مجھے حالیہ ایک ویب سائٹ ملی ہے جس کا نام ہے thesurfaceofthesun.com اور ان کا کہنا ہے کہ سورج کی سطح ٹھوس لوہے کی ہے، کیا یہ تازہ معلومات ہے؟ میرے خیال میں تو لوہا وہ آخری عنصر ہوتا ہے جو ستارے کے پھٹنے سے پہلے بنتا ہے۔ میں ہمیشہ سے یہ سمجھتا رہا ہوں کہ تمام عناصر گداخت کرتے ہوئے ستارے کے آخر میں لوہے کو چھوڑتے ہیں۔
جواب: آپ کی معلومات بالکل درست ہے۔ سورج کے جزو ترکیب کے عمومی طور پر جاننے والے علم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے بلکہ اس کی تصدق کے لئے مزید ثبوت ملے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سورج لوہے سے بنا ہے اور سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس اپنے دعووں کے کافی مضبوط دلائل و ثبوت موجود ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اور جگہوں پر بھی کہا ہے کہ یہ تجسس کی سائٹ اس قسم کے نمونے پر تفصیلی بحث کرنے کی جگہ نہیں ہے ہرچند کہ میں نے دیکھا ہے کہ سورج کے لوہے کی سطح کے خیال میں پائے جانے والے نقائص کو صرف بنیادی طبیعیات کی روشنی میں ہی پکڑا جا سکتا ہے (مثال کے طور پر لوہا سورج کے درجہ حرارت پر بخارات بن کر اڑ جائے گا)۔ اگر آپ اس بارے میں مزید تفصیلات جاننا چاہتے ہیں تو میں آپ کو میں آپ کو ایک فورم پر جاری بحث کی لڑی کا پتا دیتی ہوں۔ جہاں پر اس مذکورہ بالا ویب سائٹ کے مصنف نے جون –جولائی ٢٠٠٥ء میں اپنے نمونے کے اوپر دوسرے فورم کے اراکین کے ساتھ مل کر دلائل دیئے تھے۔
سورج کے گیسی نمونے کے نظریہ بجائے پرانے اور متروک ہونے ( جیسا کہ آپ کی بیان کردہ ویب سائٹ کے مطابق ہے)کے اس کے حق میں مزید ثبوت ملے ہیں۔ اگر آپ نجمی ساخت کو کالج کی سطح پر پڑھیں تو آپ دیکھیں گے کہ کس طرح سے معیاری نمونہ نصف قطر، درجہ حرارت اور دوسرے قابل مشاہدہ خصائص کو کتنے اچھے طریقے سے بیان کرتا ہے۔ اصل میں شمسی نیوٹرینو مسئلہ ( یہ حقیقت کہ معیاری نمونہ سورج سے نیوٹرینو کے اخراج کو زیادہ بتاتا ہے بنسبت اس کے جس کا مشاہدہ ہم آج کرتے ہیں) بجائے شمسی طبیعیات میں تبدیلی کے نیوٹرینو کے نئے خصائص کے بارے میں عندیہ دے رہا ہے! شمسی ارتعاش (سورج کے اندرون سے نکلنے والی صوتی امواج کا مشاہدہ بذریعہ سطح پر اثر کے) بھی نمونے کی تصدیق کرتا ہے۔ لہٰذا ہمارے پاس (حالیہ) ثبوت موجود ہیں جو اس خیال کی تصدق کرتے ہیں کہ سورج زیادہ تر ہائیڈروجن کی گیس سے بنا ہے۔ حقیقت میں تو خلا نوردوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ کائنات زیادہ تر ہائیڈروجن سے بنی ہے، لہٰذا اگر سورج سب سے الگ ہو تو یہ بات کافی عجیب ہوگی۔
سورج میں لوہے کی تھوڑی سی مقدار موجود ہے کیونکہ سورج اس گیسی بادل سے بنا تھا جس میں لوہے (اور دیگر عناصر) بھی موجود تھے اور یہ پچھلے ستاروں اور سپرنووا کے درمیان بنے تھے۔ جب سورج میں ہائیڈروجن ختم ہو جائے گی تو وہ بھاری عناصر کو ضم کرکے اور بھاری عناصر بنائے گا۔ سورج سے ضخیم ستارے یہ عمل لوہے کے عنصر کو بنانے تک جاری رکھتے ہیں۔ لوہا وہ آخری عنصر ہے جس جو بنتے ہوئے توانائی کو خارج کرتا ہے مزید بھاری عناصر کو بننے کے لئے توانائی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے (تاہم یہ انشقاق کے عمل میں توانائی کا اخراج کرتے ہیں) لہٰذا ستارہ ایک مرتبہ جب لوہا بنا لیتا ہے تو مزید توانائی نہیں بچتی جس سے عمل گداخت جاری رہ سکے لہٰذا ستارہ مر جاتا ہے۔ سورج تو اتنا بھی ضخیم نہیں ہے کہ کاربن کو جلا سکے (بھاری عناصر بنانے کے لئے زیادہ درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے) ایک مرتبہ سورج نے اپنے قلب میں کاربن کو بنا لیا تو اس کا قلب ختم ہو جائے گا اور اپنے پیچھے ایک آہستہ ٹھنڈا ہوتا دھما اور سفید بونا ستارہ چھوڑ دے گا۔
لہٰذا کچھ بھی نہیں بدلا اور آپ کا سورج کے کام کرنے کے طریقے کے بارے میں پہلا نظریہ ہی اکثر لوگوں کی نظر میں درست ہے۔
اصل میں سورج کے لوہے سے بننے کے خیال کے پیچھے ایک دلچسپ بات ہے۔ یہ سوال کچھ زیادہ پرانا نہیں ہے کہ سورج کس چیز سے بنا ہے اور اس کی توانائی کا منبع کیا ہے۔٢٠٠ برس سے کم عرصے کے دوران یہ سوال ہی نہیں تھا۔ اس کے بارے میں انیسویں صدی کے وسط میں سوچا گیا۔ یہ کہا گیا کہ ہو سکتا ہے کہ سورج لوہے کی پگھلی ہوئی گرم گیند ہو تاہم صرف سادہ سے حساب بھی بتا سکتے ہیں کہ اندرونی توانائی کے منبع کے بغیر سورج بہت تیزی سے ٹھنڈا ہو جائے گا۔ ١٥٠ برس قبل یہ سمجھ میں آنا شروع ہوا کہ سورج سے نکلنے والی حرارت سے اس کا درجہ حرارت ناپا جا سکتا ہے۔ یوں سورج کا درجہ حرارت ٦٠٠٠ سینٹی گریڈ ناپا گیا جو ٹھوس لوہے کے لئے بہت ہی زیادہ ہے (یا کسی بھی ٹھوس مادّے کے لئے)۔ سورج کے ماسکونی توازن ( قوّت ثقل اور مادّے کا باہری جانب دباؤ جس سے وہ بنا ہے کے درمیان کا توازن)کا طبیعیاتی حساب فوری بتا دے گا کہ لازمی طور پر سورج کو گیس ہونا چاہئے۔ سورج کی توانائی کے شروعات کے نمونے یہ سمجھتے تھے کہ شاید یہ سورج کے آہستہ سکڑنے کی وجہ سے ہے (توانائی قوّت ثقل کی وجہ سے نکل رہی ہے) تاہم اس سے سورج کی عمر کافی کم نکلتی تھی۔ سورج کا طیف سورج کی سطح پر موجود زیادہ تر عام عناصر یعنی ہائیڈروجن اور ہیلیئم کا بتا سکتے ہیں – اس طرح سے کائنات میں سب سے عام پائے جانے والے عناصر کے نمونے سے بھی میل کھاتے ہیں۔ اس تمام کام نے نیوکلیائی طبیعیات کی اور ہماری سورج کی حالیہ سمجھ بوجھ کی راہ ہموار کی ہے جس میں سورج ایک عظیم الجثہ گیسی ہائیڈروجن کا گداختی ری ایکٹر ہے۔
کیرن ماسٹرز
کیرن کارنیل میں ٢٠٠٠ء سے لے کر ٢٠٠٥ء تک سند حاصل کرنے والی طالبہ رہی ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں ہونے والی کہکشاؤں کی سرخ منتقلی کی تحقیق کے لئے انہوں نے حصّہ لیا اور اب وہ اپنے آبائی وطن یو کےمیں موجود یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔ ان کی بعد کی تحقیق نے کہکشاؤں کی شکلیات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی جو ان کی بناوٹ اور ارتقا کے بارے میں معلومات فراہم حاصل کرنے کے لئے کی گئی تھی۔ وہ کہکشانی جنگل کے منصوبے کی پروجیکٹ سائنٹسٹ ہیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں