دو قسم کی تابکاری بیرونی نظام شمسی جاتے ہوئے کھوجیوں پر حملہ کرے گی۔ پہلی تو قریب میں موجود سورج کی ہے۔ ہمارا قریبی ستارہ بلند توانائی والے ذرّات کے ریلے بالخصوص شمسی طوفان کے دوران بھیجتا ہے جس کو شمسی ذرّات کے وقوع کہتے ہیں۔ ان واقعات کے دوران ریڈیائی اور ٹیلی ویژن کی ترسیل میں خلل آ سکتا ہے اور یہاں تک کہ سیارچوں کو ناکارہ بھی کر سکتا ہے، تاہم ان میں یہ قابلیت بھی ہوتی ہے کہ زمین کی حفاظتی مقناطیسی میدان سے باہر موجود خلا نوردوں کی طرف مہلک اشعاع کو پھینک سکے۔
ایک دوسری قسم کی تابکاری نظام شمسی سے دور خلائے بسیط سے آتی ہے۔ یہ کائناتی اشعاع ہیں اور ان کے مخصوص منبع کا معلوم نہیں لیکن ان میں سے اکثر سپرنووا یا کہکشانی مرکز سے نکلتی ہیں۔ کائناتی اشعاع لمبے عرصے میں صحت پر زبردست منفی اثرات ڈال سکتی ہیں جس میں کینسر، معدے کی بیماریاں، ڈی این اے کا نقصان اور مرکزی حساسی نظام، موتیا اور دوسری بیماریاں شامل ہیں۔
خوش قسمتی سے عملے کو شمسی تابکاری سے تو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ ہرچند کہ بھاری کچھ قسم کی دھاتیں شمسی طوفانوں سے تو بچا سکتی ہیں۔ کچھ فٹ پانی اور خالص ہائیڈروجن ایک اثر انگیز ڈھال کا کام کرکے کچھ خطرناک قسم کے شمسی طوفانوں سے بھی محفوظ رکھ سکتی ہے۔ خلائی جہازوں کو طوفانی پناہ گاہوں کے ساتھ بنایا جا سکتا ہے، چھوٹے خانے جہاں عملہ اس قسم کے واقعات کے دوران پناہ لے سکتا ہے۔ ان پناہ گاہوں کے اطراف میں جہاز کا ایندھن ہوگا بالخصوص ہائیڈروجن، یا اس کی دیوار میں عملے کے زیر استعمال پانی کو بھر دیا جائے گا۔ جب پانی عملے کے استعمال میں آ جائے گا تو دوسری دیوار استعمال شدہ پانی سے بھر دی جائی گی تاکہ حفاظتی اثر قائم رہے۔ کائناتی تابکاری ایک دوسرا مسئلہ ہے۔ اس کے کثیف ذرّات الیکٹران کے بغیر آسانی کے ساتھ ٹھوس دھاتوں بلکہ یہاں تک کہ سیاروں کے قلب میں سے بھی گزر جاتے ہیں۔ زمین کی حیاتیاتی برادری سیارے کی مقناطیسی کرۂ کی بدولت محفوظ ہے، جو ایک حفاظتی بلبلے کی طرح کرہ کے گرد موجود رہ کر شمسی اشعاع کو سطح سے دور رکھتا ہے۔ یہی حفاظتی ڈھال ہمیں کائناتی تابکاری سے بھی بچاتی ہیں۔
١٩٦٠ءکی دہائی سے انجنیئر غور و فکر میں مصروف ہیں کہ آیا اس طرح کا کوئی حل خلائی جہاز کے لئے نکل سکتا ہے۔ کیا عملے کو ایک خلائی جہاز کے گرد ایک مصنوعی مقناطیسی کرہ کی مدد سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟ ایک حالیہ تحقیق برطانیہ، پرتگال اور سویڈن کے طبیعیات دانوں نے کی ہے جس میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ ٹیکنالوجی کے ذریعہ کافی سستے میں خلائے بسیط میں موجود خلائی جہاز کے گرد حفاظتی ڈھال بنا کر حفاظت کی جا سکتی ہے۔ ایک برقی مقناطیسی کھوجی کو بطور خلائی جہاز کے استعمال کرنے کے بعد ٹیم کو معلوم ہوا کہ ان کا مقناطیسی خلائی جہاز پلازما کو موڑ دیتا ہے اور اپنے ارد گرد جگہ کو صاف رکھتا ہے۔ ان کے اندازے کے مطابق خلائی جہاز کو ایک ایسے نظام کا استعمال کرکے ١٠٠-٢٠٠ میٹر کے بلبلے کے اندر محفوظ رکھا جا سکتا ہے جس کو آسانی کے ساتھ خلاء میں لے جایا جا سکتا ہے۔ ایک اور دوسری حالیہ تحقیق ایس آر 2 ایس سرن میں کی جا رہی ہے جہاں اس کے ساتھ دوسرے فرانسیسی ، اطالوی اور بین الاقوامی یورپی اتحادی بھی شامل ہیں۔ ایس آر 2 ایس میں امید ہے کہ کافی مختلف اقسام کی ٹیکنالوجیوں کو بنا لیا جائے گا جو عملے کو تابکاری سے محفوظ رکھیں گی۔ ان کا مقصد ایک ایسی حفاظتی مقناطیسی میدان کو اپنے خلائی جہاز کے گرد فوق موصل مقناطیسوں کا استعمال کرکے بنانا ہے ۔
جانسن اسپیس سینٹر میں محققین اونچے درجہ پر فوق موصل ساختوں پر کام کر رہے ہیں تاکہ حفاظتی میدان کو پیدا کیا جا سکے۔ ان کی تحقیق بتاتی ہے، "عمل اور جامد نظام کے امتزاج سے تابکاری سے بچاؤ کی ڈھال اس مسئلے کو سب سے امید افزا حل دیتی ہے۔" جے ایس سی کے انجنیئر ایک بڑا، نہایت ہلکا ، پھیلنے کے قابل گچھے کو "لمبے عرصے تک جاری رہنے والی مہمات میں خلائی جہاز میں رہنے والے انسانوں کے لئے اشعاعی تابکاری کو قابل قبول سطح تک لانے کے لئے " دیکھ رہے ہیں۔
فرینکلن چانگ ڈیاز کا واسیمر انجن اپنا مقناطیسی میدان پیدا کرتا ہے۔ اس میدان کو عملے کی حفاظت کے لئے بھی ڈھالا جا سکتا ہے، وہ کہتے ہیں۔" یہ انجن کی بناوٹ کی کافی دلچسپ ضمنی پیداوار ہے۔ آپ کے پاس کافی مضبوط مقناطیسی میدان ہوگا۔ جی ہاں، آپ ایک مقناطیسی ڈھال کو اپنے خلائی جہاز کے گرد بنانے کو سوچ سکتے ہیں جو عملے کے اراکین کو کچھ اشعاع سے تو بچا لے گا۔
واسیمر کی ٹیکنالوجی جو مقناطیسی میدان کو پیدا کرتی ہے وہ فوق موصلیت ہے یعنی وہ ٹیکنالوجی جو مقناطیس کو مکمل موصل بنا دیتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ان میں سے ایک ہے جس پر کیا جانے والا کام ابھی اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے۔ "کچھ نہایت دلچسپ فوق موصل اب بھی موجود ہیں جو بہت برقی رو کو بہت ہی بلند سطح تک لے جا سکتے ہیں جس سے مضبوط مقناطیسی میدان بنتے ہیں۔ یہ موصل کافی ہلکے ہیں۔ یہ اس درجے حرارت پر کام کرتے ہیں جو ابتدائی فوق موصل سے کہیں زیادہ اوپر ہے، ابتدائی فوق موصل کو مطلق سفر تک ٹھنڈا رکھنا ہوتا تھا۔ آپ کو اب اس چیز کی مزید ضرورت نہیں ہے۔"
ہمارے سیارہ کھوجیوں کو ایک اور قسم کی تابکاری کا سامنا کرنا ہوگا جب وہ اپنی منزل پر پہنچیں گے یعنی وہ توانائی جو سیارے کے اپنے قلب سے آ رہی ہوگی۔ بجز مشتری کے گیسی اور برفیلے دیوہیکل سیاروں کے مقناطیسی کرۂ کافی شفیق ہیں۔ تمام صورتوں میں ان توانا میدانوں کو آسانی کے ساتھ سیارے سے فاصلہ رکھ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ گلیلائی سیارچوں کی صورت میں دو اہم ہدف یوروپا اور آئی او مشتری کے گہرے شعاعی علاقے میں موجود ہیں۔ زائرین شاید وہاں کچھ ایسے علاقے ڈھونڈ لیں جہاں انہوں پناہ مل سکتی ہو (دسواں باب ملاحظہ کیجئے)، لیکن زیادہ تر تحقیق دور دراز سے بیٹھ کر چلانے والی روبوٹوں کے ذریعہ کی جا سکے گی جن کو گینی میڈ یا کیلسٹو پر بنے کیمپ سے قابو کیا جائے گا۔
مستقبل کے خلا نورد تابکاری سے بچاؤ کے لئے شاید دھاتی یا برقی مقناطیسی ٹول باکس کا نہیں بلکہ نسخے کا استعمال کریں گے۔ دوا شاید اس کا حل ہوا۔ تابکاری سے ہونے والی تباہی پیمانے کی وجہ سے غیر محسوس ہوتی ہے۔ وہ ہمارے خلیہ کے اندر جینیاتی مادّوں کو تباہ کر دیتی ہے اور ہمارے دماغی خلیوں کو بھی تباہ کر دیتی ہے۔ ادویہ کی ایک قسم جو ریڈیائی محافظ کے نام سے جانی جاتی ہے کا استعمال کافی کامیابی کے ساتھ ان مریضوں پر کیا گیا ہے جنہوں نے تابکار ماحول کا سامنا کیا تھا اور دوسری ادویہ نے تو وقت سے پہلے ہی کافی امید دلا دی ہے۔ جینس ٹین ایک مانع تکسید کی ایک قسم ہے۔ نہ صرف یہ زہر سے پاک ہے بلکہ یہ قدرتی طور پر کچھ غذاؤں میں بھی پائی جاتی ہے اور اس کا بندوبست لمبے عرصے کے لئے بغیر کسی ذیلی اثرات کے کیا جا سکتا ہے۔
تالیفی نباتیاتی مرکب کو کائی کے پودے سے حاصل کیا جاتا ہے جس میں زبردست مانع تکسیدی اثرات ہوتے ہیں۔ حالیہ تجرباتی تجزیوں [1]سے معلوم ہوا ہے کہ دوا نے اس چوہے کی حفاظت کی جس کو تابکاری کا سامنا کرنے سے پہلے دوا دی گئی تھی۔ فلگراسٹم کو ان مریضوں پر استعمال کیا جاتا ہے جنہوں نے بھاری تابکاری کا سامنا کیا ہوتا ہے اور جن کے خون کے سفید خلیہ پست ہو جاتے ہیں۔ اس کو ابھی تابکاری کے علاج کے لئے بطور خاص منظوری نہیں ملی ہے تاہم تحقیق جاری ہے۔ ایک اور دوا امیفوسٹین کو کینسر کے مریضوں میں تابکاری کے اثرات کو کم کرنے کافی زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ لمبے عرصے کی خلائی پروازوں میں اس کو ناسا نے اپنی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔
[1]۔ڈلاس میں واقع ٹیکساس یونیورسٹی کے ساؤتھ ویسٹرن ،میڈیکل سینٹر میں تجربات کئے گئے جس کے نتائج کو آرلینڈو ، فلوریڈا میں واقع امریکی سوسائٹی برائے ثقلی و خلائی تحقیق میں نومبر 2013ء کو پیش کئے گئے ۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں