حرارتی نیوکلیائی راکٹ
نیوکلیائی حرارت سے چلنے والا راکٹ نیوکلیائی انشقاق (اور بالآخر گداخت)سے پیدا ہوئی حرارت استعمال کرتا ہے تاکہ اسراع حاصل کرکے دھکیل پیدا کر سکے۔ شمسی توانائی کے حامل برق پاروں کے انجن یا پلازما انجن ( جیسا کہ ڈان خلائی جہاز میں استعمال ہوا تھا)کے برخلاف نیوکلیائی انجن بحیثیت مجموعی وہی کام سرانجام دیتے ہیں جو کیمیائی راکٹ دیتا ہے لیکن وہ اس کام کے لئے صرف آدھا ایندھن ہی خرچ کرتے ہیں۔
نیوکلیائی دھکیل میں کئے گئے ابتدائی یو ایس کے تجربات کا نتیجہ نروا (Nuclear Engine for Rocket Vehicle Application) کی صورت میں نکلا تھا، ایک نیوکلیائی حرارتی راکٹ انجن پروگرام جو بتدریج دو عشروں تک آگے بڑھتا گیا۔ اس کا مقصد خلائی کھوج کے لئے ایک قابل اعتماد انجن کا حصول تھا اور ١٩٦٨ء کے اختتام پر انجینیروں نے تصدیق کردی تھی کہ تازہ ٹرین نروا انجن جس کا نام این آر ایکس/ایکس ای تھا وہ مریخ پر انسان بردار جہاز کی تمام تر احتیاجات کو پورا کرتا تھا۔ نروا انجن کو بنایا اور جانچا بذریعہ سند یافتہ ہوائی اجزاء سے تھا۔
جیسے ہی انجن کو اصل خلائی جہاز میں لگانے کا اعلان ہوا ویسے ہی نکسن انتظامیہ نے یو ایس خلائی منصوبے کا کافی حصّہ منسوخ کر دیا بشمول مریخ پر انسان بردار مہم بھیجنے کے۔ نروا ایل ناقابل تصوّر کامیاب منصوبہ تھا۔ آج کے زیادہ تر وہ ڈیزائن جو نیوکلیائی حرارتی راکٹ میں استعمال ہوتے ہیں وہ نروا کی ٹیکنالوجی کا ہی استعمال کرتے ہیں۔
نیوکلیائی دھکیل کا ایک نیا جدید نسخہ نیوکلیائی انجمادی دھکیلی مرحلہ (Nuclear Cryogenic Propulsion Stage) یا NCPS کہلاتا ہے۔ نروا کے انجن کے ڈیزائن کے وقت سے لے کر اب تک کیونکہ نئے ہلکے مادّے دستیاب ہو گئے ہیں جو زیادہ درجہ حرارت اور دباؤ کو برداشت کر سکتے ہیں۔ فی الوقت انجن بنانے کا منصوبہ ایندھن کے ساتھ ٤٠ ٹن کا ہے۔ حفاظت کی خاطر خلائی جہاز کو ری ایکٹر کے خطرناک ہونے سے پہلے ہی نکالا جا سکتا ہے۔خلاء میں چھوڑے جانے کے وقت اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ ہوتا ہے تو تابکار مادّہ صرف ١٠٠-١٥٠ کلوگرام یورینیم کا ایندھن ہوگا۔ اگر ایک بالائی سطح پر اس کا استعمال کیا جائے گا تو این سی پی ایس کو اس وقت ہی چلایا جائے گا جب خلائی جہاز خلاء میں کامیابی کے ساتھ پہنچ جائے گا۔ خلائے بسیط میں کھوجی بھیجے جانے کی صورت میں این سی پی ایس کو اس وقت تک نہیں چلایا جائے گا جب تک خلائی جہاز مدار کو چھوڑ نہیں دیتا۔
اگلا قدم دھکیل کے میدان میں صاف گداختی نیوکلیائی انجن ہے۔ ناسا نے کافی ابتدائی نوعیت کے گداختی منصوبوں کی مالی معاونت کی ہے۔ کچھ تخمینہ جات کے مطابق مریخ تک خلا نوردوں کو پہنچنے میں ٣٠ دن لگیں گے۔ زحل تک جانے کا وقت کم ہو کر کئی مہینوں تک کا رہ جائے گا۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ زمین پر عملی گداختی ری ایکٹر ابھی تک نہیں بنے ہیں۔ عشروں کی تحقیق کے باوجود ابھی تک کے بننے والے نیوکلیائی گداختی ری ایکٹر اتنی ہی توانائی چلنے کے لئے لیتے ہیں جتنی وہ پیدا کرتے ہیں ۔ لیکن کافی دھکیل کے ماہرین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں گداختی انجن ایک حقیقت ہوں گے اور وہ وقت مستقبل میں جلد ہی آئے گا۔
شمسی بادبان
شمسی بادبانوں کو ہوا کے بغیر خلاء کے ماحول میں روایتی طریقے سے بھیجنے کے بعد چلایا جا سکتا ہے یہ مکمل طور پر جامد ہوتے ہیں اور سورج کی روشنی کے دباؤ سے بعینہ ایسے چلتے ہیں جیسا کہ کشتی ہوا کے ذریعہ سمندر میں چلتی ہے۔ جاپان کی خلائی ایجنسی جیکسا نے ٢٠١٠ء میں دنیا کی پہلا بین السیاروی شمسی بادبانی مہم کا آغاز اکاروس کو خلاء میں چھوڑ کر کیا ۔ ١٤ میٹر چوڑی پتنگ جیسی شکل کے بادبان میں شمسی خانے بادبانی مادّے میں ہی لگے ہوئے ہیں تاکہ بجلی کو پیدا کر سکیں۔ مائع قلمی پینل کا استعمال کرتے ہوئے وہ سطح کی انعکاسیت کو تبدیل کرتے ہوئے وہ اپنی سمت کو بدل سکتا ہے۔ ایل سی ڈی پینل میں سے برقی رو گزرتے ہوئے انعکاسیت کو بڑھا کر اکاروس کو آگے بڑھایا جاتا ہے جبکہ رو کو موڑ کر سورج کی روشنی کا دباؤ کم کیا جا سکتا ہے۔ جیکسا نے ٥٠ میٹر شمسی بادبان کو برق پارے کے انجن کے ساتھ بیرونی نظام شمسی میں بھیجنے کا منصوبہ بھی بنایا ہوا ہے۔ یہ جدید دوغلی نسل کا بادبان مشتری اور کچھ گھات لگائے قریبی سیارچوں سے جلد ہی ملاقات کرے گا۔[1]
دوسرے شمسی بادبانوں کے منصوبے جاری ہیں۔ سیاروی سوسائٹی کا روشن بادبان – الف ایسا خلائی جہاز ہے جو بادبان کو چھوڑنے اور بذات خود خلائی جہاز کی انجینئرنگ کے لئے ہلا کر رکھ دینے والا ہوگا۔ روشن بادبان – ب منضبط شمسی بادبانی کا مظاہرہ کرے گا۔ ایک ایکڑ کے ایک تہائی رقبے پر پھیلا ہوا شمسی بادبان نومبر ٢٠١٤ء میں اسپیس ایکس فالکن ٩ افزوں گر کے ساتھ چھوڑا جائے گا۔
ایک اور فالکن ٩ سن جیمر کو چھوڑے گا جو ایک بڑا بادبان ہے جس کو ایک ذیلی پخ کی طرح قومی سمندری اور ماحولیاتی انتظامیہ کے گہرے خلائی ماحولیاتی رصدگاہ کے ساتھ ایک ثقلی طور پر پائیدار محل و وقوع میں چھوڑے گا جس کو سورج –زمین لگرینج پائنٹ ١ کہتے ہیں جو ہمارے سیارے سے ١٥ لاکھ کلومیٹر دور ہے۔ اب تک کا بھیجا جانے والی سب سے بڑا اور سب سے ہلکا بادبان ہوگا۔ سن جیمر کو اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ وہ سیارچوں کو شمسی طوفان کی پہلے سے خبر دے دے تاکہ نظام محفوظ طرح سے زمین کے نچلے مدار سے گرد کو صاف کر دیں۔ ناسا بنیادی ٹھیکیدار ایل گارڈے انکارپوریشن آف ٹسٹن ، کیلی فورنیا کے انجنیئروں کے ساتھ مل کر سن جیمر کو بنانے میں مدد دے رہی ہے۔
خاکہ 9.5اکاروس شمسی بادبان جاپان کی جیکسا خلائی ایجنسی نے زہرہ سے صرف ٨٠ ہزار کلومیٹر کی دوری پر ٢٠١٠ء میں چھوڑا۔
١٩٧٠ء کے عشرے میں طبیعیات دان رابرٹ فارورڈ نے ایک مختلف قسم کے روشنی کے بادبان کی تفصیلات بنائیں جس کو فوق لیزر کے ذریعہ دھکیلا جا سکتا تھا۔ لیزر سے چلنے والا شمسی بادبان تیز سمتی رفتار شمسی دباؤ سے چلنے والے بادبان کے مقابلے میں کم وقت میں حاصل کر سکتا تھا۔ فارورڈ کے مطابق طاقتور گیگا واٹ توانائی کی حامل لیزر توانائی کو بادبان پر مرتکز کرکے خلاء میں بین السیاروی بلکہ بین النجمی سفر پر بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ جب کھوجی اپنی منزل پر پہنچے گا تو بیرونی حصّہ مرکزی حصّے سے الگ کر دیا جائے گا، بیرونی بادبان زمین پر موجود لیزر کو اندرونی بادبان پر مرتکز کرے گا تاکہ وہ اپنی رفتار کو کم کرکے اپنے پسند کے سیارے کو پکڑ سکے۔ روایتی بریک کا نظام بھی مدار میں داخل ہونے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ایک اور طریقہ ایسے تاروں کے گچھے ہیں جن میں اتنی ہی جگہ ہونی چاہئے جتنی کہ میزر کی خرد امواج میں ہوتی ہے تاکہ اس سے بنے شمسی بادبان کو افزوں کرنے کا میزر کا استعمال ہو سکتا ہے۔ خرد امواج کو بصری روشنی کے مقابلے میں آسانی سے قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ اپنی لمبے طول موج کی وجہ سے میزر بصری روشنی کے مقابلے میں تیزی سے پھیلتی ہے لہٰذا اس کی لمبی اثر دار پہنچ نہیں ہوتی۔ میزر کو رنگی ہوئی شمسی بادبان کو توانائی پہنچانے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
فارورڈ کے تصوراتی خلائی بادبان کو ایک ایسی کیمیائی پرت سے لیپا جا سکتا ہے جو اس وقت طیران پذیر ہو جائے گی جب اس پر میزر کی اشعاع پڑے گی۔ یہ تبخیر کا عمل خود سے دھکیل کو پیدا کرے گا۔
[1]۔ گھات لگائے ہوئے سیارچے مشتری کے پیچھے یا سامنے لیکن سورج کے گرد اس کے مدار کے اندر ہی چکر لگاتے ہیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں