مذکورہ بالا بلیک ہولز شاید ارب ہا برس پرانے ہوں۔ لیکن اب ماہرین فلکیات کے پاس وہ نایاب موقع موجود ہے جس میں وہ اپنی آنکھوں کے سامنے بلیک ہول کو بنتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ ان میں سے شاید کچھ تو گیما شعاعوں کی وہ بھڑکیں ہیں جو کائنات میں بڑی مقدار میں توانائی کو خارج کرتی ہیں۔ جسیم گیما شعاعوں کی بھڑک کا توانائی خارج کرنے میں بگ بینگ کے بعد دوسرا نمبر بھی ہے۔
گیما شعاعوں کی بھڑک کی ایک پر تجسس تاریخ ہے جو سرد جنگ تک جاتی ہے۔ ١٩٦٠ء کے عشرے کے آخر میں ، ریاست ہائے متحدہ نے ویلا سیارچے کو خلاء میں بطور خاص "جوہری دھماکوں" یا نیوکلیائی بموں کے غیر قانونی دھماکوں کا سراغ لگانے کے لئے چھوڑا۔ کیونکہ نیوکلیائی بم ایک سیکنڈ پر محیط وقت میں مختلف مراحل میں پھٹتا ہے ، ہر دھماکہ کی روشنی ایک مخصوص خاصیت کی حامل ہوتی ہے جس کو سیارچے کے ذریعہ دیکھا جا سکتا ہے۔ (ویلا سیارچے نے ١٩٧٠ء کی دہائی میں ایسے دو دھماکوں کا سراغ جنوبی افریقہ کے قریب پرنس ایڈورڈ جزیرے کے ساحل پر اسرائیلی جنگی جہاز کی موجودگی میں لگایا۔ یہ وہ مشاہدہ تھا جس کے بارے میں جاسوسی دنیا میں اب بھی بحث جاری ہے۔)
لیکن جس بات نے پینٹاگون کو چونکایا وہ یہ تھی کہ ویلا سیارچہ خلاء میں جسیم نیوکلیائی دھماکوں کے نشان حاصل کر رہا تھا۔ کیا روس چھپ کر خلائے بسیط میں کسی نامعلوم جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ہائیڈروجن بم پھاڑ رہا تھا؟ یہ سمجھ کر کہ روس نے امریکہ کو ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی میں اتنی بڑی مات دے دی ہے ، چوٹی کے سائنس دانوں کو بلوایا گیا تاکہ وہ ان پریشان کر دینے والے اشاروں کا صحیح سے تجزیہ کر سکیں۔
روس کے حصّے بخرے ہو جانے کے بعد ان اطلاعات کو رمز بند کرنے کی ضرورت نہیں رہی تھی، لہٰذا پینٹاگون نے فلکیاتی اعداد و شمار کا پہاڑ جیسا مواد دنیائے فلکیات کے لئے شایع کر دیا جس نے ہر چیز کو اپنی اوٹ میں لے لیا۔
عشروں کے بعد پہلی مرتبہ بالکل نیا زبردست قوّت اور امکان کا فلکیاتی مظہر افشا کیا گیا تھا۔ ماہرین فلکیات فوراً سمجھ گئے کہ یہ گیما شعاعوں کی بھڑکیں اپنی قوّت میں انتہائی توانا ہوں گی اور صرف چند سیکنڈ میں ہی ان سے نکلنے والی توانائی اتنی ہو گئی کہ سورج اپنی پوری (دس ارب برس کی ) عمر میں بھی نہیں خارج کر سکتا۔ لیکن یہ واقعات اس قدر تیزی سے وقوع پذیر ہو رہے تھے کہ اس وقت تک کہ جب زمینی دوربینوں کا رخ ان کی طرف کیا جاتا تو یہ ختم ہو چکے ہوتے ۔ (زیادہ تر بھڑکیں ایک سے لے کر دس سیکنڈ تک کی تھیں، لیکن سب سے مختصر تو صرف 0.01 سیکنڈ تک ہی قائم رہ سکی تھی۔ جبکہ دوسری کچھ منٹوں تک چلتی رہیں تھیں۔)
آج خلائی دوربین، کمپیوٹر اور تیز رفتار رد عمل دینے والی ٹیموں نے گیما شعاعوں کی بھرکوں کو پکڑنے کے لئے ہماری صلاحیت و قابلیت کو کافی بدل دیا ہے۔ ایک دن میں تین مرتبہ گیما شعاعوں کی بھڑک کا سراغ لگایا جاتا ہے جو پیچیدہ واقعات کی ایک زنجیر کو شروع کرتی ہیں۔ جیسے ہی سیارچہ کسی توانائی کا سراغ لگاتا ہے، ماہرین فلکیات کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہوئی تیزی سے اس کا درست محل و وقوع تلاش کرتے ہیں اور اس درست سمت میں مزید دوربینوں اور حساسیوں کا رخ کر دیتے ہیں۔ ان آلات سے حاصل کردہ اعداد و شمار نے حقیقی شاندار نتائج کو ہم پر آشکار کیا۔ ان گیما شعاعوں کی بھڑکوں کے عین قلب میں ایک ایسا جسم موجود ہوتا ہے جو اکثر صرف چند میل پر ہی محیط ہوتا ہے ۔ بالفاظ دیگر ، ناقابل تصوّر گیما شعاعوں کی کونیاتی قوّت صرف ایک ایسے علاقے میں مرتکز ہوتی ہے جو نیویارک شہر جتنا ہوتا ہے۔ برسوں تک اس طرح کے واقعات کے امیدوار ثنائی نظام میں موجود دو متصادم ہوتے نیوٹران ستارے ہی تھے۔
اس نظرئیے کے مطابق ، نیوٹران ستاروں کے مدار وقت کے ساتھ ساتھ تنزلی کا شکار ہوتے ہوے ایک موت کے مرغولے کے پیچھے رخصت سفر باندھ لیتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ بالآخر ایک دوسرے سے جا ٹکراتے ہیں اور دیوہیکل قسم کی توانائی کو خارج کرتے ہیں۔ ایسی واقعات بہت ہی شاذونادر ہوتے ہیں لیکن کیونکہ کائنات بہت ہی وسیع ہے اور یہ بھڑکیں پوری کائنات کو روشن کر دیتی ہیں اس لئے ان کو دن میں کئی مرتبہ دیکھا جاتا ہے۔
لیکن ٢٠٠٣ء سائنس دانوں کے حاصل کردہ نئے شواہد کی روشنی میں اس بات کا معلوم ہوا کہ شاید یہ گیما شعاعوں کی بھڑکیں ہائپر نووا کا نتیجہ ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں فوق ضخیم بلیک ہول کا جنم ہوتا ہے۔ دوربینوں اور سیارچوں کا رخ تیزی کے ساتھ گیما شعاعوں کی بھڑکوں کی سمت میں کرتے ہوئے سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ یہ ضخیم سپرنووا کے مشابہ ہیں۔ کیونکہ پھٹتے ہوئے ستارے کے زبردست مقناطیسی میدان ہوتے ہیں اور وہ شمالی اور جنوبی قطبین کے ذریعہ اشعاع کو خارج کرتا ہے ، لہٰذا ان کو ایسا لگا کہ اصل میں سپرووا کی توانائی اتنی نہیں ہوتی جتنی ان کو پہلے لگتی تھی- یعنی کہ ہم ان دھماکوں کا مشاہدہ صرف اس وقت کر سکتے ہیں جب ان کا رخ ہماری طرف ہو۔ اس کے نتیجے میں وہ ہمیں اپنی توانائی کے بارے میں غلط تاثر دیتے ہیں۔
حقیقت میں گیما شعاعوں کی بھڑکیں بلیک ہول کے بنتے وقت کی ہیں تو اگلی نسل کی خلائی دوربینیں ان کا مفصل تجزیہ کرکے شاید کچھ مکان و زمان سے متعلق گہرے سوالات کا جواب دے سکیں۔ خاص طور سے اگر بلیک ہول مکان کو بل دے سکتے ہیں تو کیا وہ وقت کو بھی خم دے سکتے ہیں؟
گیما شعاعوں کی بھڑک کی ایک پر تجسس تاریخ ہے جو سرد جنگ تک جاتی ہے۔ ١٩٦٠ء کے عشرے کے آخر میں ، ریاست ہائے متحدہ نے ویلا سیارچے کو خلاء میں بطور خاص "جوہری دھماکوں" یا نیوکلیائی بموں کے غیر قانونی دھماکوں کا سراغ لگانے کے لئے چھوڑا۔ کیونکہ نیوکلیائی بم ایک سیکنڈ پر محیط وقت میں مختلف مراحل میں پھٹتا ہے ، ہر دھماکہ کی روشنی ایک مخصوص خاصیت کی حامل ہوتی ہے جس کو سیارچے کے ذریعہ دیکھا جا سکتا ہے۔ (ویلا سیارچے نے ١٩٧٠ء کی دہائی میں ایسے دو دھماکوں کا سراغ جنوبی افریقہ کے قریب پرنس ایڈورڈ جزیرے کے ساحل پر اسرائیلی جنگی جہاز کی موجودگی میں لگایا۔ یہ وہ مشاہدہ تھا جس کے بارے میں جاسوسی دنیا میں اب بھی بحث جاری ہے۔)
لیکن جس بات نے پینٹاگون کو چونکایا وہ یہ تھی کہ ویلا سیارچہ خلاء میں جسیم نیوکلیائی دھماکوں کے نشان حاصل کر رہا تھا۔ کیا روس چھپ کر خلائے بسیط میں کسی نامعلوم جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ہائیڈروجن بم پھاڑ رہا تھا؟ یہ سمجھ کر کہ روس نے امریکہ کو ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی میں اتنی بڑی مات دے دی ہے ، چوٹی کے سائنس دانوں کو بلوایا گیا تاکہ وہ ان پریشان کر دینے والے اشاروں کا صحیح سے تجزیہ کر سکیں۔
روس کے حصّے بخرے ہو جانے کے بعد ان اطلاعات کو رمز بند کرنے کی ضرورت نہیں رہی تھی، لہٰذا پینٹاگون نے فلکیاتی اعداد و شمار کا پہاڑ جیسا مواد دنیائے فلکیات کے لئے شایع کر دیا جس نے ہر چیز کو اپنی اوٹ میں لے لیا۔
عشروں کے بعد پہلی مرتبہ بالکل نیا زبردست قوّت اور امکان کا فلکیاتی مظہر افشا کیا گیا تھا۔ ماہرین فلکیات فوراً سمجھ گئے کہ یہ گیما شعاعوں کی بھڑکیں اپنی قوّت میں انتہائی توانا ہوں گی اور صرف چند سیکنڈ میں ہی ان سے نکلنے والی توانائی اتنی ہو گئی کہ سورج اپنی پوری (دس ارب برس کی ) عمر میں بھی نہیں خارج کر سکتا۔ لیکن یہ واقعات اس قدر تیزی سے وقوع پذیر ہو رہے تھے کہ اس وقت تک کہ جب زمینی دوربینوں کا رخ ان کی طرف کیا جاتا تو یہ ختم ہو چکے ہوتے ۔ (زیادہ تر بھڑکیں ایک سے لے کر دس سیکنڈ تک کی تھیں، لیکن سب سے مختصر تو صرف 0.01 سیکنڈ تک ہی قائم رہ سکی تھی۔ جبکہ دوسری کچھ منٹوں تک چلتی رہیں تھیں۔)
آج خلائی دوربین، کمپیوٹر اور تیز رفتار رد عمل دینے والی ٹیموں نے گیما شعاعوں کی بھرکوں کو پکڑنے کے لئے ہماری صلاحیت و قابلیت کو کافی بدل دیا ہے۔ ایک دن میں تین مرتبہ گیما شعاعوں کی بھڑک کا سراغ لگایا جاتا ہے جو پیچیدہ واقعات کی ایک زنجیر کو شروع کرتی ہیں۔ جیسے ہی سیارچہ کسی توانائی کا سراغ لگاتا ہے، ماہرین فلکیات کمپیوٹر کا استعمال کرتے ہوئی تیزی سے اس کا درست محل و وقوع تلاش کرتے ہیں اور اس درست سمت میں مزید دوربینوں اور حساسیوں کا رخ کر دیتے ہیں۔ ان آلات سے حاصل کردہ اعداد و شمار نے حقیقی شاندار نتائج کو ہم پر آشکار کیا۔ ان گیما شعاعوں کی بھڑکوں کے عین قلب میں ایک ایسا جسم موجود ہوتا ہے جو اکثر صرف چند میل پر ہی محیط ہوتا ہے ۔ بالفاظ دیگر ، ناقابل تصوّر گیما شعاعوں کی کونیاتی قوّت صرف ایک ایسے علاقے میں مرتکز ہوتی ہے جو نیویارک شہر جتنا ہوتا ہے۔ برسوں تک اس طرح کے واقعات کے امیدوار ثنائی نظام میں موجود دو متصادم ہوتے نیوٹران ستارے ہی تھے۔
اس نظرئیے کے مطابق ، نیوٹران ستاروں کے مدار وقت کے ساتھ ساتھ تنزلی کا شکار ہوتے ہوے ایک موت کے مرغولے کے پیچھے رخصت سفر باندھ لیتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ بالآخر ایک دوسرے سے جا ٹکراتے ہیں اور دیوہیکل قسم کی توانائی کو خارج کرتے ہیں۔ ایسی واقعات بہت ہی شاذونادر ہوتے ہیں لیکن کیونکہ کائنات بہت ہی وسیع ہے اور یہ بھڑکیں پوری کائنات کو روشن کر دیتی ہیں اس لئے ان کو دن میں کئی مرتبہ دیکھا جاتا ہے۔
لیکن ٢٠٠٣ء سائنس دانوں کے حاصل کردہ نئے شواہد کی روشنی میں اس بات کا معلوم ہوا کہ شاید یہ گیما شعاعوں کی بھڑکیں ہائپر نووا کا نتیجہ ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں فوق ضخیم بلیک ہول کا جنم ہوتا ہے۔ دوربینوں اور سیارچوں کا رخ تیزی کے ساتھ گیما شعاعوں کی بھڑکوں کی سمت میں کرتے ہوئے سائنس دانوں کو معلوم ہوا کہ یہ ضخیم سپرنووا کے مشابہ ہیں۔ کیونکہ پھٹتے ہوئے ستارے کے زبردست مقناطیسی میدان ہوتے ہیں اور وہ شمالی اور جنوبی قطبین کے ذریعہ اشعاع کو خارج کرتا ہے ، لہٰذا ان کو ایسا لگا کہ اصل میں سپرووا کی توانائی اتنی نہیں ہوتی جتنی ان کو پہلے لگتی تھی- یعنی کہ ہم ان دھماکوں کا مشاہدہ صرف اس وقت کر سکتے ہیں جب ان کا رخ ہماری طرف ہو۔ اس کے نتیجے میں وہ ہمیں اپنی توانائی کے بارے میں غلط تاثر دیتے ہیں۔
حقیقت میں گیما شعاعوں کی بھڑکیں بلیک ہول کے بنتے وقت کی ہیں تو اگلی نسل کی خلائی دوربینیں ان کا مفصل تجزیہ کرکے شاید کچھ مکان و زمان سے متعلق گہرے سوالات کا جواب دے سکیں۔ خاص طور سے اگر بلیک ہول مکان کو بل دے سکتے ہیں تو کیا وہ وقت کو بھی خم دے سکتے ہیں؟
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں