تین صدیوں میں بہت کچھ واقعہ ہو چکا تھا یا یوں کہیں کہ ایک ہی صدی میں کافی ساری چیزیں وقوع پذیر ہو گئی تھیں۔ صرف ١٠٠ برس سے بھی کم کے عرصے میں، صنعتی انقلاب نے معاشیات، زمینی منظر نامے اور طرز زندگی کو یورپ میں طبقہ اشرفیہ سے لے کر کان کنی تک ہر چیز کو بالکل بدل کر رکھ دیا تھا۔ طاقتور سوویت یونین ایک ایسی قوم بن کر ٧٠ برس کے عرصے میں آئی اور چلی بھی گئی جس کی فوج اور اشتراکی فلسفے نے آدھی سے زیادہ دنیا پر اپنا اثر ڈال دیا تھا۔ بیسویں صدی کا آغاز طاقتور اڑانوں کی ایجاد کے ساتھ ہوا؛ کافی دقت کے ساتھ انسانوں نے چاند کی طرف کا دو تہائی فاصلہ طے کیا۔ ہم ابلی ہوئی گوبھی سے لے کر گندھے ہوئے آٹے کی سوئیاں مائکروویو میں پکا کر کھانے کے قابل ہوئے ۔ جدت کا یہ سفر صرف طبقہ اشرافیہ تک محدود نہ رہا تھا بلکہ ہر کوئی چاہے وہ سڑک چھاپ ہو، دفتر میں میز پر بیٹھا ہوا کوئی بابو ہو یا پھر چیزوں کو جوڑنے والا کوئی کارخانے میں کام کرنے والا مزدور ہو ہر کوئی اس سے استفادہ اٹھا رہا ہے۔ چاہئے کتنی بھی جدید ٹیکنالوجی کیوں نہ ہو بالآخر انسانیت بحیثیت مجموعی اس کا فائدہ اٹھا ہی لیتی ہے۔ آیا کیا یہ کوئی بڑی لمبی چھلانگ ہوگی اگر ہم اپنی ایجادات کو لے کر زحل یا نیپچون یا یورینس کے چاندوں تک اگلی صدی کے اندر ہی لے جائیں؟
تاریخی اعتبار سے جس چیز کا اہم اثر پڑا یا جس نے کھوج کرنے کے راستے کا تعین کیا وہ ٹیکنالوجی ، سائنس ، تحقیق اور جغرافیائی سیاست ہے۔ ان میں سے موخّرالذکر سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ کولمبس امریکا یہ دیکھنے کے لئے نہیں آیا تھا کہ وہاں کس قسم کے پودے اگتے ہیں۔ وہ زیادہ موثر تجارتی راستے کی تلاش میں تھا، اور اس کی مالی معاونت سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط حکومت نے کی تھی۔ اپالو منصوبے نے سائنس اور ٹیکنالوجی دونوں میں انقلاب برپا کیا ، لیکن اس کی تحریک بنیادی طور پر ارضی سیاست کی تھی، قومی حمیت کے لئے ٹیکنالوجی کی دوڑ میں سوویت یونین کو ہرانا اس کا اہم مقصد تھا۔
بیرونی سیاروں کے لئے کون ارضی سیاست کا کھلاڑی ہوگا؟ ایک صدی سے چین دنیا پر اپنا زبردست اثرو رسوخ دکھا رہا ہے، لیکن یہ اگلی صدی تک کیسا ہوگا کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ یورپ اور ریاست ہائے متحدہ کی طاقت اور بہاؤ کم ہو رہا ہے، جبکہ اقوام جیسا کہ برازیل معاشی اور سیاسی طور پر طاقتور ہو رہی ہیں۔ ٹھہرا ہوا روس اپنی آپ کو دوبارہ سے ایک نئی ریاست کی شکل میں لانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے، لیکن شاید یہ کوششیں بنیادی طور پر سوویت یونین کے خلائی دور کے ماضی سے مختلف ہیں۔ آج ہندوستان بھی ایک عالمگیر کھلاڑی کی حیثیت سے موجود ہے ، اس کی خام قومی پیداوار دنیا میں گیارہویں نمبر پر سب سے بڑی ہے، اس کی آبادی دنیا کی دوسری بڑی آبادی ہے، اور اس کا ایک پرجوش خلائی پروگرام بھی ہے۔ آنے والے دور میں ہندوستان بھی ایک بڑی سیاسی قوّت ہو سکتا ہے، ہرچند کہ کچھ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ فوق براعظم کمزور معیشت اور لنگڑاتے اثر کے اشارہ دینا شروع ہو گیا ہے۔
ایک بات تو یقینی ہے۔ جب بات عالمگیر ارضی سیاست کی ہو تو کوئی بھی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ تاہم ٹیکنالوجی کی ایک الگ کہانی ہے۔ تاریخ نے سیڑھی بہ سیڑھی ٹیکنالوجی میں ترقی ہوتی ہوئے دیکھی ہے اور ہم شرط لگا سکتے ہیں کہ ہمارے باکمال انجنیئر اور موجدین شاید اگلی صدی کے اندر ہی ہمیں بیرونی نظام شمسی میں لے جانے کا جوکھم اٹھا لیں گے۔
اکیسویں صدی کے آغاز کو دماغ میں رکھتے ہوئے ہم کہ سکتے ہیں کہ آنے والی چند دہائیوں میں سائنس فکشن میں دکھائی جانے والی کافی چیزیں حقیقت کا روپ دھار چکی ہوں گی۔ پوری دنیا میں موجود تجربہ گاہیں جدید دھکیل کے میدان میں مصروف بہ تحقیق ہیں ("سریع از نور رفتار۔")، انسانی خوابیدگی ("اپنے پنجے مجھ سے دور کرو لعنتی گندے بندر!")، غذا کی پیداوار کشش اصغر میں ("آپ ان چیزوں کو میرے جنگل میں استعمال نہیں کر سکتے۔") اور لمبے سفر کے دوران انسانوں کا آپس میں باہمی میل ("ڈیو مجھے افسوس ہے؛ مجھے لگتا ہے میں نہیں کر سکوں گا۔") تحقیق کافی جدید میدانوں میں جاری ہے۔[1]
[1] ۔ حواشی اسٹار ٹریک فلم سے لئے گئے ہیں، اصل سلسلے سے۔ ١٩٩٦ء -١٩٦٩ء؛ پلانٹ آف دی آپس، ١٩٦٨ء؛ سائیلنٹ رننگ ، ١٩٧٢ء اور ٢٠٠١ء: اے اسپیس،١٩٦٨ء۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں