کوانٹم کا نظریہ وقت کا سب سے کامیاب نظریہ ہے۔ کوانٹم کے نظریہ کی معراج معیاری نمونہ ہے جو عشروں پر محیط ذرّاتی اسراع میں ہونے والی تجرباتی ریاضتوں کا ثمر ہے۔ اس نظریہ کے کچھ حصّوں کو ایک حصّے میں دس ارب تک جانچا جا چکا ہے۔ اگر کوئی نیوٹرینو کی کمیت کو جمع کر دے تب معیاری نمونہ ان تمام تجربات سے بغیر کسی اِستثنیٰ کے مطابقت رکھے گا جو ذیلی جوہری ذرّات پر کیے گئے ہیں۔
لیکن چاہئے کوانٹم کا نظریہ جتنا بھی کامیاب ہو، تجرباتی طور پر یہ اس خیال پر انحصار کرتا ہے جس پر فلسفیوں اور نظریوں نے تنازعات کے طوفان کو پچھلے اسی برس سے برپا کیا ہوا ہے۔ دوسری بات با الخصوص یہ ہے کہ اس نے مذہبی خفگی کو بھی پیدا کیا ہے کیونکہ یہ اس بات پر سوال اٹھاتا ہے کہ ہماری تقدیر کا فیصلہ کون کرے گا۔ پوری تاریخ میں فلسفی، نظریاتی اور سائنس دان مستقبل کے بارے میں پر تجسس رہے ہیں کہ آیا کسی طرح سے ہم مقدر کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ شیکسپیئر کے مک بیتھ میں ، بنقو ، اس پردے کو اٹھانے کے لئے بیقرار تھا جس نے ہمارے مقدر کو ڈھانک رکھا تھا ، اس نے یادگار جملے کہے تھے:
اگر تم وقت کے تخم کو دیکھ سکتے ہو
اور یہ کہتے ہو کہ کون سا بیچ اگے گا اور کون سا نہیں
تو مجھ سے بات کرو۔۔۔
(ایکٹ ١، منظر ٣)
شیکسپیئر نے یہ الفاظ ١٦٠٦ء میں لکھے تھے۔ ٨٠ برس بعد ایک اور دوسرے انگریز آئزک نیوٹن نے یہ دعویٰ کرنے کی جسارت کی کہ وہ اس قدیمی سوال کا جواب جانتا ہے۔ آئن سٹائن اور نیوٹن دونوں ایک خیال پر یقین رکھتے تھے جس کو جبریت کہتے ہیں جو کہتا ہے کہ مستقبل کے تمام واقعات کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ نیوٹن کے لئے کائنات ایک جسیم گھڑی جیسی تھی جس کو خدا نے تخلیق کرتے وقت ابتدا میں چابی دے دی تھی۔ تب سے یہ چل رہی ہے اور اس کے حرکت کے تین قوانین کا اتباع انتہائی درستگی کے ساتھ قابل پیش گوئی کے کر رہی ہے۔ فرانسیسی ریاضی دان پیری سائمن ڈی لا پلاس جو نپولین کا سائنسی مشیر تھا لکھتا ہے کہ نیوٹن کے قوانین کا استعمال کرتے ہوئے کوئی بھی مستقبل کی پیش بینی بعینہ ایسے درستگی کے ساتھ کر سکتا ہے جیسے کہ کسی کے مستقبل کو دیکھا جاتا ہے۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ اگر کسی ہستی کو کائنات میں موجود تمام ذرّات کی سمتی رفتار اور مقام معلوم ہو تو" ایسی ذی شعور ہستی کے لئے کچھ بھی غیر یقینی نہیں ہوگا؛ اور مستقبل ماضی کی طرح اس کی آنکھوں کے سامنے ہوگا۔" جب لا پلاس نے نپولین کو اپنا شاہکار سماوی میکانیات پیش کیا ، تو بادشاہ نے کہا، "تم نے یہ اتنا سارا کام آسمانوں پر خدا کا ذکر کئے بغیر کیا ہے۔" لاپلاس نے جواب دیا ، "جناب ، مجھے اس خیال کی ضرورت نہیں تھی۔"
نیوٹن اور آئن سٹائن کے لئے آزاد اختیار یعنی کہ ہم اپنی منزل کے لئے خودمختار ہیں ایک دھوکہ تھا۔ حقیقت کا فہم یعنی کہ ٹھوس اجسام جن کو ہم چھوتے ہیں اصل میں ہوتے ہیں اور قطعی حالت میں وجود رکھتے ہیں، آئن سٹائن اس کو "ظاہری حقیقت" کہتا تھا۔ اس نے واضح طور پر اپنے نقطہ نظر کو اس طرح سے پیش کیا:
میں ایک جبریت کا قائل ہوں، اس بات کے لئے مجبور ہوں کہ اس طرح عمل کروں کہ جیسے آزاد اختیار ملا ہوا ہے ، کیونکہ اگر میں شہری سماج میں رہنے کی خواہش رکھتا ہوں تو مجھے ذمہ دار ہونا ہوگا۔ میں فلسفیانہ طور پر جانتا ہوں کہ ایک قاتل اپنے جرم کے لئے سزاوار نہیں ہے، لیکن میں اس کے ساتھ چائے پینے کو ترجیح نہیں دوں گا۔ میرا مستقبل کا تعین مختلف طاقتوں نے کیا ہوا ہے جس پر میرا کوئی اختیار نہیں ہے ، بطور خاص ان پراسرار غدودوں میں جن میں قدرت نے حیات کی روح کو تیار کیا ہے۔ ہینری فورڈ اس کو اپنے دل کی آواز کہتا ہے ، سقراط اس کو شیطان کہہ کر پکارتا ہے: ہر آدمی اپنے طریقے سے اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ انسانی چاہت آزاد نہیں ہے۔۔۔ ہر چیز متعین ہے ۔۔۔ ان قوّتوں کے ذریعہ جن پر ہمارا کوئی قابو نہیں ہے ۔۔۔ چاہئے کیڑے ہوں یا ستارے ہوں۔ انسان، سبزیاں یا کائناتی خاک، ہم تمام پراسرار وقت کے ہاتھوں ناچ رہے ہیں ، فاصلہ میں آہستگی کے ساتھ ایک غیر مرئی کھلاڑی کے ساتھ۔
نظری بھی اس سوال سے نبرد آزما ہیں۔ دنیا کے اکثر مذاہب کسی قسم کی تقدیر کے لکھے پر یقین رکھتے ہیں۔ عقیدہ یہ ہے کہ نہ صرف خدا قادر مطلق (طاقت والا)اور ہر جا حاضر (ہر جگہ موجود ) ہوتا ہے، بلکہ علام الغیوب (ہر چیز یہاں تک کہ مستقبل کا بھی جاننے والا) بھی ہے۔ کچھ مذاہب میں اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ خدا ہماری پیدائش سے پہلے ہی اس بات سے بھی باخبر ہے کہ آیا ہمیں جنّت میں جانا ہے کہ دوزخ میں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ "لوح محفوظ" آسمانوں میں کہیں موجود ہے جس میں ہر چیز کا ذکر ہے بشمول ہمارے نام، تاریخ پیدائش، ناکامیاں اور کامیابیاں، ہمارے خوشی اور غم، ہماری موت کی تاریخ، اور آیا ہم جنّت کے حقدار ہوں گے یا ابد تک دوزخ کی آگ میں جلیں گے۔
( مقدر کے اس نازک نظری سوال نے ایک طرح سے کیتھولک چرچ کو ١٥١٧ء میں آدھا کرنے میں اس وقت اہم کردار ادا کیا جب مارٹن لوتھر نے ویٹن برگ میں پچانوے گرجا گھروں سے گفت و شنید کی۔ اس میں اس نے گرجا کے گناہوں کے بعد معافی کے پرچار پر حملہ کیا – یہ ایک طرح سے امیر لوگوں کے لئے جنّت میں جگہ پانے کے لئے رشوت دینے جیسا عمل تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے لوتھر یہ کہنا چاہتا ہو، خدا ہمارے مستقبل کے بارے میں وقت سے پہلے جانتا ہے اور ہماری قسمت لکھی جا چکی ہے، لیکن خدا کو اس کی نیت کو تبدیل کرنے کے لئے چرچ کو موٹی رقم چندے کی مد میں دے کر راغب نہیں کیا جا سکتا۔)
لیکن ان طبیعیات دانوں کے لئے جو امکان کے تصوّر پر یقین رکھتے ہیں، اب تک کی سب سے متنازع شرط تیسری شرط ہے جس نے نسلوں سے طبیعیات دانوں اور فلسفیوں کو سر درد میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ "مشاہدہ" ایک کھلا اور غلط طریقے سے بیان کیا گیا ہوا تصوّر ہے۔ مزید براں یہ کہ یہ اس چیز پر انحصار کرتا ہے کہ اصل میں دو قسم کی طبیعیات ہے ۔ ایک تو ذیلی جوہروں کی عجیب و غریب دنیا ہے ، جہاں پر الیکٹران بیک وقت دو جگہوں پر پائے جاتے ہیں۔ اور دوسری جہاں اکبر کی طبیعیات ہے جس میں ہم رہتے ہیں، جو نیوٹن کی عقل عامہ کے قوانین کا اتباع کرتی ہوئی پائی جاتی ہے۔
نیلز بوہر کے مطابق، ایک غیر مرئی "دیوار" ہے جس نے روزمرہ کی ہماری شناسا دنیا یعنی جہاں اکبر کو جوہری دنیا سے الگ کیا ہوا ہے۔ جوہری دنیا کوانٹم کے عجیب و غریب قوانین کے تابع ہے ، ہم دیوار کے اس پار رہتے ہیں ، ایک ایسے جہاں میں جہاں سیارے اور ستارے موجود ہیں جہاں موجی تفاعل پہلے ہی منہدم ہو چکا ہے۔
وہیلر جس نے کوانٹم میکانیات کو اس کے خالقوں سے سیکھا تھا، چاہتا تھا کہ اس سوال کے اوپر ان دونوں جہانوں کا خلاصہ بیان کرے۔ وہ بیس بال کے کھیل کی مثال دیتا تھا جس میں تین ثالث ہوتے ہیں اور وہ بیس بال کے اہم نقطے کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک فیصلہ کے دوران تینوں ثالث کہتے ہیں :
پہلا: میں ان کو ایسے پکاروں گا جیسا کہ میں دیکھوں گا۔
دوسرا: میں ان کو ایسا کہوں گا جیسے کہ وہ ہیں۔
تیسرا: وہ اس وقت تک کچھ بھی نہیں ہیں جب تک میں انھیں کچھ کہوں نا۔
وہیلر کے لئے دوسرا ثالث آئن سٹائن تھا جو اس بات پر یقین رکھتا تھا انسان کے تجربے سے باہر ایک مطلق حقیقت موجود ہے۔ آئن سٹائن اس کو "معروضی حقیقت" کہتا تھا، یہ تصوّر جس میں اجسام ایک قطعی حالت میں انسانی مداخلت کے بغیر ہوتے تھے۔ تیسرا ثالث بوہر ہے جو اس بات کو بیان کرتا ہے کہ حقیقت مشاہدے کے بعد ہی بیان کی جا سکتی ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں