سفر چاہئے زمین کے مدار میں ایک ہفتہ گزارنے کا ہو یا بیرونی نظام شمسی کے سیاروں کا ایک برس لمبا خلا نوردوں کو ماحول کی شناسائی پیدا کرنے کی ایک جگہ کھانے کی میز ہے۔ خلائی ماہرین نفسیات کچھ عرصے سے یہ جان چکے ہیں کہ کھانے کی اقسام، رنگا رنگی اور اس کا معیار عملے کے جوش و جذبے اور ان کو چاق و چوبند کرنے کے لئے زبردست اثرات کا حامل ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ آپ اس کو اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتے۔ اکثر خلائی پروازی ڈیزائنر اس کہاوت کا اطلاق خوراک پر لاگو کرتے ہیں۔ مریخ پر رہنے والا خلائی جہاز یا چند ماہ کی مہم پر پہلے سے تیار شدہ خوراک ہی قابل عمل ہے۔ تاہم لمبے خلائی سفر میں خوراک کی پیداوار عملے کی صحت کے لئے جسمانی و ذہنی سکون کا سبب بن سکتی ہے۔ تجربات کو خلائی جہازوں میں اور میر اور آئی ایس ایس میں دہرایا جا چکا ہے۔ خلا نوردوں نے مولی، ساگ، اور دوسری کاسنی سبزیاں تھوڑی مقدار میں پیدا کی ہیں۔ عملے نے واضح طور پر یہ بات جان لی ہے کہ سبزیوں کو ثقل اصغر میں اگایا جا سکتا ہے۔ تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ تازہ معیاری خوراک چاہئے ڈبہ بند خوراک کے ساتھ استعمال کی جائے ، وہ نفسیاتی طور پر کافی اہم ہے۔ ایلون ڈریو تبصرہ کرتے ہیں۔ " میں پیش رفت [رسد] کے بارے میں جانتا ہوں جہاں کافی تازہ پیاز اور سیب موجود تھے۔ یہ عام طور پر ان لوگوں کے لئے کافی اچھی خبر ہوتی تھی جب رسد پہنچتی تھی تو وہ ان تازہ سبزیوں کو اور کیپسول کو کھولنے سے نکلنی والی خوشبو کو سونگھتے تھے۔"
ساری تحقیق خلاء میں نہیں کی گئی۔ کارنیل کے چھ سائنس دانوں نے ایک ١١٨ دن کا کائناتی کھانا بنانے کی مہم ہوائی کی ماؤنو لوا کی ٢٤٠٠ میٹر اونچی ڈھلان پر کیا۔ جو ہائی سی کہلایا ( ہوائی اسپیس ایکسپلوریشن اینالوگ اینڈ سیمو لیشن )، ٤ ماہ کا دورہ خاص طور پر اس لئے بنایا گیا تھا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ لمبے سفر کے دوران عملے کے اراکین کو کیا کھانا دیا جانا چاہئے۔ ٹیم نے پہلے سے ڈبہ بند خوراک اور خود سے بنایا ہوا کھانے کو ملا کر کھایا خود بنایا ہوا کھانا انہوں نے وہاں پر موجود اجزاء سے بنایا تھا۔ اراکین نے کھانے پر تفصیلی تبصرے کئے اپنے مزاج ، وزن اور عمومی صحت کا بھی تفصیلی ریکارڈ درج کیا۔ پورے گروپ پر جس چیز کی سب سے زیادہ اہمیت نظر آئی وہ مسالے ، جڑی بوٹیاں اور گرم چٹنی تھی۔ تسکین پہنچانے والی خوراک مثلاً نٹیلا ، مونگ پھلی کا مکھن اور مارجرین بھی پہلے دس چیزوں کی فہرست میں موجود رہے۔ ریشے سے بھرپور خوراک ایک مسئلہ بنے گی کیونکہ عام طور پر ذخیرہ شدہ خوراک کو کافی زیادہ مراحل سے گزارا جاتا ہے اور اس میں ریشہ کم ہوتا ہے۔ گندم اور رائی کے نمکین بسکٹ، پھلیاں اور خشک میوا جات خوراک میں کافی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ یہ کافی لمبے عرصے تک کارآمد بھی رہتے ہیں۔
کھانے کی اشتہاء کے بارے میں ایلون ڈریو بتاتے ہیں:
میرا ذاتی تجربہ ہے کہ میری پہلی ہی مہم میں کھانے کا ذوق بدل گیا تھا۔ میں نے سنا تھا کہ ایسا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے کھانے کا دل سیم کی پھلی کا چاہا تھا۔ میں اپنے گھر میں سیم کی پھلی کو کھانے کے لئے تو پانچ قدم بھی نہیں چلتا تھا۔ مجھے ایس ٹی ایس -١١٨ کے مدار میں جانا تھا جو میری پہلی مہم تھی اور مجھے خشک سیم کی پھلی اور کھمبیاں کھانے کی اشتہاء چڑھ گئی تھی۔ میں دوسری خوراک کو سیم کی پھلی کے لئے بدلنے کے لئے ہر کسی سے کہہ رہا تھا۔ میں نے پوری زندگی میں سیم کی پھلی کو اس طرح سے نہیں کھانا چاہا۔ مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ یکایک یہ کیا ہوا کہ مجھے سیم کی پھلی کھانے کا بھوت سوار ہو گیا۔ جب میں گھر گیا تو ہر چیز واپس معمول پر آ گئی تھی ۔ اور اسی طرح مجھے سیم کی پھلی پسند نہیں تھی جیسا کہ اس سفر میں جانے سے پہلے تھا۔ اپنی دوسری مہم کے دوران مجھے اس قسم کے عجیب و غریب چیزوں سے واسطہ نہیں پڑا نہ کچھ کھانے کی اشتہاء ہوئی (سوائے سینکے ہوئے گوشت کہ جس کا میں پہلے ہی سے دلدادہ تھا)۔
بند نظام
خلائی جہاز کے بند ماحول میں تازہ خوراک کو اگانے سے ایک اہم فائدہ آکسیجن کی پیداوار اور پانی کی بازیافتگی ہے۔ مہم جتنی لمبی سے لمبی ہوگی ، بند نظام یا بازیافتہ نظام کی اہمیت بڑھتی چلی جائے گی۔ ایک بند نظام اہم اجزاء جیسا کہ پانی اور آکسیجن کو بازیافتہ کرکے استعمال شدہ چیزوں کو قابل استعمال چیزوں میں بدلتا ہے۔ ١٩٦٠ء کی دہائی میں بائیو فزکس انسٹیٹیوٹ میں روسی سائنس دانوں نے ایک حیاتی مددگار تجرباتی بند نظام مسکن بنایا جس کو بائیوس ٣ کہا گیا۔ زیر زمین مرکز کو بنیادی طور پر کائی اور دوسرے پودوں کے لئے استعمال کیا۔ ١٩٧٢ء تک عملے کے دو اراکین نے ٣١٥ میٹر کے ایک چوکور خانے میں ٥ ماہ گزارے اور اپنی خوراک اور آکسیجن حاصل کرنے کے لئے اپنے پودے اگائے۔ یہ نظام اس قدر کارگر تھا کہ صرف ٢٠ فیصد خوراک کو باہر سے لانا پڑتا تھا۔
٢٠٠٥ء میں ای ایس اے نے پہلے سے جاری بائیوس ٣ میں اپنی معاونت شروع کی تاہم خلائی ایجنسی کا اپنا بھی ایک منصوبہ ہے۔ ای ایس اے نے ایک تجربہ کیا ہے جس کا نام میلیسا منصوبہ ( متبادل خرد ماحولیاتی حیاتی مدد گار نظام ) ایک خرد حیاتیات اور پودوں پر انحصار کرنے والا ماحولیاتی نظام جو خلا نوردوں کے لئے بند نظام حیاتیاتی خطہ پیدا کرے گا۔ عملے کے اراکین کی ضائع شدہ چیزیں اور ان کی پیدا کی ہوئی ہوائی آلودگی اور خلائی جہاز کے نظام کے مختلف جگہوں سے حاصل کی گئی چیزوں پر پودوں کے قدرتی استحالہ کو استعمال کرکے قابل استعمال بنایا جائے گا۔ وہ پودے خوراک اور صاف پانی اور ہوا کی صفائی کے لئے آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔
میلیسا چار خانوں پر مشتمل ہے۔ ایک مائع کو جمع کرنے والا خانہ مہم کے تمام استعمال شدہ پانی جبکہ نا قابل خوراک پودوں کی ریخت کو بھی پودوں کے خانے سے حاصل کرتا ہے۔ یہ گرم خانہ نا ہوا باش جراثیم کا استعمال کرتے ہوئے کچرے کو اس شکل میں بناتا ہے جو دوسرے خانوں کے لئے قابل استعمال ہوتا ہے۔ دوسرا خانہ چکنے تیزابوں کو توڑتا ہے جبکہ تیسرا خانہ کچرے کو نائٹریٹ میں بدلتا ہے تاکہ پودوں کے استعمال میں آ سکے۔ چوتھا خانہ کائی اور پودوں کو آکسیجن اور خوراک کے لئے استعمال کرتا ہے۔
میلیسا میر یا آئی ایس ایس پر استعمال ہونے والے دوسرے بازیافتہ نظاموں سے کہیں زیادہ جدید ہے۔ مداروی تجربات میں پانی کو صاف کرنا اور خارج کی ہوئی کاربن ڈائی آکسائڈ کو تو بازیافتہ کیا گیا ہے تاہم نامیاتی کچرے کو خوراک بنانے کے لئے استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ ای ایس اے کے سائنس دان اس مقصد کی طرف کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ خرد اجسام سے پیدا کردہ آکسیجن کے تجربات حال ہی میں آئی ایس ایس پر جاری ہیں۔ اس طرح کا کام روسی میر اور پہلے سالیوت خلائی اسٹیشن پر کر چکے ہیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں