ٹرائیٹن کی سب سے غیر معمولی خاصیت اس کے متحرک پھٹاؤ تھے۔ وائیجر دوم نے ٹرائیٹن کے جنوبی قطب پر ٢٥ اگست ١٩٨٩ء پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالی اور اسٹیریو تصاویر حاصل کیں جس میں دو گہری اونچی پھواریں سطح سے 8 کلومیٹر اوپر پہنچ رہی تھیں اور ١٥٠ کلومیٹر دور تک اپنے نشان چھوڑ رہی تھیں۔ ٹرائیٹن کے جنوبی نصف حصّے کی دوسری تصاویر میں ١٠٠ تاریک، دھاری دار ذخیرے ، جن کا رخ ترجیحی طور پر شمال مشرق یعنی جنوبی قطبی ٹوپی سے دور تھا ۔ یہ دھاریاں سطح پر دس سے لے کر سینکڑوں کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں جو پھواروں جیسی سرگرمی کے بہت ہی عام ہونے کی جانب اشارہ کر رہی ہیں۔ محققین کو اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ ٹرائیٹن پر یہ آتش فشانی سرگرمی کتنا زیادہ پھیلی ہوئی ہے کیونکہ شمالی قطبی حصّہ وائیجر کے وہاں پر اڑان بھرنے کے وقت تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ یہ برفیلے میدانوں میں نچلے درجے کے طول بلد پر ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے لیکن برفیلے قطب پر اس کی سرگرمی محدود لگتی ہے۔
ٹرائیٹن کافی سرد ہے سطح کا درجہ حرارت منفی ٢٣٥ سینٹی گریڈ ہے۔ یہ جنوبی قطب کو بنانے والی نائٹروجن کو منجمد کرنے سے کافی نیچا کا درجہ حرارت ہے ۔ زمینی دوربینوں نے ٹرائیٹن کی سطح کے طیف میں دونوں نائٹروجن اور میتھین کا سراغ لگایا ہے۔ جبکہ کاربن مونوآکسائڈ اور کاربن ڈائی آکسائڈ بھی قلیل مقدار میں پائی گئی ہیں۔ ٹرائیٹن کا مہین کرۂ فضائی زیادہ تر نائٹروجن پر مشتمل ہے۔ کرۂ فضائی نائٹروجن کو ایک قطب سے لے کر دوسرے قطب تک ہر ٹرائیٹن کے برس اس وقت منتقل کرتا ہے جب ایک قطب تصعید کے عمل میں گیس میں بدلتا ہے جبکہ دوسرا ٹھنڈا قطب دوبارہ منجمد ہو جاتا ہے۔ نائٹروجن کی ہجرت ایک قطب سے دوسرے قطب تک سطح کا درجہ حرارت ہر جگہ قریباً ایک ہی جیسا رکھتی ہے۔
اس عجیب برفیلے آتش فشانی دنیا میں آتش فشانی سرگرمی کس طرح ہوتی ہے؟ ٹرائیٹن پر برفیلی آتش فشانی مشتری اور زحل کے سیارچوں کے مقابلے میں بہت ہی الگ ہے۔ اگرچہ پھواروں چشموں کی طرح ہی سمجھی گئی ہیں لیکن اس کی وجہ نائٹروجن کے قطب میں ہونے والا شمسی تصعیدی عمل ہے - یعنی برف کا براہ راست پگھل کر بخارات بن جانے کا عمل۔ متحرک پھواریں اس جگہ پائی گئی ہیں جو اس علاقے سے قریب ہیں جہاں سورج براہ راست چمکتا ہے۔
ایک نظریہ کہتا ہے کہ پھواریں نائٹروجن کی برف میں سے سورج کی روشنی کے گزرنے کی وجہ ہے یہ کافی واضح بات ہے۔ سورج کی توانائی ایک طرح کی نباتاتی خانے کے اثر والی ٹھوس برف میں حرارت میں بدل جاتی ہے۔ حرارت اندر جمع ہوتی ہے نائٹروجن کی برف کو نائٹروجن گیس میں بدلتی ہے۔ بخارات کا دباؤ بنتا ہے اور بالآخر ٹرائیٹن کے کرۂ فضائی میں قریبی فضا میں جا کر پھٹ پڑتا ہے۔
خاکہ 8.15 جھیل جیسی ساخت گٹا ئی حقیقت میں منجمد ٹھوس نامعلوم تاریک مادّے کے تالاب ہیں۔ یہ نظام شمسی میں منفرد ہیں۔ پیش منظر میں نظر آنے والے الٹے کھمبیوں کی شکل والے یہ گٹا ئی ١٠٠ کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ہیں۔
اگر یہ نظریہ درست ہوا تو ٹرائیٹن پر برفیلی آتش فشانی سرگرمی بجائے اندرونی حرارت سورج کی روشنی کی ضمنی پیداوار ہوگی ۔ جان اسپینسر مزید کہتے ہیں، " جو دلچسپ بات ہے وہ یہ خیال ہے کہ اس نظرئیے کو ١٩٩٠ء میں باب براؤن اور رینڈی کرک نے پیش کیا تھا اور تب سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ بعینہ ایسا ہی نظام مریخی قطبین پر جاری ہے، اور آپ مکڑی کی عنکبوتی ساخت جیسی چیز حاصل کرتے ہیں جو اسی نظام کی پیداوار لگتی ہیں۔ سورج موسمی کاربن ڈائی آکسائڈ میں سے جذب ہو کر اس کی تبخیر کرتا ہے اور یہ برف میں موجود ریخوں میں سے گزر کر اندر آتی ہے اور دھاروں کو پیدا کرتی ہیں۔ مجھے ہمیشہ سے یہ خیال اچھا لگتا ہے کہ نظام شمسی کے لئے پیش کئے جانے والا ہر نظریہ سچا ہو، تاہم یہ اکثر ان اجسام کے لئے درست نہیں ہوتا جن کے لئے اس کو پیش کیا جاتا ہے۔"
بیرونی سیاروں کے ماہرین نے دو دہائیوں قبل وائیجر کے وہاں کے سفر کے دوران تیار ہو کر نیپچون کے عجائب حیرت والے چاندوں کی طرف دیکھا تھا۔ تب سے ٹرائیٹن کے موسم نے جنوب سے لے کر بعید جنوبی خزاں تک گرمیوں کے وسط سے لے آگے بڑھنا شروع کیا۔ ( یورینس اور ٹرائیٹن میں اعتدالین ٢٠٠٧ء میں آیا جب سورج براہ راست خط استواء پر طلوع ہوتا ہے ، اب یہ شمال کی طرف جا رہا ہے۔)
وائیجر کے ٢٥ برس کے بعد مشاہدین نے اس چاند کے بارے میں کافی کچھ جان لیا ہے لیکن یہ پہلے کی طرح زیادہ تفصیلی نہیں ہے۔ زمیں پر موجود دوربینوں نے ٹرائیٹن کے رنگ میں ہونے والی ڈرامائی تبدیلی کو درج کیا ہے۔ تعدیلی خاکستری رنگ سے چٹخ بھورا مائل سرخ ہوتا ہوا کچھ محققین اس سیارچے کو دیکھ رہے ہیں۔ اس کے نیپچون سے قربت کی وجہ سے رنگوں کی جانچ کرنا کافی مشکل ہے، رنگوں کے تغیر کی کافی متبادل توجہات موجود ہیں جن میں سے کچھ آلات کو بھی ذمہ دار ٹھہراتی ہیں تاہم خود مختار طور پر کافی مختلف جماعتوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔
خاکہ 8.16 سب سے بہترین معیار کی نیپچون کے چاند ٹرائیٹن کی پچی کاری جو حال میں وجود رکھتی ہے۔ خط استواء لگ بھگ افقی طور پر تصویر کے درمیان سے گزر رہا ہے۔ گلابی مادّہ نائٹروجن کی برف ہے۔
اگر نائٹروجن کا رنگ آفاقی طور پر تبدیل ہو رہا ہے، تو رنگوں میں تبدیلی کی وجہ قطب پر ہونے والی چشموں کی سرگرمی ہو سکتی ہے جو مہین کرۂ فضائی کو سرخی مائل کہر سے بھر رہی ہوگی۔ متبادل طور پر یہ بھی ممکن ہے کہ اس کسی قسم کے فوق پھواروں کے اخراج کی وجہ سے ہو جہاں بڑے علاقے دوبارہ سے نمودار ہو گئے ہوں۔ اسپینسر موخّرالذکر خیال کے حق میں ہیں ۔ "میں کہر کے نظرئیے کو ترجیح دیتا ہوں ( جو شاید چشموں جیسی کسی سرگرمی میں اضافہ کی وجہ سے شروع ہوئی ہو، جس کا عالمگیر اثر ہو سکتا ہے ہرچند کہ چشمے صرف جنوبی نصف حصّے میں ہی کیوں نہ ہوں) کیونکہ پورے ٹرائیٹن کے رنگ کو تبدیل کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے، زمین سے دیکھنے پر اوسط کرہ کا رنگ تبدیل کرنے کے لئے شاید یہی چیز درکار ہے۔" محققین نہیں جانتے کہ سطح پر کہاں موسمی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ ٹرائیٹن کے گھومنے کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہیں اور یہ اس بات کی جانب اشارہ ہو سکتا ہے کہ شاید وہ قطبین کے قریب ہونے کے بجائے استوائی حصّہ میں ہیں۔ یہ تبدیلیاں بجائے براہ راست چشموں کی سرگرمی کے پالے کے بتدریج تبخیر کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہیں۔ ٹرائیٹن کیمیائی طور پر کافی زرخیز ہے۔ سائنس دانوں نے زیریں سرخ اشعاع کے ذریعہ اس کا مفصل طیف حاصل کر لیا ہے اور اس کی روشنی کا تجزیہ کرنے سے وہاں میتھین، نائٹروجن، کاربن ڈائی آکسائڈ، کاربن مونوآکسائڈ اور پانی کا پتا لگا ہے۔ چاند کے گھومنے کے ساتھ مختلف نصف حصّے سامنے آتے ہیں جو مختلف کیمیا کو بیان کرتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وائیجر کے اوپر جدید طیف پیما نہیں لگے ہوئے ہیں۔ ٹرائیٹن کی سطح پر موجود رنگ و روپ کی بوقلمونی کا جدید آلات کی مدد سے حاصل کئے گئے اس کے طیف سے کوئی جوڑ نہیں مل رہا۔ دوربینوں کی ریزولوشن کی وجہ سے طیف مل کر ایسے اوسط میں ملتے ہیں جس سے چاند کے ایک حصّے کو دوسرے حصّے سے جدا کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ طیف کو وائیجر کے دیکھے گئے رنگ سے ملا کر دیکھا جاتا ہے جو شاید پچھلے ٢٥ برس میں کافی تبدیل ہو چکے ہوں گے۔ یہ کافی پیچیدہ کام ہے تاہم محققین مختلف ذرائع سے حاصل کردہ اعداد و شمار کی ادھیڑ بن میں لگے ہوئے ہیں۔
دوربین کے ساتھ اپنا تمام وقت بتا نے کے بعد بیرونی سیاروں کی ماہر ہیدی ہیمل اس کے مشکل مشاہدے کی عادی ہو گئی ہیں۔ ان کو ٹرائیٹن بہت دلچسپ لگتا ہے۔" وہ بذات خود ایک زبردست چاند ہے۔ وہ متحرک ہے۔ وہ جوان ہے۔ وہاں چیزیں وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔ ہم وہاں پر جو دیکھ رہے ہیں وہ بلاشبہ اس سے کہیں زیادہ الگ ہے جو وائیجر نے دیکھا تھا۔ یہ مجازی طور پر پلوٹو کا جڑواں ہے، ایک برادرانہ جڑواں بھائی۔ یہ کائپر پٹی کا جسم ہے جسے نیپچون نے قید کر لیا تھا۔ ہم یہ بات اس کے مدار میں مخالف سمت میں گھومنے کی وجہ سے جانتے ہیں۔ آپ پلوٹو کو لے کر نیپچون سے اس کو قید کروا لیں اور پگھلا کر اس عمل میں اس کو الٹ پلٹ کر دیں۔ ہم پلوٹو کی جانب ایک خلائی جہاز چند برسوں میں روانہ کر رہے ہیں لہٰذا ہمارے پاس ایک شاندار تقابل کرنے کی چیز موجود ہوگی۔" وہ کہتی ہیں۔
اب بھی نیپچون کے نظام میں بھیجے جانے والی دونوں روبوٹک اور انسان بردار مہمات کو سوچتے ہوئے ہیمل نیپچون کے بڑے سیارچے کی ایک اور خاصیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔" ٹرائیٹن ایک بڑا چاند ہے، لہٰذا آپ نیپچون اور ٹرائیٹن کی قوّت ثقل کو اپنا مدار درست کرنے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ یورینس کا سب سے بڑا چاند بھی اس طرح کا کام کرنے کے قابل نہیں ہے۔" ٹرائیٹن مستقبل کے کھوجیوں کو تب شاید قوّت ثقل کا ایسا پلیٹ فارم مہیا کرے گا جہاں سے وہ مزید آگے دیوہیکل عجائب جہاں کو کھوجنے کے لئے آگے جا سکیں گے۔ ٹرائیٹن بذات خود سے ہمیں بطور منزل بلانے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس کی شاندار ارضیات، بہترین برفیلے آتش فشاں اور اس کی دیوہیکل سیارے کے پاس تزویراتی مقام ٹرائیٹن کو مستقبل میں انسان بردار سفر کے لئے ایک اہم کھلاڑی بنا دے گا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں