١٩٩١ء میں پرنسٹن کے جے رچرڈ گوٹ III نے آئن سٹائن کی مساوات کا ایک اور حل پیش کیا جو وقت میں سفر کو ممکن بناتا ہے۔ اس کا طریقہ دلچسپ تھا کیونکہ اس نے بالکل ایک نئے طریقے سے شروعات کی تھی۔ اس نے گھومتے ہوئے اجسام ، ثقب کرم اور منفی توانائی کو مکمل طور پر چھوڑ دیا تھا۔
گوٹ کینٹکی میں واقع لوئسویل میں ١٩٤٧ء میں پیدا ہوا تھا اور وہ اب بھی دھیمے جنوبی لہجے میں بات کرتا ہے جواعلیٰ و ارفع نظری طبیعیات کی دنیا میں تھوڑا عجیب سا لگتا ہے۔ اس نے سائنس کی دنیا میں اپنے لڑکپن میں اس وقت قدم رکھا جب اس نے ایک شوقیہ فلکی کلب کو جوائن کرکے ستاروں کو دیکھنے کا مزہ لوٹنا شروع کیا۔اس نے اسکول میں ممتاز ویسٹنگ ہاؤس سائنس ٹیلنٹ سرچ مقابلہ جیتا اور اس وقت کے بعد سے وہ اس مقابلے سے وابستہ رہا ہے اور بطور منصف اعلیٰ کے کافی عرصے تک کام کیا ہے۔ ہارورڈ سے ریاضی میں سند حاصل کرنے کے بعد وہ پرنسٹن چلا گیا جہاں وہ اب بھی کام کرتا ہے۔
کونیات پر تحقیق کرنے کے دوران اس کی دلچسپی "کائناتی تاروں" میں ہو گئی جو بگ بینگ کے کچھ نظریوں کے مطابق اس کی باقیات ہونی چاہئے۔ کونیاتی تار شاید ایک جوہر کے مرکزے سے بھی چھوٹی چیز ہوں گے لیکن ان کی کمیت کہکشانی ہو گی اور وہ خلاء میں کروڑوں نوری برس کے فاصلے پر پھیلے ہوئے ہوں گے۔ گوٹ نے آئن سٹائن کی مساوات کا پہلا حل جو تلاش کیا وہ کونیاتی تاروں کی مدد سے ممکن تھا۔ لیکن پھر اس نے ان کونیاتی تاروں میں کچھ عجیب سے چیز دیکھی۔ اگر آپ کوئی دو کونیاتی تار لے کر ایک دوسرے کی جانب بھیجیں تو متصادم ہونے سے پہلے ممکن ہے کہ ان کو ٹائم مشین کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ سب سے پہلے اس نے یہ پتا لگایا کہ اگر کوئی متصادم ہوتے ہوئے کونیاتی تاروں کے گرد ایک چکر لگائے تو خلاء سکڑ جائے گی جس کے نتیجے میں اس کے خواص عجیب ہو جائیں گے۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ اگر کسی میز کے گرد چکر لگائیں اور واپس اس جگہ پر پہنچیں جہاں سے شروع کیا تھا تو ہم نے ٣٦٠ درجہ کا سفر کیا ہوگا۔ لیکن وہ خلائی جہاز جو کونیاتی تاروں کے گرد اس وقت سفر کر رہا ہوگا جب وہ ایک دوسرے کو پار کر رہے ہوں گے تو یہ ٣٦٠ درجے سے کم کا سفر ہوگا کیونکہ خلاء سکڑ چکا ہوگا۔ (اس کی مقامیات مخروط کی طرح ہوگی۔ اگر ہم کسی مخروط کے گرد مکمل چکر لگائیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم نے ٣٦٠ درجے سے کم چکر لگایا ہے۔) اس طرح سے دونوں تاروں کے گرد تیزی سے چکر لگاتے ہوئے ہم روشنی کی رفتار سے بھی تیز سفر کر سکتے ہیں۔ ایسا دور سے دیکھنے والے شاہد کو لگے گا کیونکہ کل فاصلہ امید سے کم ہوگا۔ یہ خصوصی اضافیت سے انحراف نہیں ہے بہرحال آپ کے اپنے وقت کے مطابق خلائی جہاز کبھی بھی روشنی کی رفتار کو پیچھے نہیں چھوڑے گا۔
لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ اگر آپ متصادم ہوتے ہوئے کونیاتی تاروں کے گرد سفر کریں تو آپ ماضی کا سفر کر سکتے ہیں۔ گوٹ یاد کرتے ہیں، "جب میں نے اس حل کو ڈھونڈا تھا، میں کافی خوش تھا۔ یہ حل صرف مثبت کمیت کا مادّہ استعمال کرتا ہے جو روشنی کی رفتار سے کم پر حرکت کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف ثقب کرم کے حل زیادہ تر منفی کمیت و توانائی والے مادوں کا استعمال کرتے ہیں ( وہ چیز جس کا وزن عدم سے کم ہوتا ہے)۔"
لیکن ٹائم مشین کے لئے درکار توانائی بہت ہی زیادہ ہوگی۔ "ماضی میں وقت کے سفر کے لئے، کونیاتی تار کی کمیت فی سینٹی میٹر لمبائی لگ بھگ ایک کروڑ ارب ٹن ہوگی اور ان کو روشنی کی رفتار کے 99.999999996 فیصد تیزی کے ساتھ مخالف سمت میں حرکت کرنا ہوگی۔ ہم نے اس رفتار سے کائنات میں کم از کم بلند توانائی والے پروٹون کو حرکت کرتے ہوئے دیکھا ہے لہٰذا یہ رفتار حاصل کرنا ممکن ہے۔" اس نے کہا۔ کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر کونیاتی تار موجود بھی ہوں گے تو وہ کافی نایاب ہیں اور متصادم تار تو اس سے بھی زیادہ کمیاب ہوں گے۔ لہٰذا گوٹ نے یہ تجویز پیش کی ہے۔ ایک جدید تہذیب ایک کونیاتی تار خلائے بسیط میں تلاش کرے گی۔ دیوہیکل خلائی جہاز اور جسیم آلات کی مدد سے وہ تار کو چوکور حلقے میں تبدیل کر دیں گے جو ہلکا سے مڑا ہوا ہوگا (جو تھوڑا سا خم زدہ کرسی جیسا ہوگا)۔ یہ خیالی حلقہ اپنی قوّت ثقل کے زیر اثر منہدم ہو جائے گا لہٰذا اس طرح سے دو کونیاتی تار ایک دوسرے کو روشنی کی رفتار سے پارکر لیں گے اور اس طرح سے تھوڑے وقت کے لئے ٹائم مشین بن جائے گی۔ اس بات سے قطع نظر گوٹ تسلیم کرتے ہیں ، "ایک منہدم ہوتا ہوا تاروں کا حلقہ جو آپ کو ماضی میں ایک برس پیچھے تک لے جائے اس کو ایک آدھی کہکشاں کی کمیت اور توانائی درکار ہوگی۔"
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں