Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 27 اپریل، 2016

    کیا سورج سپرنووا دھماکے میں بنا ہے؟





    جواب : زینون کے ٩ پائیدار جبکہ ٢٠ یا اس سے زائد غیر پائیدار ہم جا موجود ہیں۔ (ہم جا وہ جوہر ہوتے ہیں جن میں پروٹون کی تعداد ایک جیسی ہی ہوتی ہے ، ایک ہی طرح کے کیمیائی خصائص ہوتے ہیں تاہم ان کے مرکزے میں مختلف تعداد میں نیوٹران ہوتے ہیں۔ زمین پر زینون کے ہم جاؤں میں ایک مخصوص تناسب ہے۔ مثال کے طور پر زمین پر سب سے کمیاب ہم جا Xe134 (١٠ فیصد) اور Xe136 (٨ فیصد) ہیں۔ عجیب زینون شاید ہم جاؤں کا مختلف تناسب شہابیوں میں پایا جانے وال لگ رہا ہے تاہم یہ عام طور پر استعمال ہونے والی اصطلاح نہیں ہے۔

    مجھے گمان ہے کہ آپ نے ڈاکٹر آلیور منیل کے سورج کے بارے نظریئے میں پڑھ لئے ہوں گے۔ انہوں نے زینون کے تناسب کو اپنے نظریئے کے حق میں استعمال کیا ہے ان کا دعویٰ ہے کہ یہ مشتری اور شمسی ہواؤں میں مختلف تناسب سے ہیں لہٰذا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نظام شمسی ایک سپرنووا کے دھماکے میں پیدا ہوا ہے اور سورج لوہے سے بنا ہے۔

    ان کا دعویٰ ہے کہ عجیب زینون کے ہم جا شہابیوں میں اس وقت تک نہیں بن سکتے جب تک نظام شمسی سپرنووا دھماکے میں نہ پیدا ہو۔ میرے اپنے خیال میں ایسا نہیں ہوا۔ ہم جانتے ہیں کہ گیس کے بادلوں جس سے ہمارا نظام شمسی بنا ہے اس میں بھاری عناصر بھی موجود تھے لہٰذا اس میں کافی سارے سپرنووا کی باقیات بھی موجود ہوں گی۔ زینون کا تناسب آسانی کے ساتھ اس کی نشانی ہو سکتا ہے اور اس کے لئے نظام شمسی کو سپرنووا کے دھماکے میں بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ حقیقت میں منیل کا یہ کام جس پر شہابیوں میں اس نے ہم جاؤں کا تناسب ناپا ہے وہ ان ثبوتوں کے لئے انتہائی اہم ہے جس میں گیس کے بادل جس سے نظام شمسی بنا ہے لازمی طور پر ایک سے زیادہ سپرنووا کی باقیات رکھتے تھے۔

    Xe 136/ 134 کے تناسب کو مشتری بمقابلہ شمسی ہواؤں کے مختلف ناپا گیا ہے۔ ڈاکٹر منیل کے نظریئے کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج کا مرکزی حصّہ سپرنووا کے اندرونی حصّے سے بنا ہے جبکہ بیرونی حصّہ بیرونی حصّے سے۔ جہاں تک مجھے خبر ہے کسی اور دوسرے سائنس دان نے اس طرح کی اہمیت اتنی چھوٹی چیز کو اس طرح سے نہیں دی۔ ہم جاؤں کی نسبت معلوم کرنا ایک مشکل کام ہے اور اس سے زیادہ مشکل اس کا مطلب جاننا ہے لہٰذا میں تو نہیں چاہوں گی کہ اس پر اپنے کسی نظریئے کی بنیاد رکھوں۔ میرے خیال میں نظام شمسی کی پیدائش کے معیاری نمونے کے حق میں جتنے بڑے ثبوت مل چکے ہیں ان کے آگے اس چھوٹے سے نکتے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ مشتری اور سورج دونوں بہت ہی پیچیدہ اجسام ہیں ان میں جوہروں کا امتزاج بہت ہی پیچیدہ ہے۔ اس سے آسانی کے ساتھ زینون کے ہم جاؤں کی نسبت میں فرق آ سکتا ہے۔ میں نہیں سمجھتی کہ نسبت میں فرق کی کوئی زیادہ اہمیت ہے۔

    کیا میں آپ کو سائنسی طریقے کے لئے اس ویب سائٹ کا پتا بتا سکتی ہوں۔ میں چاہوں گی کہ آپ بطور خاص نکتہ نمبر 1.5 پڑھیں: "غیر معمولی دعووں کے لئے غیر معمولی ثبوتوں کی ضرورت ہوتی ہے" اور 1.7 "گلیلیو کو اس طرح دق کیا گیا تھا جیسے کہ آج محققین کو "ایکس" کے لئے کیا جاتا ہے ( لوہے سے بنے سورج کو "ایکس" سے بدل دیں)۔ میں چاہوں گی کہ آپ سائنسی نظریات کو پڑھنا جاری رکھیں تاہم اس کو تنقیدی نگاہ سے دیکھیں۔


    سوال: آپ کے شاندار جواب کا شکریہ۔ آپ کی تیز فہمی نے اس سوال کو آلیور منیل سے جوڑ دیا ؛ آپ بالکل ٹھیک ہیں۔ میں ان کے مقالات کو پڑھ رہا ہوں اور اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ ان کے خیال سے کچھ حد تک متاثر ہوں تاہم اگر میں رومانوی اصطلاح کا استعمال کر سکوں تو میرا ان سے متاثر ہونا سائنسی طریقے کے بجائے رومانوی ہے۔ آپ وہ پہلی فرد ہیں جس نے مجھے یہ بتایا کہ جس مادّے سے ہمارا نظام شمسی بنا ہے وہ ایک نہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ کئی سپرنووا سے آیا ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ اس بات پر یقین نہیں رکھتیں کہ ہمارا سورج ان میں سے کسی کے قلب سے بنا ہو۔ میں طبیعیات میں کمزور ہوں لہٰذا ہو سکتا ہے کہ آپ میری نیوکلیائی تالیف سے متعلق سوال میں مدد کر سکیں۔ وہ کون سا عمل ہے جس نے "عجیب زینون" کے تناسب کو اس تناسب سے الگ بنا دیا جس کو ہم آج شمسی ہواؤں میں دیکھتے ہیں؟ کیا آپ کا یہ مطلب تو نہیں کہ دوسرے زینون کی نسبتیں بھی موجود ہیں جن کو ابھی تک ناپا نہیں گیا؟

    یہ ایک حقیقت ہے کہ گیس جس سے سورج اور نظام شمسی بنے ہیں وہ لازمی طور پر ایک سے زیادہ سپرنووا کی ہے اور جیسا کہ میں اوپر بیان کیا ہے کہ ڈاکٹر منیل کے کچھ کام نے شہابیوں میں موجود کچھ تناسب کی فراوانی کو پہلے منظر نامے کے ثبوت کے طور پر ثابت کیا ہے۔ ہم سپرنووا سے افزود گی کے عمل کو دوسری کہکشاؤں اور اپنی کہکشاں کے دوسرے حصّوں میں بھی دیکھتے ہیں - ایسا لگتا ہے کہ سپرنووا اور ستاروں کی پیدائش میں ایک نہایت مضبوط رشتہ موجود ہے – شاید سپرنووا سے پیدا ہونے والی صدماتی موجوں کی وجہ سے گیس منہدم ہونا شروع ہوتی ہو (یا شاید اس میں مدد کرتی ہو)۔ یہ بہت ہی دلچسپ باز گیری نظام ہے۔ آپ کا یہ خیال درست ہے کہ میں نہیں سمجھتی کہ ڈاکٹر منیل کا نظریہ کوئی وزن رکھتا ہے۔ میں تو پرکھی ہوئی تصویر کے ساتھ اس وقت تک جڑی رہوں گی جب تک کوئی غیر معمولی ثبوت اس کے خلاف نہیں مل جاتے۔

    میں نہیں سمجھتی کہ زینون کے ہم جاؤں جن کو ہم نے ناپا ہے اس کی کوئی اہمیت ہے۔ نیوکلیائی تالیف میں نسبتی پیداوار کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ نے شروع کس سے کیا ہے۔ نسبتوں کو ناپنا کافی مشکل ہوتا ہے اور یہ سورج میں ملنے کے عمل میں تبدیل ہو سکتی ہیں ( یعنی کہ بھاری ہم جا سورج کے مرکز میں گرنا پسند کرتے ہیں)۔ میں سمجھتی ہوں کہ ان ہم جاؤں کو غیر معمولی دعووں کو ثابت کرنے کے ثبوت کے طور پر استعمال کرنا سائنسی طور پر درست نہیں ہوگا۔ 

    ڈاکٹر منیل نے اس کے جواب میں مزید ثبوت پیش کئے جو ان کے دعووں کو ثابت کرنے کے لئے تھے اور انہوں نے درخواست کی کہ ان کو یہاں پر شایع کیا جائے۔ تمام نظریات کو صرف ثبوتوں کی بنیاد پر پرکھنے کا حق ہے تاہم ہم نہیں سمجھتے کہ یہ ویب سائٹ کسی بھی طرح سے اس قسم کے دقیق سائنسی مباحثوں کے لئے مناسب ہے اور ہم یہ کام یعنی کہ ڈاکٹر منیل کے نظریئے کی جانچ کو ان سائنس دانوں پر چھوڑ دیتے ہیں جو نظام شمسی کے بننے کے اوپر تحقیق میں مصروف عمل ہیں۔ ایسے دو سائنس دانوں کا موقف آپ سی این این کی ویب سائٹ پر یہاں دیکھ سکتے ہیں۔ آخر میں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ہم تمام لوگوں کو اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ بہت زیادہ دلچسپ نظریات کو پڑھیں تاہم ان کو تنقیدی نگاہ سے بھی دیکھیں اگر آپ ڈاکٹر منیل کے نظریات کو مزید جاننا چاہتے ہیں تو ان کی ویب سائٹ کا ربط یہ ہے۔ ایک آن لائن بحث و مباحثہ فزلنک پر چل رہا ہے (جس کا ربط ہم ڈاکٹر منیل کی فرمائش پر دے رہے ہیں)۔ 


    کیرن کارنیل میں ٢٠٠٠ء سے لے کر ٢٠٠٥ء تک سند حاصل کرنے والی طالبہ رہی ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں ہونے والی کہکشاؤں کی سرخ منتقلی کی تحقیق کے لئے انہوں نے حصّہ لیا اور اب وہ اپنے آبائی وطن یو کےمیں موجود یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔ ان کی بعد کی تحقیق نے کہکشاؤں کی شکلیات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی جو ان کی بناوٹ اور ارتقا کے بارے میں معلومات فراہم حاصل کرنے کے لئے کی گئی تھی۔ وہ کہکشانی جنگل کے منصوبے کی پروجیکٹ سائنٹسٹ ہیں۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کیا سورج سپرنووا دھماکے میں بنا ہے؟ Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top