ارون شروڈنگر جس نے موج کی مساوات کو سب سے پہلے متعارف کروایا تھا، وہ سمجھتا تھا کہ یہ چیز کافی دور تک جائے گی۔ اس نے بوہر کے سامنے تسلیم کیا وہ کبھی موج کا تصوّر پیش نہیں کرتا اگر اس کو معلوم ہوتا کہ اس سے امکان طبیعیات میں متعارف ہو جائے گا۔
امکانات کے تصوّر کو ختم کرنے کے لئے اس نے ایک تجربے کی تجویز دی۔ فرض کریں کہ ایک بلی ایک بند ڈبے میں موجود ہے۔ ڈبے کے اندر ایک زہریلی گیس کی بوتل ہے، جو ایک لبلبی سے جڑی ہوئی ہے اور اس کا رابطہ گیگر کاؤنٹر سے ہے جو یورینیم کے ٹکڑے کے پاس رکھا ہوا ہے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یورینیم کے جوہر خالص کوانٹم وقوعہ ہیں جن کو وقت سے پہلے معلوم نہیں کیا جا سکتا۔ فرض کریں کہ پچاس فیصد اتفاق اس بات کہ ہے کہ یورینیم کے جوہر اگلے سیکنڈ میں انحطاط پذیر ہوں گے، لیکن اگر یورینیم کے جوہر انحطاط پذیر ہوں گے تو یہ گیگر کاؤنٹر کو آزاد کر دیں گے جو اس ہتھوڑے کو چھوڑ دے گا جو زہریلی بوتل پر گر کر اسے توڑ ڈالے گا نتیجتاً بلی ہلاک ہو جائے گی۔ اس سے پہلے کہ آپ اس ڈبے کو کھولیں ، یہ بتانا ناممکن ہے کہ بلی زندہ ہے کہ مردہ۔ اصل میں بلی کو بیان کرنے کے لئے طبیعیات دان زندہ اور مردہ بلی کے موجی تفاعل کو جمع کرکے بیان کرتے ہیں۔ – یعنی کہ ہم بلی کو ایک ایسی دنیا میں رکھتے ہیں جہاں پر وہ بیک وقت پچاس فیصد مردہ ہے اور پچاس فیصد زندہ ہے۔ اب ڈبے کو کھولیں۔ ایک دفعہ جب ہم نے دبے میں جھانک لیا، تو مشاہدہ پورا ہو گیا، موجی تفاعل منہدم ہو گیا اور ہم نے دیکھ لیا کہ بلی فرض کریں کہ زندہ ہے۔ شروڈنگر کے لئے یہ بات انتہائی بیہودہ تھی۔ ایسا کیسا ہو سکتا ہے کہ بلی بیک وقت زندہ اور مردہ صرف اس وجہ سے ہو سکتی ہے کہ ہم نے اسے نہیں دیکھا ہے؟ کیا وہ اپنا وجود اس وقت بناتی ہے جب ہم اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ آئن سٹائن نے اس توجیح سے خوش نہیں تھا۔ جب بھی مہمان اس کے گھر آتے تھے، تو وہ کہتا تھا ، چاند کو دیکھو۔ کیا یہ اس وقت یکایک نمودار ہو گیا ہے جب کسی چوہے نے اسے دیکھا ہے؟ آئن سٹائن اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ لیکن ایک طرح اس کا جواب ہاں میں بھی ہو سکتا ہے۔
صورتحال اس وقت گھمبیر ہو گئی جب ایک تاریکی ٹکراؤ آئن سٹائن اور بوہر میں سولوے کانفرنس میں ١٩٣٠ء میں ہوا۔ وہیلر نے بعد میں اس واقعہ کو اپنے تاریخ کے علم کی بنیاد پر شعوری بحث کی تاریخ میں عظیم قرار دیا۔ تیس برسوں میں اس نے کبھی بھی دو عظیم آدمیوں کے درمیان کسی ایسے گہرے مسئلے پر بحث نہیں سنی تھی جس کے کائنات کو سمجھنے کے انداز پر گہرے اثرات ہوں۔
آئن سٹائن ہمیشہ سے نڈر، بیباک، اور حد درجہ کا خوش گفتار تھا ، اس نے ایک "خیالی تجربہ" پیش کیا تاکہ کوانٹم کے نظریئے کو تہ و بالا کر دے۔ بوہر علی التواتر ہر حملے میں لڑکھڑاتے ہوئے منمنا رہا تھا۔ طبیعیات دان پال ایہرنفیسٹ کا مشاہدہ تھا ، " میرے لئے یہ انتہائی خوش گوار بات تھی کہ میں بوہر اور آئن سٹائن کے درمیان ہونے والے مکالمے میں موجود تھا۔ آئن سٹائن شطرنج کے کھلاڑی کی طرح نئی سے نئی مثال پیش کر رہا تھا۔ دوسری نسل کا ہمہ وقت متحرک ،جس کی نیت عدم یقین کے ذریعہ توڑنے کی تھی۔ بوہر ہمیشہ فلسفیانہ بادل میں سے ایک مثال کے بعد دوسری مثال کو توڑنے کے لئے ہتھیار نکالتا تھا۔ آئن سٹائن ڈبے کے کھلونے کی طرح ہر صبح تروتازہ نکلتا تھا۔ او، واقعی میں یہ کافی مزیدار تھا۔ لیکن میں ہمیشہ قطعی طور پر بوہر کی طرف اور آئن سٹائن کے مخالف ہوتا تھا۔ وہ بوہر کی جانب بالکل ایسے ہی آتا تھا جیسے کوئی ہمہ وقتی مطلق غازی اس سے برتاؤ کرے۔"
بالآخر آئن سٹائن نے ایک تجربہ کی تجویز پیش کی جو اس کے خیال میں کوانٹم کے نظریئے کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوتی۔ فرض کریں کہ ایک باکس میں گیس کے فوٹون ہیں۔ اگر باکس میں کوئی دروازہ ہو تو وہ تھوڑی سی دیر کے لئے کھل کر ایک فوٹون کو نکلنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ کیونکہ شٹر کی رفتار اور فوٹون کی توانائی کو درستگی کے ساتھ ناپا جا سکتا ہے لہٰذا فوٹون کی حالت کا تعین بھی لامتناہی درستگی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے اس کے نتیجے میں اصول عدم یقین کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
ایہرنفیسٹ لکھتا ہے، "بوہر کے لئے یہ ہوش اڑا دینے والا تھا۔ اس وقت اس سے کوئی جواب نہ بن سکا۔ وہ شام کی سیر کے تمام وقت انتہائی افسردہ رہا، ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹہلتا رہا، ہر شخص کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا، کیونکہ اگر آئن سٹائن درست تھا تو اس کا مطلب طبیعیات کا خاتمہ تھا۔ لیکن وہ کوئی استرداد نہیں سوچ پا رہا تھا ۔ میں اس منظر کو نہیں بھول سکتا جب دو مخالف یونیورسٹی کے کلب سے جا رہے تھے۔ آئن سٹائن ایک شاہانہ انداز سے آرام سے ایک طنزیہ تبسم کے ساتھ جا رہا تھا اور بوہر اس کے ساتھ بہت ہی متزلزل ہو کر چل رہا تھا۔"
جب ایہرنفیسٹ بعد میں بوہر سے ملا، تو وہ اتنا لاجواب تھا کہ ایک ہی لفظ بار بار بول رہا تھا، آئن سٹائن ۔۔۔ آئن سٹائن ۔۔۔ آئن سٹائن۔"
اگلے دن سخت تناؤ اور ایک شب کی بیداری کے بعد بوہر نے آئن سٹائن کی دلیل میں ایک ننھا سا سقم تلاش کرلیا۔ فوٹون خارج کرنے کے بعد، باکس تھوڑا ہلکا ہو گیا ہوگا، کیونکہ مادّہ اور توانائی دونوں ایک دوسرے کے قائم مقام ہوتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ باکس قوّت ثقل کی وجہ سے تھوڑا سا اونچا ہو جائے گا، کیونکہ آئن سٹائن کے قوّت ثقل کے نظریئے کے مطابق توانائی کا وزن ہوتا ہے۔ لیکن یہ چیز فوٹون کی توانائی میں عدم یقین کو متعارف کروا دیتی ہے۔ اگر کوئی وزن اور شٹر دونوں میں عدم یقین کو ناپے گا تو معلوم ہوگا کہ باکس اصول عدم یقین پر کاربند ہے۔ اصل میں بوہر نے آئن سٹائن کا اپنا قوّت ثقل کا نظریہ اس کے استرداد کے لئے استعمال کیا! بوہر فاتح بن کر نمودار ہوا اور آئن سٹائن کو شکست ہوئی۔ بعد میں جب آئن سٹائن نے شکایات بھرے انداز میں کہا "خدا پانسے نہیں کھیلتا،" تو بوہر نے ترکی بہ ترکی جواب دیا، "خدا کو نہ بتاؤ کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں۔" بالآخر آئن سٹائن نے تسلیم کرلیا کہ بوہر نے کامیابی کے ساتھ اس کے دلائل کو رد کر دیا۔ آئن سٹائن نے لکھا، "میں مان گیا ہوں کہ بلاشبہ نظریہ قطعی طور پر سچائی رکھتا ہے۔"
(آئن سٹائن بہرحال طبیعیات دانوں کو اس لئے حقارت سے دیکھتا تھا کہ وہ کوانٹم کے نظریئے میں موجود خلقی لطیف تناقضات کو سمجھنے میں ناکام رہے تھے۔ اس نے ایک مرتبہ لکھا ، "بلاشبہ آج ہر بدمعاش سوچتا ہے کہ وہ جواب جانتا ہے لیکن وہ خود کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے۔")
کوانٹم طبیعیات دانوں کے درمیان اس طرح اور دوسری آگ اگلتے مباحثوں کے بعد، آئن سٹائن نے بالآخر ہار مان لی لیکن اس نے ایک نیا طریقہ اختیار کیا۔ ان نے تسلیم کیا کہ کوانٹم کی طبیعیات صحیح ہے، لیکن اس کی عملداری صرف مخصوص میدان میں ہی ہے جو حقیقی سچ سے قریب قریب ہے۔ بعینہ جیسے اضافیت نیوٹن کے نظریئے کو عمومی حالت میں بیان کرتی ہے (لیکن وہ اس کو تباہ نہیں کرتی )، وہ چاہتا تھا کہ کوانٹم نظریئے کو مزید عمومی انداز، مزید طاقتور ایک عظیم وحدتی میدانی نظریئے میں پیش کرے۔
(یہ بحث جس میں آئن سٹائن اور شروڈنگر ایک طرف، اور بوہر اور ہائیزن برگ دوسری طرف تھے آسانی کے ساتھ نظرانداز نہیں کی جا سکتی تھی کیونکہ اب یہ خیالی تجربات ، تجربہ گاہوں میں دہرائے جا رہے تھے۔ ہرچند سائنس دان بلی کو زندہ اور مردہ طور پر نہیں لے سکتے تھے لیکن وہ انفرادی جوہروں سے نینو ٹیکنالوجی کے مدد سے خوب نمٹ سکتے تھے۔ حال ہی میں یہ دماغ میں درد کر دینے والے تجربات ایک ساٹھ جوہروں پر مشتمل کاربن کی بیضوی گیند پر کئے گئے، اس طرح سے "دیوار" جس کا تصوّر بوہر نے کیا تھا جو بڑے اجسام کو کوانٹم شئے سے الگ رکھتی تھی بوسیدہ ہونے لگی تھی۔ تجرباتی طبیعیات دان اب تو یہاں تک غور کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ ایک ہزار ہا جوہروں پر مشتمل جرثومے کو ایک ہی وقت میں دو جگہ پر موجود ہونے کے لئے کس چیز کی ضرورت ہوگی۔)
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں