکس والے علاقے مجھے پگھلی ہوئی موم کی یاد دلاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی مائع سطح پر بہا ہو، لیکن یہ پانی کے بہاؤ جیسا یا بہتے ہوئے لاوے جیسا نہیں لگتا، یہ موم کی طرح زیادہ لگتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کسی قسم کی برفیلے آتش فشاں کی برف ہے لیکن یہ تمام کی تمام کافی اجنبی ہے۔
خاکہ 8.13 پراسرار کینٹالوپ میدان شاید ٹرائیٹن کی سطح پر موجود قدیمی زمین میں سے ایک ہیں۔
خاکہ 8.14 روآچ پلانٹیا اپنی سیڑھیوں جیسی چوٹی اور آتش فشانی جیسے مرکزی جوہڑ کے ساتھ شاید یہ ایک قدیمی برفیلا آتش فشاں رہا ہو۔ بائیں طرف وائیجر سے حاصل کردہ اصلی تصویر ہے، جبکہ دائیں طرف کمپیوٹر سے حاصل کردہ ترچھا نظارہ حجم کا بڑھا کر دکھایا گیا ہے تاکہ واضح ہو۔
لاکس علاقے میں کافی عجیب حاشیہ دار کنارے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ جو کوئی بھی مائع چیز وہاں تھی وہ کناروں پر پگھل کر منہدم ہوتی ہوئی ان کو کھا کر کاٹ رہی تھی۔ وہاں پر کافی زبردست کام جاری تھا۔"
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں