ہرچند تھورن کے حل نے اعلان کے ساتھ ہی کافی سنسنی پھیلا دی تھی، لیکن اس کو اصل میں بنانے میں جدید تہذیب کو بھی پہاڑ جیسے مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے تو بڑی مقدار میں نایاب منفی توانائی کا حصول ہوگا۔ اس قسم کے ثقب کرم کا انحصار اپنے دہانے کو کھلا رکھنے کے لئے زبردست مقدار میں منفی توانائی پر ہوگا۔ اگر کوئی کازیمیر کے اثر کے ذریعہ منفی توانائی کو حاصل کرے گا جو کافی کم ہوتی ہے تو ثقب کرم کا حجم ایک جوہر سے بھی کم ہوگا جس کے نتیجے میں ثقب کرم کے ذریعہ سفر کرنا ناممکن ہوگا۔ کازیمیر کے اثر کے علاوہ بھی منفی توانائی حاصل کرنے کے ذرائع ہیں لیکن تمام کے تمام بہت ہی دشوار گزار ہیں۔ مثال کے طور پر طبیعیات دان پال ڈیویز اور اسٹیفن فلنگ نے دکھایا کہ تیزی سے حرکت کرتا ہوا آئینہ بھی منفی توانائی کو بنانے میں استعمال کیا جا سکتا ہے اور منفی توانائی کو آئینے کے سامنے اس وقت جمع کیا جا سکتا ہے جب وہ حرکت کرے۔ بدقسمتی سے منفی توانائی حاصل کرنے کے لئے آئینے کو روشنی کی رفتار سے حرکت دینا ہو گی۔ اور کازیمیر کے اثر کی طرح اس طریقے سے حاصل ہونے والی منفی توانائی بھی بہت ہی کم ہوگی۔
منفی توانائی حاصل کرنے کا ایک اور طریقہ انتہائی طاقتور لیزر کی شعاعوں کا استعمال ہے۔ لیزر کی توانائی کی حالت میں ، کچھ نچڑی ہوئی حالتیں بھی ہوتی ہیں جن میں منفی اور مثبت توانائی ساتھ ساتھ موجود ہوتی ہیں۔ بہرکیف اس اثر کو بھی حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ منفی توانائی کی دھڑکن عام طور پر 10-15 سیکنڈ تک ہی باقی رہتی ہے جس کے فوراً پیچھے ہی مثبت توانائی موجود ہوتی ہے۔ مثبت توانائی کو منفی توانائی سے الگ کرنا ممکن تو ہے لیکن یہ بہت ہی مشکل ہوگا۔ میں اس کو مزید گیارہویں باب میں بیان کروں گا۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بلیک ہول میں بھی واقعاتی افق کے قریب منفی توانائی موجود ہوتی ہے۔ جیسا کہ جیکب بیکن اسٹین اور اسٹیفن ہاکنگ نے ثابت کیا کہ بلیک ہول مکمل طور پر کالے نہیں ہیں کیونکہ یہ توانائی کو آہستگی کے ساتھ خارج کر رہے ہیں۔ یہ اصول عدم یقین کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے کہ بلیک ہول کی زبردست کشش کے باوجود یہ اشعاع نکل جاتی ہیں۔ لیکن کیونکہ تبخیر ہوتا ہوا بلیک ہول توانائی کھوتا ہے لہٰذا وہ واقعاتی افق وقت کے ساتھ چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔ عام طور پر اگر مثبت مادّہ ( مثلاً ستارہ) بلیک ہول میں ڈالا جائے تو واقعاتی افق بڑھ جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم منفی مادّے کو بلیک ہول میں ڈالیں تو اس کا واقعاتی افق سکڑے گا۔ لہٰذا بلیک ہول کی تبخیر واقعاتی افق کے قریب منفی توانائی پیدا کرتی ہے۔ (کچھ لوگ یہ تجویز دیتے ہیں کہ ثقب کرم کا دہانہ واقعاتی افق کے قریب رکھنے سے منفی توانائی کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بہرصورت ایسی کوئی بھی منفی توانائی کا حصول غیر معمولی طور پر مشکل اور خطرناک ہوگا۔ کیونکہ آپ واقعاتی افق کے انتہائی نزدیک ہوں گے۔)
ہاکنگ نے دکھایا کہ عام طور پر منفی توانائی ثقب کرم کو پائیدار بنانے کے ہر طریقے میں درکار ہو گی۔ وجہ کافی سادہ ہے۔ عام طور پر مثبت توانائی ثقب کرم کے دھانے کا منہ کھول سکتی ہے جو مادّے اور توانائی کو مرتکز کر دے گا۔ بہرحال اگر یہ روشنی کی شعاعیں دوسری طرف نمودار ہوں گی تو ثقب کرم کے قلب میں کہیں یہ روشنی کی اشعاع اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گی۔ صرف ایک ہی صورت ایسی ہے جس میں ایسا ہو سکتا ہے یعنی کہ اگر منفی توانائی موجود ہوگی۔ مزید براں منفی توانائی دفع کرتی ہے جو ثقب کرم کے دھانے کو قوّت ثقل کے زیر اثر بند ہونے سے روکنے کے لئے ضروری ہے۔ لہٰذا ٹائم مشین یا ثقب کرم کو بنانے کی کنجی کافی مقدار میں منفی توانائی کی تلاش ہے جو ثقب کرم کا دہانہ کھول کر اس کو پائیداری فراہم کرے۔ (متعدد طبیعیات دانوں نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ بڑے ثقلی میدانوں کی موجودگی میں منفی میدان کافی عام ہیں۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ ایک دن ثقلی منفی توانائی کو ٹائم مشین بنانے کے لئے استعمال کیا جا سکے۔)
ایسی ٹائم مشین کو بنانے کے لئے دوسرے جس مسئلے کا سامنا ہوتا ہے وہ ہے کہ ثقب کرم کو کہاں ڈھونڈا جائے؟ تھورن نے اس حقیقت پر انحصار کیا کہ ثقب کرم قدرتی طور پر مکان و زمان کے بلبلے میں پائے جاتے ہیں۔ یہ بات اس سوال کو دوبارہ اٹھاتی ہے جو آج سے دو ہزار برس پہلے یونانی فلاسفر زینو نے کیا تھا کہ وہ چھوٹے سے چھوٹا فاصلہ کیا ہے جس کا سفر کیا جا سکتا ہے؟ زینو نے ریاضیاتی طور پر ثابت کیا کہ دریا کے درمیان فاصلے کو لامحدود نمبروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن کیونکہ لامحدود نقاط کو طے کرنے کے لئے لامحدود وقت درکار ہوگا لہٰذا دریا کو پار کرنا ناممکن ہوگا۔ یا یوں کہہ لیں کہ کسی بھی چیز کا حرکت کرنا ناممکن ہوگا۔ (اس کو ثابت کرنے کے لئے دو ہزار برس کا وقت لگ گیا اور علم الاحصاء کی مدد سے بالآخر اس معمے کو حل کر لیا گیا۔ اس بات کو ثابت کیا جا سکتا ہے کہ لامحدود نقاط کو محدود وقت میں پار کیا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں بالآخر حرکت ریاضیاتی طور پر ممکن ہو گئی۔)
پرنسٹن کے جان وہیلر نے آئن سٹائن کی مساوات کا تجزیہ کیا تاکہ چھوٹے سے چھوٹا فاصلہ ناپا جا سکے۔ وہیلر نے پتا لگایا کہ ناقابل تصوّر چھوٹے فاصلے جو پلانک کی لمبائی 10-33 سینٹی میٹر جتنے ہوں گے ان فاصلوں کے پیمانوں پر آئن سٹائن کا نظریہ کہتا ہے کہ خلاء کا خم کافی زیادہ ہوگا۔ بالفاظ دیگرے، پلانک لمبائی پر خلاء ہموار ہونے کے بجائے بڑے خم رکھتا ہے – یعنی کہ یہ عجیب اور بلبلے جیسا ہوتا ہے ۔ خلاء گلٹی دار بن جاتا ہے بلبلے والے جھاگ کی طرح ہوتا ہے جو عدم سے نمودار ہو کر فنا ہوتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ خالی خلاء ننھے سے فاصلے پر مسلسل مکان و زمان کے ننھے بلبلوں سے ابلتی رہتی ہے، جو اصل میں ننھے ثقب کرم اور نوزائیدہ کائناتیں ہیں۔ عام طور پر "مجازی ذرّات" الیکٹران اور ضد الیکٹران کے جوڑوں پر مشتمل ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے ٹکرا کر فنا ہونے سے پہلے ہی مختصر عرصے کے لئے وجود میں آتے ہیں۔ لیکن پلانک فاصلے پر، یہ ننھے بلبلے مکمل کائنات اور ثقب کرم ہوتے جو وجود میں آنے کے لئے نکلتے ہیں لیکن صرف خالی جگہ میں واپس غائب ہو جاتے ہیں۔ ہماری اپنی کائنات شاید ان ہی بلبلوں میں سے کسی ایک سے شروع ہوئی تھی جو مکان و زمان میں تیر رہے ہیں ۔ ہماری کائنات اچانک ہی کسی نامعلوم وجہ سے پھول گئی تھی۔ کیونکہ ثقب کرم قدرتی طور پر جھاگ میں پائے جاتے ہیں۔ تھورن نے اس بات کو فرض کیا تھا کہ کوئی بھی جدید تہذیب کسی طرح سے ان ثقب کرم کو جھاگ میں سے چن کر پھیلانے کے بعد منفی توانائی کی مدد سے پائیدار بنائے گی۔ ہر چند یہ بہت ہی مشکل عمل ہوگا، لیکن یہ قوانین طبیعیات کے دائرۂ اثر میں ہی ہے۔
اگرچہ تھورن کی ٹائم مشین نظری طور پر ممکن نظر آتی ہے لیکن اس کو انجینئرنگ کے نقطہ نظر سے بنانا بہت زیادہ مشکل ہے۔ لیکن ایک تیسرا مسئلہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ آیا وقت میں سفر بنیادی قوانین کی خلاف ورزی ہے؟
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں