Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 6 مئی، 2016

    اٹ فرام بٹ


    کوانٹم کے نظریئے میں موجود پیمائش  کی مشکلات میں دوبارہ دلچسپی ابھرنے میں ، وہیلر کوانٹم طبیعیات کی سائنس میں دادا ابا بن گیا تھا اور اس نے اپنے اعزاز میں دی ہوئی لاتعداد کانفرنسوں میں شرکت کی تھی۔ اس کی حیثیت اس نئے عہد میں ایک ایسے گرو کی ہو گئی تھی جو طبیعیات میں شعور کے تصوّر کے خیال کو لانے کی حمایت میں سرگرداں تھے۔ (بہرحال وہ ہمیشہ اس قسم کے تعلق سے خوش نہیں ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ جب اس کو تین ماہر ارواحیات کے ساتھ ایک پروگرام میں بیٹھا دیا تھا جس سے وہ شدید چڑ گیا تھا۔ اس نے جلدی سے ایک جملہ شامل کر دیا " جہاں دھواں ہوتا ہے وہاں دھواں ہوتا ہے ۔")

    کوانٹم نظریئے کے تناقضات سے ستر برس تک لڑنے کے بعد، وہیلر وہ پہلا شخص تھا جس نے برملا اس بات کا اعتراف کیا کہ اس کے پاس تمام جوابات نہیں ہیں۔ اس نے اپنے مفروضوں پر سوالات اٹھانے کا عمل جاری رکھا۔ جب کوانٹم کی میکانیات میں پیمائش کے مسئلے کے بارے میں پوچھا گیا، اس نے کہا، "میں صرف اس سوال سے ہی پاگل ہو جاتا ہوں ۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ کبھی میں سو فیصد اس خیال کو سنجیدگی سے لیتا ہوں دنیا ایک دھوکہ اور خیالی چیز ہے اور کبھی یہ کہ دنیا ہم سے الگ وجود رکھتی ہے۔۔ بہرحال میں لیبنیز کے جہانوں کی تائید کرتا ہوں، 'دنیا تخیل و خیال ہو سکتی ہے اور وجود صرف ایک خواب ہے، لیکن یہ خواب اور تخیل میرے لئے حقیقت کا درجہ رکھتے ہیں اگر ہم علّت کو صحیح طرح سے استعمال کریں تو ہم کبھی بھی اس سے دھوکہ نہیں کھائیں گے۔"

    آج کثیر جہاں یا غیر مربوطیت کا نظریئے مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ لیکن وہیلر کو جو چیز پریشان کر رہی ہے وہ یہ کہ اس کے لئے " بہت زیادہ بگاس درکار ہے۔" وہ شروڈنگر کی بلی کے مسئلے کی ایک اور توجیح سے کھیلنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اپنے اس نظریئے کو "چھوٹے سے بڑا" کہتا ہے۔ یہ ایک غیر متناقض نظریہ ہے جو اس مفروضے سے شروع ہوتی ہے کہ اطلاعات تمام موجودات کی جڑ ہے۔ جب ہم چاند ، کہکشاں یا جوہر کو دیکھتے ہیں تو ان کی اصل روح ان میں ذخیرہ کی ہوئی اطلاع ہوتی ہے ۔ وہ دعویٰ کرتا ہے ۔ لیکن یہ اطلاع اس وقت ظاہر ہو کر وجود پاتی ہے جب کائنات خود کا مشاہدہ کرتی ہے۔ وہ ایک دائروی خاکہ بناتا ہے، جو کائنات کی تاریخ کی نمائندگی کرتی ہے۔ کائنات کی ابتدا میں یہ عدم سے اس لئے وجود میں آئی کیونکہ کوئی اس کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ "یہ" (کائنات میں موجود مادّہ) اس وقت ظاہر ہو کر وجود پاتا ہے جب کائنات کی اطلاع ("ٹکڑے") کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ وہ اس کو "شراکتی کائنات " کہتا ہے۔ یہ خیال کہ کائنات ہم سے بعینہ ایسے مطابقت رکھتی ہے جیسے ہم اس سے مطابقت رکھتے ہیں۔ یعنی کہ ہمارے وجود نے ہی کائنات کی تخلیق کو ممکن کیا ہے۔ (کیونکہ کوانٹم میکانیات میں ناپنے کے مسئلے پر کوئی عالمگیر اتفاق رائے نہیں پائی جاتی، لہٰذا زیادہ تر طبیعیات دان اس نظریئے کو "دیکھو اور انتظار کرو" والی پالیسی کے تحت لیتے ہیں۔)
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: اٹ فرام بٹ Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top