لمبے عرصے تک سفر کے لئے اڑان بھرنے والوں کے لئے خلائی سفر میں سب سے زیادہ مسئلہ ثقل اصغر کے ماحول کا ہے۔ جیسے ہی انسانی جسم ثقلی دباؤ سے دور جاتا ہے ہڈیوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ چاہے جتنی بھی کیلشیم خلا نوردوں کی خوراک میں شامل کر دیں، ہڈیاں خلاء کی کٹھور ثقل اصغر کی وجہ سے مسلسل گھلتی رہتی ہیں ۔ مزید براں آدھے سے زیادہ خلا نورد خلائی مطابقت کی علامت سے گزرتے ہیں، ایک ایسی صورتحال جس میں زبردست متلی اور ماحول ناشناسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مکانی سمت میں کام کرنے کے لئے قوّت ثقل ایک جزو لازم حصّہ ہے۔ دماغ اس وقت پریشان ہو جاتا ہے جب اس کو نیچے کا احساس نہیں ہوتا۔ زیادہ تر خلا نورد وقت کے ساتھ اس بیماری پر قابو پا لیتے ہیں اور کچھ دوائیں متلی کو کم کرنے کے لئے لیتے ہیں۔
بہرحال لمبے عرصے تک بے وزنی کی حالت کی وجہ سے جسم پر اثرات بیرونی سیاروں پر سفر کرنے کے دوران اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہوں گے۔ ڈھانچے کی کمزوری کے ساتھ کچھ اندرونی شمسی نظام میں خلائی مسافروں کے لئے دیکھنے میں تکلیف ہوگی۔ قلب و عروقی نظام کمزور ہوگا اور پٹھے لاغر ہو جائیں گے۔ مدار میں موجود خلا نورد روزانہ گھنٹوں بجائے مہم سے متعلق کام پر توجہ دینے کے ان اثرات سے نمٹنے کے لئے مشق کرتے ہیں۔ مصنوعی قوّت ثقل شاید ان تمام مسائل کو حل کر سکتی ہو۔
١٩٥٠ء کے عشرے کی سائنسی فلموں میں ڈونَٹ کی شکل کے مداری چوکیاں اور پہیے جیسے خلائی اسٹیشن کافی مروج تھے۔ فلموں میں عظیم الجثہ چھلے زمین کے مدار میں شاہانہ انداز میں گھومتے ہوئے دکھائی دیتے تھے جبکہ ان پر رہائشی لوگ کافی پی رہے ہوتے تھے اور بین الاقوامی لاؤنج میں اجتماع لگائے ہوتے تھے جہاں پر حلیم خم دار فرش اور چھت موجود ہوتی تھی۔
ان تمام ڈیزائنوں میں یہ دکھایا جاتا تھا کہ گھومتا ہوا اندرونی حصّہ اجسام کو ڈونَٹ کے باہر پکڑ کر رکھتا تھا، جو اصل میں رہائشیوں کے لئے فرش بن جاتا تھا۔ ایک گھومتا ہوا خلائی جہاز مرکز گریز قوّت کا استعمال کرتے ہوئے قوّت ثقل کو پیدا کر سکتا ہے۔ گھومتے ہوئے مرکز سے اجسام دور جاتے ہیں۔
اس طریقہ میں مسائل موجود ہیں۔ انجینئرنگ کے نقطہ نظر سے ایک گھومتی ہوئی ساخت مہم کو ڈیزائن کرنے میں کافی پیچیدگیاں پیدا کر دے گی۔ پہیے نما خلائی جہاز کو اس قابل ہونا ہوگا کہ وہ گھومتی ہوئی طاقت کو سنبھال سکے، اور گھومنے کے دوران اپنی پرواز اور عملے کو سنبھال سکے اور اس وقت بھی جب وہ اپنی منزل پر پہنچ کر ساکن ہو جائے۔ اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ صرف خلائی جہاز کا ایک حصّہ گھومے، جبکہ دوسرے حصّے ساکن رہیں۔ یہ طریقہ کامیابی کے ساتھ گلیلو خلائی جہاز کو مشتری پر بھیجتے ہوئے آزمایا گیا ہے (ملاحظہ کیجئے تیسرا باب)، لیکن تجرباتی مہم کو ایک بڑے پیمانے پر کرنے سے موڑ کے وقت پیدا ہونے والی صورتحال اور بین ہئیتی مسئلہ بن سکتے ہیں۔
٢٠١١ء میں ناسا کی ٹیکنالوجی ایپلیکیشن اسس منٹ ٹیم نے ایک تصوّر پیش کیا جو کثیر انسانی بردار خلائی جہاز مہم کہلایا۔ اس میں خلائی جہاز جس کا نام نوٹیلس - ایکس تھا، اس کا مقصد ایک ایسی جگہ پیش کرنی تھی جو چھ اشخاص پر مشتمل عملے کو لمبے عرصے کے خلائی سفر میں خلائی بسیط میں لے جا سکے۔
نوٹیلس – ایکس میں ایک ڈونَٹ کی شکل کا مرکز گریز علاقہ ہے جہاں پر عملے کے رہنے کی جگہ میں مصنوعی قوت ثقل باقی مانندہ جہاز کے آپریشن کو چھوڑ کر مہیا کی گئی ہوگی۔ ایک اور دوسرا طریقہ مصنوعی قوّت ثقل کو مہیا کرنے کا یہ ہے کہ خلائی جہاز کو رسی کے آخر میں گھمایا جائے۔ یہ طریقہ پہلے جیمنی ١١ مہم میں ستمبر ١٩٦٦ء میں استعمال کیا گیا تھا ۔ اجینا سے اوپر فضا میں ملنے کے بعد، خلا نورد ڈک گورڈن نے خلائی جہاز کو چھوڑ کر دونوں گاڑیوں کو جوڑا اور ایک رسی سے باندھ دیا ۔ اس کے بعد خلائی جہاز کو الگ کر دیا گیا اور جیمنی ١١ ٣٦ میٹر اس رسی کے آخر میں چلا گیا جس نے خلائی جہاز کو بندھا ہوا تھا۔ خلائی گاڑی کے امیر پیٹ کونارڈ نے جیمنی کیپسول کو ہلکے سے دونوں گاڑیوں کے مرکزی نقطے سے گھمانا شروع کیا ، اور کوشش کی کہ رسی تنی رہے اور خلائی جہاز ایک مستقل فاصلے پر موجود رہے۔ شروع میں جھٹکے تو لگے تاہم ٢٠ منٹ بعد وہ کمزور پڑ گئے۔ رسی کے آخر میں ہونے والی دائروی حرکت نے تھوڑی سی مصنوعی قوّت ثقل کے اسراع کو جیمنی ١١ کے اندر ظاہر کرنا شروع کیا، پہلی مرتبہ ایسی مصنوعی قوّت ثقل کا مظاہرہ خلاء میں کیا گیا تھا۔ ٣ گھنٹوں کے بعد رسی کو چھوڑ دیا گیا، اور خلائی جہاز مزید آگے چلا گیا۔ ہرچند کہ عملے نے قوّت ثقل کی طاقت نہایت خفیف محسوس کی تھی (لگ بھگ 0.00015g)، لیکن انہوں نے اجسام کو کیپسول کے فرش کی طرف حرکت کرتا ہوا دیکھا تھا۔ مزید دوسری رسی والی مہمات کو بھی جانچا گیا۔ مثال کے طور پر سیڈی اوّل (Small Expendable Deployer System) خلائی جہاز میں ایک ٢٠ کلومیٹر لمبی رسی کو اسپینٹ ڈیلٹا دوم کے اوپری حصّے سے متوازن کیا گیا تھا۔ خلائی شٹل کولمبیا میں ٹی ایس ایس ١ آر کو جہاز کے سامان رکھنے کی جگہ سے چھوڑا گیا جس نے ١٩ کلومیٹر کی رسی کو شارٹ سرکٹ سے تار کو نقصان پہنچنے سے پہلے گھمایا ۔ دونوں مہمات نے مستقبل میں رسی کے استعمال کے بارے میں قابل قدر معرفت دی۔
مصنوعی قوّت ثقل کے لئے رسی والی تیکنیک انسان بردار خلائی کھوج بشمول رابرٹ زبرین کے مارس ڈائریکٹ کے لئے ایک اہم جزو ہے۔ اس مہم میں زمین اور مریخ کے سفر کے لئے بنیادی ڈھانچے کو بنانے کے لئے ایک کم خرچ بتدریج طریقہ پیش کیا گیا ہے۔ مریخ کی طرف جانے والے خلائی جہاز اپنے آپ کو اوپری سطح سے رسی کے ذریعہ جوڑیں گے اور اس کو عبور کرنے کے عرصے میں مصنوعی قوّت ثقل کے لئے بطور متوازن استعمال کریں گے۔
جہاز کو گھماتے ہوئے قوّت ثقل کو پیدا کرنے میں کافی مسائل ہیں۔ ایک مسئلہ کوریو لس اثر ہے۔ اس اثر میں کسی متحرک چیز کے رخ میں انحراف سے مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ گھومتے ہوئے ماحول میں بظاہر طاقت زاویہ قائمہ پرمحور کے اصل گھماؤ پر اثر انداز ہوتی ہے اور اجسام کی حرکت کو گھماؤ کے مخالف میں حرکت دیتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک رہائش والی جگہ پر خلا نورد محوری گردش سے دور جا رہا ہوگا، وہ اس احساس کو محسوس کرے گا کہ خلا نورد کو گماؤ کی سمت کے مخالف بھیجا جا رہا ہے۔ یہ احساس اندرونی کان کے کام کرنے کے انداز کو متاثر کرے گا اور سمت کے تعین میں مسئلہ ہوگا اور متلی اور چکر آنے شروع ہو جائیں گے۔ لمبے عرصے کے گھماؤ (لمبی محوری گھماؤ) اس اثر کو کم کریں گے۔
خاکہ 9.6 نوٹیلس – ایکس ، ایک پیش کردہ بین السیاروی خلائی جہاز جو مخروطی گھومتا ہوا حصّہ استعمال کرکے عملے کو قوّت ثقل مہیا کر ے گا۔
حالیہ دور میں ہونے والی کافی انجینئرنگ تحقیقات نے دوسرے خیالات کا بھی جائزہ لیا ہے، یعنی محوری گردش کا استعمال کرنا جو بہت چھوٹے ہوں۔ خیال ہے کہ چھوٹے نصف قطر کی مرکز گریز قوّت کو محدود وقت کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے شاید مشق کرنے کے دوران میں۔ یہ چھوٹی مرکز گریز عملے کے ارکان کو لے کر بہت تیزی سے دو سیکنڈ میں ایک مرتبہ گھوم سکتی ہیں جس سے زمین کے برابر قوّت ثقل پیدا ہوگی۔ انجینئرنگ کی اس تحقیق کو نیشنل اسپیس بائیو میڈیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ ، ہیوسٹن، ٹیکساس سے بھی مدد ملتی ہے جو اس بات کو جاننے کے لئے کوشاں ہیں کہ آیا چھوٹے نصف قطر کی مرکز گریز قوّت کی مدد سے کی جانے والی مشق وہ اثرات پیدا کر سکتی ہے جو ہڈیوں، پٹھوں اور ہمارے جسم میں موجود مائع کے لئے ثقل اصغر کے اثرات سے لڑنے کے لئے ضروری ہیں۔
خاکہ 9.7 دائیں: اجینا اوپری حصّہ رسی کے آخر میں تیر رہا ہے، جیمنی ١١ کی کھڑکی سے نظر آنے والا منظر۔ یہ پہلا تجربہ تھا جس میں رسی کو انسان بردار جہاز میں مصنوعی قوّت ثقل پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا تھا۔ بائیں: رابرٹ زبرین کے مارس ڈائریکٹ جیسی مہمات میں رسی کو مریخ پر جانے اور وہاں سے آنے کے لمبے سفر کے لئے قوّت ثقل کی نقل کرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔
خاکہ 9.8 تھوڑی سی قوّت ثقل کیا تبدیلی لاتی ہے! نمک اور کالی مرچ زمینی طریقے سے (پیچھے) نمک دانی سے نکالی جا سکتی ہے۔ آئی ایس ایس پر موجود مدار میں خلا نوردوں کو اپنی نمک اور کالی مرچ کو تیل میں بند رکھنا ہوتا ہے (پیش منظر)۔
مصنوعی قوّت ثقل کے لئے سب سے قدرتی چیز اسراع ہے۔ ناسا کے ایلون ڈریو کہتے ہیں:
مستقل اسراع آپ کو تھوڑی سی قوّت ثقل مہیا کرتی ہے۔ یہ زبردست طریقے سے مددگار ثابت ہوتی ہے۔ ذرا ایک انڈے کے خاگینہ کا ثقل اصغر میں بنانے کا تصوّر کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری تمام خوراک زمین پر ہی بنا لی جاتی ہے اور مدار میں ہم صرف اس کو گرم کرکے کھاتے ہیں۔ ایک مرتبہ میں یہاں آ جاؤں تو پھر میں سینکی ہوئی چیز، انڈے یا پیاز کو اتوار کی تعطیل کی طرح ناشتے میں نہیں کھا سکتا ، لہٰذا اس کو پہلے سے ہی تیار کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت کیا ہوگا کہ اگر میرے پاس ایک جی کا دسواں حصّہ بھی خلائی جہاز میں موجود ہو؟ اب پانی برتن میں ہی رہے گا لہٰذا غسل خانہ یا بیت الخلاء ایسے ہی کام کرے گا جیسا کہ زمین پر کرتا ہے۔ کھانا بنانا تھوڑا مشکل ہوگا کیونکہ تیل کم قوّت ثقل میں چھینٹے اڑائے گا لہٰذا آپ کو فرائی پین سے گرنے والے تیل کو پورے باورچی خانے سے صاف کرنا ہوگا۔ ان تمام باتوں کے باوجود تھوڑی قوّت ثقل بھی کافی مدد گار ثابت ہوگی۔
کچھ پروازی انجینیروں کے مطابق جدید دھکیلو نظام کی مستقل دھکیل اس بے وزنی کی کیفیت کا آخری حل ہوگی۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں