دھکا : بس وہاں پہنچ جائیں کسی طرح سے
دیوہیکل جہانوں کی کھوج میں جس سب سے بڑے مسئلہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ بہت سادہ یعنی کہ فاصلے کا ہے۔ ہمارا سب سے قریبی ہدف مشتری زمین سے سب سے قریب ہونے کے وقت بھی ٥٨ کروڑ ٨٠ لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہوتا ہے، لیکن ہم اس چھوٹے راستے پر براہ راست سفر نہیں کر سکتے۔ دوسرے جہاں میں سفر کرنا چوہے بلی کا کھیل ہے، زمینی جہاز ایک ایسی قوس پر سفر کرتا ہے جو نظام شمسی میں ہمارے ہدف زدہ سیارے تک کھینچی ہوئی ہوتی ہے۔ حقیقت میں خلائی جہاز کو اپنے آپ کو اس مقام پر رکھنا ہوتا ہے تاکہ وہ سیارے کو پکڑ سکے۔[1]
مزید براں کروڑوں کلومیٹر خلاء میں سے گزرنے میں وقت لگتا ہے اور انسانی عملے کے لئے وقت کا یہ دورانیہ لمبے عرصے تک انھیں تابکار اشعاع کے سامنے رکھے گا، وسیع ثقلی اصغر ماحول کا سامنا کرنا ہوگا اور وسیع تعداد میں انہوں خوراک وغیرہ کا استعمال کرنا ہوگا۔ خلائی جہاز کے آزمودہ کار ایلون ڈریو کہتے ہیں، "جتنا لمبا آپ وہاں رکیں گے اتنا ہی نقل و حمل کے مسائل کا سامنا ہوگا - آپ کو پانی کو دوبارہ قابل استعمال بنانا ہوگا، خوراک پیدا کرنی ہوگی، اپنے ماحول کو بنانا ہوگا۔" ایک حل تو یہ ہے کہ سفر کے وقت کو مزید بہتر اور طاقتور دھکیل کے نظام کو بنا کر کم کیا جائے۔
خاکہ 9.4 دو قسم کے روایتی راکٹ انجن اٹلانٹس خلائی جہاز کو زمین سے خلاء میں بھیجنے کے لئے دھکیل کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں: ٹھوس ایندھن کا افزوں گر بائیں اور تین خلائی جہاز کے اہم انجن، جن کو توانائی ایک زیادہ اثر آفریں مائع ایندھن سے حاصل ہوتی ہے جو دائیں طرف ہیں۔ وسط میں: برق پاروں کی نیلی روشنی ڈیپ اسپیس اوّل کے تجربے میں نکل رہی ہے جو شمسی توانائی سے چلنے والا برق پارے سے دھکیلنے والی مہم کا حصّہ ہے۔ دائیں : ایڈ آسٹرا کارپوریشن کا جدید واسیمر انجن جس میں دھکیل کے بہترین تیکنیک کو جمع کیا گیا ہے۔
انجنیئر، سائنس دان، تجربہ کرنے والے اور سائنس فکشن مصنفین سب ہی مختلف قسم کے دھکیل کو کھوجنے میں لگے ہوئے ہیں۔ آج کل کے زیادہ تر خلائی جہازوں میں استعمال ہونے والا شناسا کیمیائی ایندھن کے علاوہ ، نیوکلیائی دھکیل، برق پاروں سے چلنے والے انجن اور شمسی بادبان پر تجربات جاری ہیں۔ اب تک صرف دو قسم کے دھکیل کا استعمال کرتے ہوئے سیاروں پر مہمات کو بھیجا گیا ہے، ایک تو روایتی کیمیائی راکٹ انجن ہیں اور دوسرا شمسی برق یا برق پاروں سے چلنے والے انجن ہیں۔
کیمیائی راکٹ
روایتی یا کیمیائی راکٹ انجن جو خلا نوردوں کو چاند پر یا سویز اور شٹل کے مدار میں لے کر گئے ہیں ان میں ایندھن اور تکسیدی عمل الگ جگہ پر ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ جب ایندھن اور تکسیدی عامل ملتا ہے تو ایک منضبط دھماکہ پیدا ہوتا ہے جس کو راکٹ کے ایک سرے پر انجن کے ناقوس سے بھیجا جاتا ہے۔ اصل میں راکٹ کمیت کو خارج کرنے کی مخالف سمت میں حرکت کرتا ہے ۔ راکٹ کا ایندھن کافی جگہ گھیرتا ہے اور کافی وزنی ہوتا ہے۔ اخراج میں جتنا زیادہ درجہ حرارت ہوگا اتنی ہی تیزی سے خلائی گاڑی چلے گی۔ دھکیل کی وہ مقدار جو راکٹ کا انجن ایک مخصوص مقدار کی طاقت کو پیدا کرنے میں استعمال کرتا ہے اس کو مخصوص ضرب کہتے ہیں۔ ٹھوس راکٹ افزوں گر - مثلاً ایس آر بی شٹل کے مرکزی ٹینک کے اطراف میں بندھے ہوتے ہیں - کی مخصوص ضربیں جو ٢٥٠ کے قریب ہوتی ہیں ان کو سیکنڈوں میں ناپا جاتا ہے ۔ روایتی انجن میں سب سے اثر آفریں مائع ایندھن سے چلنے والے خلائی جہاز کے انجن کی زیادہ سے زیادہ مخصوص ضرب ٤٥٥ فی سیکنڈ ہیں۔ روایتی راکٹ کے ساتھ زیادہ تر ایندھن تو اڑان کے شروع میں اس کو اسراع دینے میں ہی استعمال ہو جاتا ہے کیونکہ ایندھن کا ذخیرہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔
لیکن ایک مرتبہ زمین کے کرۂ فضائی سے باہر نکل جائے تو پھر جدید گہرے خلائی کھوجی زیادہ اثر آفریں دھکیل کی صورت استعمال کرتے ہیں جو ان کو استقامت کے ساتھ لمبے فاصلوں پر بیرونی سیاروں کی کھوج کے لئے دھکیل کی قوّت فراہم کرتا ہے - یعنی برق پاروں یا برقی دھکیل۔ کیمیائی مادّوں کو گرم کرنے کے بجائے برق پارے کا انجن گیس کو گرم کرکے پلازما میں بدلتا ہے۔
برق پارے سے چلنے والے انجن
برق پارے سے چلنے والا انجن کم ایندھن کے ساتھ تیز چل سکتا ہے۔ برق پارے کے انجن کی مخصوص ضرب کافی زیادہ ہوتی ہے یعنی کہ ٣٠٠٠ فی سیکنڈ لیکن اسراع اس میں بتدریج حاصل کیا جاتا ہے۔ روایتی انجن کے برخلاف برق پارے کا انجن کافی لمبے عرصے تک چل سکتا ہے۔ مستقلاً ساکن مدار میں رہنے والے سیارچے باقاعدگی کے ساتھ برق پاروں کی دھکیل کا استعمال اپنے مدار میں ٹکے رہنے کے لئے کرتے ہیں۔۔ شہابئے- سیارچے کی طرف بھیجے جانے والے ڈیپ اسپیس اوّل خلائی جہاز نے بھی ٢ برس سے زائد کے لمبے سفر کے لئے برق پارے کا انجن استعمال کیا تھا، اور ڈان مہم میں بھی زینون گیس سے چلنے والا برق پارے کا انجن استعمال کیا گیا تھا تاکہ وہ سیارچے ویسٹا کے مدار میں پہنچ جائے۔
اس کے بعد یہ ایک اور دوسرے مدار میں سے سب سے بڑے سیارچے سیریز کے پاس جائے گا۔ ایک نقطہ پر تو ڈان نے برق پارے سے دھکیل حاصل کرنے کے لئے اپنے انجن کو ٢٧٠ دن لگاتار چلا کر رکھا۔ ڈان کے برق پارے کا انجن کھڑے جہاز کو صرف چار دن میں ٩٦ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اسراع دے سکتا ہے۔ اس کا مقابلہ اگر ہم روایتی راکٹ سے کریں تو وہ ٢٧٣٦٠ کلومیٹر کی رفتار صرف دس منٹ میں حاصل کر لیتا ہے۔
برق پارے کا انجن دھکیل کو اسراع دینے کے لئے برق کا استعمال انجن کے پیچھے سے کرتا ہے۔ شمسی برقی دھکیل مقناطیسیت اور بجلی کا فائدہ اٹھا کر خلاء میں آگے بڑھاتی ہے۔ جہاز کے شمسی توانائی پیدا کرنے والے آلات بجلی بناتے ہیں اور مثبت برقی بار کو خانے کے اندر موجود جوہروں میں بھیجتے ہیں۔ مقناطیسی میدان جوہروں کو دوبارہ جہاز کے پیچھے کی طرف کھینچتے ہیں، جہاں پر ان کو ایک مخالف مقناطیسی میدان کا استعمال کرتے ہوئے جہاز سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔ یہ مستقل مزاجی سے برق پاروں کا خلائی جہاز سے نکلتا ہوا دباؤ دھکیل کی قوّت پیدا کرتا ہے۔ برقی دھکیل عام طور پر کیمیائی راکٹ کے مقابلے میں دھکے کی طاقت کم استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان کی اخراج کی رفتار زیادہ ہوتی ہے۔ دھکیل کیمیائی دھکے کے مقابلے میں کافی کمزور ہوتی ہے تاہم انجن چند منٹوں کے بجائے کافی مہینوں تک چلتا رہتا ہے۔
[1] ۔ ایک بڑے جہاز کے ساتھ براہ راست اڑان فرض کرتے ہوئے، سیاروی سفر میں ثقلی غلیل کے اثر کے استعمال کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے تاکہ اتنی سمتی رفتار حاصل ہو جائے جو بیرونی نظام تک لے جانے کے قابل ہو۔ مشتری جانے والے گلیلیو نے کافی مرتبہ ثقلی مدد حاصل کی تھی اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اس نے تین ارب ٨٦ کروڑ کلومیٹر کا سفر کیا تھا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں