جنگ کے بعد وہیلر کے شاگردوں کے جم غفیر میں سے ایک رچرڈفائن مین تھا، جو شاید سب سے سادے لیکن گہرے طریقے سے کوانٹم کی پیچیدگیوں کا خلاصہ معلوم کر سکا۔ (ان خیالات میں سے ایک نے فائن مین کو ١٩٦٥ء میں نوبیل انعام جتوایا۔) فرض کریں کہ آپ ایک کمرے کو پار کرنا چاہتے ہیں۔ نیوٹن کے مطابق، آپ نقطہ الف سے نقطہ ب تک جانے کے لئے سادے طور پر سب سے مختصر راستہ چنیں گے جس کو ہم مستند راستہ کہتے ہیں۔ لیکن فائن مین کے مطابق، سب سے پہلے آپ کو ان تمام راستوں پر غور کرنا ہوگا جو نقطہ الف کو ب سے جوڑ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام راستوں کو دیکھنا ہوگا جو آپ کو مریخ، مشتری یا قریبی ستارے تک لے جاتا ہے یہاں تک کہ ان راستوں پر بھی غور کرنا ہوگا جو ماضی میں بگ بینگ تک جاتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ راستے کتنا اجنبی اور عجیب ہوں آپ کو ان کو زیر غور لانا ہوگا۔ اس کے بعدفائن مین نے ہر راستے کو ایک عدد دے دیا، اور وہ اصول بھی واضح کر دئیے جس سے یہ عدد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ معجزاتی طور پر تمام ممکنہ راستوں کے اعداد کو جمع کرکے آپ نقطہ الف سے نقطہ ب تک جانے کے امکان کو کوانٹم میکانیات کے معیار کی روشنی میں معلوم کر سکتے ہیں۔ یہ واقعی میں بہت حیرت انگیز تھا۔
فائن مین نے دیکھا کہ راستوں کے ان اعداد کو جمع کرنا بہت ہی عجیب اور حیران کن ہے اور یہ نیوٹن کے قوانین حرکت کی خلاف ورزی عام طور پر زائل کرکے ایک چھوٹا سا ٹوٹل دیتے ہیں۔ یہ کوانٹم اتار چڑھاؤ کا ماخذ تھا، یعنی کہ یہ ایسے راستوں کو بیان کرتا تھا جس کا حاصل بہت ہی چھوٹا تھا۔
لیکن اس کے ساتھ اس کو یہ بھی معلوم ہوا کہ نیوٹن کا عام فہم راستہ وہ ہیں جو زائل نہیں ہوتے اور اس طرح سے ان کا ٹوٹل سب سے زیادہ ہوتا ہے؛ یہ وہ راستہ ہوتا ہے جس کا امکان سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس طرح سے ہماری طبیعی کائنات کے لئے پائی جانے والی فہم سادہ طور پر سب سے زیادہ امکانی حالت ان لامتناہی حالتوں میں سے ایک ہوتی ہے۔ لیکن ہم تمام ممکنہ حالتوں میں ہم بود ہوتے ہیں جن میں سے کچھ ہمیں ڈائنوسارس کے دور ، قریبی سپرنووا تک اور کائنات کے کنارے تک لے جاتی ہیں۔ (یہ عجیب راستے ہماری نیوٹنی عقل سلیم کے راستوں سے خفیف سا انحراف کرتے ہیں لیکن خوش قسمتی سے ان کے وقوع پذیر ہونے کا بہت ہی کم امکان ہوتا ہے۔)
بالفاظ دیگر چاہئے جتنا بھی عجیب لگے ہر مرتبہ جب آپ کمرے میں سے گزرتے ہیں تو آپ کا جسم تمام ممکنہ راستوں کو پہلے "سونگھتا" ہے، یہاں تک کہ دور دراز کے کوزار سے لے کر بگ بینگ تک اور پھر ان کو جمع کرتا ہے۔ طاقتور ریاضی کا استعمال کرتے ہوئے جس کو تفاعلی کامل کہتے ہیں فائن مین نے ثابت کیا کہ نیوٹنی راستہ صرف اکیلا ایک راستہ نہیں ہے بلکہ سادہ طور پر سب سے زیادہ امکان والا راستہ ہے۔ ریاضیاتی ہنرمندی سے فائن مین نے اپنی نقطہ نظر کو ثابت کر دیا، یہ بات جتنی تعجب خیز لگتی ہے ، عام طور پر عام کوانٹم میکانیات اتنی ہی تعجب انگیز ہوتی ہے۔ (اصل میں فائن مین نے شروڈنگر کی موجی مساوات سے ہی استنباط کیا تھا۔)
فائن مین کے "تمام راستوں کے مجموعے" کی قوّت ہی ہے کہ آج جب ہم عظیم وحدتی نظریوں، افراط یہاں تک کہ اسٹرنگ کے نظریئے کے کلیہ کو جب بناتے ہیں تو ہم فائن مین کے "مکمل راستے" کا نقطہ نظر ہی استعمال کرتے ہیں۔ یہ طریقہ اب تمام سند عطا کرنے والے مدرسوں میں دنیا بھر میں پڑھایا جاتا ہے اور اب تک کا کوانٹم کے نظریئے کو بنانے کا سب سے طاقتور اور آسان طریقہ ہے۔
(میں فائن مین کا مکمل راستے کا طریقہ اپنی روز مرہ کی تحقیق میں استعمال کرتا ہوں۔ ہر مساوات جو میں لکھتا ہوں وہ میں راستوں کے مجموعہ کی صورت میں ہی لکھتا ہوں۔ جب میں سند حاصل کر رہا تھا تو میں نے پہلی مرتبہ فائن مین کے نقطہ نظر کو سیکھا تھا اور اس نے میرا تصوّر کائنات کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ ازروئے دانش میں کوانٹم نظریئے اور عمومی اضافیت کی دقیق ریاضی کو سمجھتا ہوں، لیکن یہ خیال تھا کہ میں ایک طرح سے ان راستوں کو سونگھ رہا ہوتا ہوں جو مجھے مریخ یا دور ستارے تک لے جاتے ہیں جب میں اپنے کمرے میں چل رہا ہوتا ہے ، اس نے میرا دنیا کو دیکھنے کے نقطہ نظر کو بدل دیا۔ یکایک میرے دماغ میں ایک کوانٹم کی ایسی عجیب دنیا کی تصویر آ گئی جہاں میں رہتا ہوں۔ میں نے اس بات کا ادراک کرنا شروع کر دیا کہ کوانٹم نظریہ بھی اتنا ہی اجنبی ہے جتنی اضافیت کے دماغ ہلا دینے والے عواقب ہیں۔)
جب فائن مین نے یہ عجیب کلیہ واضح کیا تھا، تو وہیلر جو اس وقت پرنسٹن یونیورسٹی میں تھا، اپنے پڑوس میں واقع انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی میں آئن سٹائن کے پاس دوڑتا ہوا اسے اس نئی نفیس اور طاقتور تصویر کے بارے میں قائل کرنے گے لئے گیا۔ وہیلر نے ہیجان انگیز ہو کر آئن سٹائن کوفائن مین کے اس کامل راستے کے نظریئے کے بارے میں بتایا۔ وہیلر اس بات سے بے خبر تھا کہ آئن سٹائن کو یہ بات کس قدر پاگل پنے کی لگے گی۔ اس کے بیان کرنے کے بعد آئن سٹائن نے اپنا سر انکار میں ہلایا اور اپنی اسی بات کو دہرایا کہ وہ اب بھی اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ خدا دنیا کے ساتھ پانسے سے کھیلتا ہے۔ آئن سٹائن نے وہیلر سے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ غلط ہو۔ لیکن وہ اس بات پر قائم رہا کہ اسے غلط ہونے کا بھی حق حاصل ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں