Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    اتوار، 3 اپریل، 2016

    قابل مشاہدہ بلیک ہول


    بلیک ہول کے عجیب و غریب خواص کی وجہ سے ١٩٩٠ء کے عشرے کے آخر تک ان کے وجود کو سائنسی قصوں سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ "دس برس پہلے، اگر آپ کو کہکشاں کے مرکز میں موجود کوئی ایسی چیز مل جاتی جس کو آپ بلیک ہول سمجھتے تو آدھے لوگ آپ کو باؤلا سمجھتے۔،" ١٩٩٨ء میں یونیورسٹی آف مشی گن کے ڈوگلس رچ اسٹون بتاتے ہیں۔ تب سے ماہرین فلکیات نے سینکڑوں کی تعداد میں فضائے بسیط میں ہبل خلائی دوربین چاندرا ایکس رے خلائی دوربین (جو طاقتور نجمی اور کہکشانی منبع سے خارج ہوتی ہوئی ایکس ریز کو ناپتی ہے )، اور بہت بڑی قطار والی ریڈیائی دوربین (جو نیو میکسیکو میں طاقتور ریڈیائی دوربینوں کے سلسلے پر مشتمل ہے ) کی مدد سے بلیک ہولز کی شناخت کی ہے۔ کئی ماہرین فلکیات یقین رکھتے ہیں کہ اصل میں فلک میں موجود اکثر کہکشاؤں ( جن کے مرکز میں اپنی قرص کا ایک گومڑ سا ہوتا ہے ان)کے قلب میں بلیک ہول موجود ہیں۔

    جیسا کہ قیاس کیا گیا تھا کہ خلاء میں پائے جانے والے تمام بلیک ہول تیزی سے گھومتے ہیں ، ہبل خلائی دوربین نے ان میں سے کچھ کو پچاس لاکھ میل فی گھنٹہ گھومتے ہوئے درج کیا ہے۔ مرکز کے عین قلب میں ایک چپٹا کروی قلب جو اکثر ایک نوری برس پر محیط ہوتا ہے ۔ اس قلب کے اندر واقعاتی افق اور بلیک ہول بذات خود واقع ہوتا ہے۔

    کیونکہ بلیک ہول غیر مرئی ہوتے ہیں، لہٰذا فلکیات دانوں کو ان کی موجودگی کا سراغ لگانے کے لئے بالواسطہ طریقے استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ تصویروں میں وہ بلیک ہول کے ارد گرد موجود گرد و غبار کی گھومتی ہوئی "افزودہ قرص "یا " تہ دار ٹکیہ" کو شناخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ماہرین فلکیات نے اب ان گھومتی ہوئی افزودہ قرص کی خوبصورت تصویریں حاصل کر لی ہیں۔ (یہ قرص لگ بھگ آفاقی طور پر کائنات میں پائے جانے والے زیادہ تر گھومتے اجسام کے پاس پائی جاتی ہیں۔ ہمارے اپنے سورج کے گرد بھی آج سے ٤ ارب ٥٠ کروڑ سال پہلے اس کی تخلیق کے وقت ایسی ہی قرص اس کے ارد گرد موجود تھی جو بعد میں سیاروں کی صورت میں ڈھل گئی۔ یہ قرص اس لئے بنتی ہیں کہ کسی بھی تیزی سے گھومتی ہوئی چیز میں ان کی توانائی کی حالت سب سے پست ہوتی ہے۔)نیوٹن کے قوانین حرکت کا استعمال کرتے ہوئے، فلکیات دان مرکز میں موجود جسم کی کمیت کا حساب اس کے گرد چکر لگانے والے ستاروں کی سمتی رفتار سے لگا سکتے ہیں ۔ اگر مرکز میں موجود جسم کی کمیت کی فراری سمتی رفتار روشنی کی رفتار کے برابر ہے ، تو روشنی بھی راہ فرار حاصل نہیں کر سکتی اس طرح سے بالواسطہ طور پر ہمیں بلیک ہول کی موجودگی کا ثبوت حاصل ہوتا ہے۔

    واقعاتی افق افزودہ قرص کے عین قلب میں موجود ہوتی ہے۔( جو بدقسمتی سے اس قدر چھوٹی ہے کہ ہماری موجودہ ٹیکنالوجی اس کو شناخت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ماہرین طبیعیات فلویو میلیا کا دعویٰ ہے کہ بلیک ہول کے واقعاتی افق کی تصویر حاصل کرنا بلیک ہول کی سائنس کا بہت ہی جرت مندانہ اقدام ہوگا۔) واقعاتی افق سے گزرنے والی تمام گیس بلیک ہول میں نہیں گرتی۔ ان میں سے کچھ گیس جو واقعاتی افق کو پار کرنے کی کوشش کرتی ہے ، اس کو یہ اٹھا کہ خلاء میں زبردست سمتی رفتار سے پھینک دیتی ہے۔ نتیجتاً گیس کی دو پھواریں بلیک ہول کے جنوبی اور شمالی قطب سے نکلتی ہیں۔ جس کی وجہ سے بلیک ہول ایک گھومتے ہوئے لٹو کی طرح ظاہر ہوتا ہے۔(پھواروں کے اس طرح سے نکلنے کی وجہ ممکنہ طور پر منہدم ہوتے ہوئے ستاروں کے مقناطیسی میدان کے خطوط ہوتے ہیں جو شمالی اور جنوبی قطبین پر زیادہ مرتکز اور زیادہ شدید ہوتے ہیں۔ جیسے ستارہ منہدم ہونا جاری رکھتا ہے یہ مقناطیسی میدانی خط کثیف ہوتے ہوئے دو نلکیوں کی صورت میں شمالی اور جنوبی قطبین سے خارج ہوتے ہیں۔ جیسے ہی روانی ذرّات منہدم ہوتے ہوئے ستارے میں گرتے ہیں تو یہ ان تنگ مقناطیسی خطوط کی اقتداء کرتے ہوئے فواروں کی صورت میں جنوبی اور شمالی مقناطیسی قطب کے ذریعہ خارج ہوتے ہیں۔)

    دو اقسام کے بلیک ہولز کی شناخت کی جاچکی ہے۔ پہلا نجمی بلیک ہول ہے جس میں قوّت ثقل مرتے ہوئے ستارے کو اتنا دباتی ہے کہ وہ پھٹ پڑتا ہے۔ دوسرا بہرحال زیادہ آسانی سے شناخت کیا جا سکتا ہے۔ یہ کہکشانی بلیک ہول ہوتے ہیں، جو بڑی کہکشاؤں اور کوزارس کے قلب میں گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں جن کا وزن سورج کی کمیت کا کروڑوں سے لے کر ارب ہا گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    حال ہی میں ایک بلیک ہول ہماری اپنی ملکی وے کہکشاں کے مرکز میں حتمی طور پر دریافت کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے گرد کے بادلوں نے کہکشانی مرکز کو دھندلایا ہوا ہے ، لیکن بہرحال ایک عظیم آگ کا گولہ ہمیں زمین پر وہاں سے ہر رات کو برج قوس کی جانب سے آتا ہوا نظر آتا ہے۔ گرد کے بغیر ملکی وے کا قلب شاید چاند کو بھی گہنا دے جس کے نتیجے میں یہ آسمان میں موجود سب سے روشن جسم بن جائے گا۔ اس کہکشانی مرکزے کے عین قلب میں ایک بلیک ہول موجود ہے جس کی کمیت سورج کے مقابلے میں پچیس لاکھ گنا زیادہ ہے۔ حجم کی زبان میں بات کریں تو یہ عطارد کے نصف قطر کا دسواں حصّہ ہوگا۔ کہکشانی پیمانے پر یہ کوئی بہت ہی خاص فوق ضخیم بلیک ہول نہیں ہے؛ کوزار کے کچھ بلیک ہولز کی کمیت تو سورج سے ارب ہا گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔ ہمارے پڑوس میں موجود یہ بلیک ہول ابھی غیر متحرک ہے۔

    دوسرا سب سے قریبی بلیک ہول اینڈرومیڈا کہکشاں کے قلب میں بیٹھا ہے جو زمین کی سب سے قریبی کہکشاں ہے۔ اس کی کمیت تین کروڑ سورج کی کمیتوں کے برابر ہے، اور اس کا شوارز چائلڈ نصف قطر چھ کروڑ میل ہے۔ (اینڈرومیڈا کے مرکز میں شاید دو بلیک ہول موجود ہیں جو غالباً کسی دوسری کہکشاں کی باقیات ہے جس کو اینڈرومیڈا نے ارب ہا برس پہلے نگل لیا تھا۔ جب ملکی وے کہکشاں بالآخر اینڈرومیڈا کہکشاں سے آج سے ارب ہا برس بعد جا کر ٹکرائے گی ، سردست تو ایسا ہی لگتا ہے، تو شاید ہماری کہکشاں ، اینڈرومیڈا کا کلیجہ بن کر اس تصادم میں ختم ہو جائے گی۔)

    کہکشانی بلیک ہول کی سب سے خوبصورت تصویر این جی سی ٤٢٦١ کی ہے جو ہبل خلائی دوربین سے لی گئی ہے۔ ماضی میں ریڈیائی خوردبین سے حاصل کردہ اس کہکشاں کی تصویر نے دو نفیس فواروں کو دکھایا تھا جو کہکشاں کے شمالی اور جنوبی قطبین سے نکل رہے تھے ۔ لیکن کوئی بھی اس کے نکلنے کی وجہ کو نہیں جانتا تھا۔ ہبل خلائی دوربین نے اس کہکشاں کے عین قلب کی تصویر لی جس نے چار سو نوری برس پر پھیلی ہوئی قرص کی خوبصورتی کو ہم پر آشکار کیا۔ اس کے عین قلب میں ایک چھوٹا سے نقطہ تھا جس میں ایک نوری برس پر محیط افزودہ قرص تھی ۔ ایک بارہ ارب سورج کی کمیت والا بلیک ہول اس کے مرکز میں تھا جس کو ہبل خلائی دوربین نہیں دیکھ سکتی تھی۔

    اس طرح کے کہکشانی بلیک ہول اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ وہ پورے ستارے کو ہضم کر جاتے ہیں۔ ٢٠٠٤ء میں ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی نے اعلان کیا کہ انہوں نےدور دارز کی کہکشاں میں واقع ایک ایسے جسیم بلیک ہول کا سراغ لگایا ہے جو ایک ستارے کو ایک ہی ڈکار میں ہضم کر رہا ہے۔ چاندرا ایکس رے دوربین اور یورپین ایکس ایم ایم نیوٹن سیارچے دونوں نے بھی اس واقعہ کا مشاہدہ کیا جس میں ایکس ریز پھوٹ کر کہکشاں آرایکس جے ١٢٤٢-١١ خارج ہو رہی تھیں، اور ہمیں اس بات کا اشارہ دے رہی تھی کہ کوئی ستارہ ، قلب میں موجود جسم بلیک ہول کے ذریعہ نگلا جا رہا ہے۔

    بلیک ہول کے وزن کا اندازہ سورج کی کمیت سے دس کروڑ گنا زیادہ لگایا گیا ہے۔ اعداد و شمار اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ جب ستارہ بلیک ہول کے واقعاتی افق سے نزدیک آتا ہے تو زبردست قوّت ثقل ستارے کو مسخ کرکے کھینچنے لگتی ہے یہاں تک کہ ستارہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں ایکس ریز پھٹ کر خارج ہونے لگتی ہیں۔ "یہ ستارہ ٹوٹنے کی حد تک کھینچا جا رہا ہے ۔ یہ بدقسمت ستارہ بس ابھی ہی آوارہ گردی کرتا ہوا غلط جگہ آیا تھا۔"گارچنگ ، جرمنی میں واقع میکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے ماہر فلکیات اسٹیفنی کوموسہ اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں۔

    بلیک ہول کے وجود نے کافی پرانے اسراروں کو حل کرنے میں مدد کی ہے۔ مثال کے طور پر ایم -٨٧ ماہرین فلکیات کے لئے ہمیشہ سے پر تجسس رہی ہے کیونکہ یہ دیکھنے میں ستاروں کی ایک ضخیم گیند لگتی ہے جس میں سے ایک عجیب سی دم ظاہر ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ کافی مقدار میں اشعاع کو خارج کرتی ہے لہٰذا ایک وقت ایسا آیا جب فلکیات دانوں نے اس کو ضد مادّہ کی ایک بہتی ہوئی ندی سمجھا۔ لیکن آج فلکیات دان جانتے ہیں کہ اس کو بلیک ہول کی وجہ سے اتنی توانائی مل رہی تھی ۔ اس بلیک ہول کا وزن شاید تین ارب سورج کی کمیت کے برابر ہے۔ اور وہ عجیب جناتی دم پلازما کے وہ فوارے ہیں جو کہکشاں کے اندر بہنے کے بجائے اس کے باہر بہ رہے ہیں۔

    بلیک سے متعلق ایک اور شاندار دریافت اس وقت ہوئی جب چاندرا خلائی دوربین خلائے بسیط میں موجود گرد کے ایک چھوٹے سے خالی حصّے میں سے جھانکنے کے قابل ہوئی جس میں اس نے قابل مشاہدہ کائنات کے آخری سرحدوں کے پاس بلیک ہولز کا مجموعہ دیکھا۔ سب مل ملا کر چھ سو کے قریب بلیک ہول دیکھے جا سکتے تھے ۔ اس سے قیاس کرتے ہوئے ماہرین فلکیات کا اندازہ ہے رات کے پورے آسمان میں کم از کم تیس کروڑ بلیک ہول موجود ہوں گے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: قابل مشاہدہ بلیک ہول Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top