Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 25 مئی، 2016

    اسٹرنگ نظرئیے کی تاریخ پر ایک نظر - حصّہ اوّل




    وحدتی میدانی نظرئیے کا امید وار ایک نظریہ جو واضح طور پر "کافی پاگل پن " کا ہے وہ اسٹرنگ نظریہ یا ایم نظریہ ہے۔ اسٹرنگ نظریہ شاید طبیعیات کی تاریخ کا سب سے عجیب واقعہ ہے۔ اس کو اتفاقی طور پر اس وقت دریافت کیا گیا تھا جب اس کا اطلاق ایک غلط مسئلے پر کیا جا رہا تھا جس میں کچھ ابہام تھا اور یہ اچانک ہی ہر شئے کا نظریہ بن کر سامنے آگیا۔ اور حتمی تجزیہ میں کیونکہ چھوٹی تبدیلیاں نظرئیے کو تباہ کئے بغیر کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے لہٰذا یا تو اس کو ہر شئے کا نظرئیے ہونا چاہئے تھا یا پھر کسی شئے کا بھی نہیں ۔

    اس عجیب تاریخ کی وجہ یہ ہے کہ اسٹرنگ کے نظریہ الٹی طرف سے بنایا گیا۔ عام طور پر نظرئیے میں جیسا کہ اضافیت میں شروعات ہی بنیادی طبیعیاتی اصولوں سے ہوتی ہے۔ بعد میں ان اصولوں کو آگے بڑھایا جاتا ہے تاکہ ایک مستند مساوات کا مجموعہ حاصل ہو سکے۔ آخر میں ان مساوات کی کوانٹم اتار چڑھاؤ کو ناپا جاتا ہے۔ اسٹرنگ نظریہ الٹی طرح سے بنا، اس کی شروعات حادثاتی طور پر ہونے والی کوانٹم نظرئیے سے ہوئی؛ طبیعیات دان اب بھی اس بات پر غور و فکر کر رہے ہیں کہ وہ کون سے اصول ہیں جو اس نظرئیے کی رہنمائی کریں گے۔

    اسٹرنگ کے نظرئیے کی شروعات ١٩٦٨ء سے ہوتی ہے جب جنیوا میں واقع سرن کی نیوکلیائی تجربہ گاہ میں موجود دو نوجوان طبیعیات دانوں گیبریل وینزیانو اور ماہیکو سوزوکی علیحدہ علیحدہ ریاضی کی ایک کتاب کو یوں ہی شغل میں پلٹ رہے تھے کہ اچانک اتفاق سے ان کی نظر یولر کے بیٹا تفاعل پر پڑی، اٹھارویں صدی کا ایک گمنام ریاضیاتی کلیہ جس کو لیونارڈ یولر نے دریافت کیا تھا جو حیرت انگیز طور پر ذیلی جوہری دنیا کی تشریح کرتا ہوا دکھائی دیا۔ وہ اس وقت حیرت زدہ رہ گئے جب انہوں نے دیکھا کہ یہ مبہم ریاضیاتی کلیہ دو میسون ذرّات کو زبردست توانائی کے ساتھ ٹکراتے ہوئے بیان کرتا ہوا لگتا ہے۔ وینزیانو نمونے نے جلد ہی طبیعیات کی دنیا میں سنسی پھیلا دی، سینکڑوں مقالات و مضامین نیوکلیائی طاقتوں کو عمومی طور پر بیان کرنے کی کوششوں میں پیش کئے گئے۔

    بالفاظ دیگر، نظریہ خالص اتفاق کا حاصل تھا۔ انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی کے ایڈورڈ ویٹن (جو اس نظرئیے میں ہونے والی کافی زیادہ چونکا دینے پیشرفتوں کے پیچھے موجود شخصیت سمجھے جاتے ہیں )، کہتے ہیں، "اگر حق کی بات کی جائے تو بیسویں صدی کے طبیعیات دانوں کو اس نظرئیے کا مطالعہ کرنے کا کوئی حق نہیں تھا ۔ اصل میں تو اسٹرنگ کے نظرئیے کو ایجاد ہی نہیں ہونا چاہئے تھا۔"

    مجھے واضح طور وہ ہلچل یاد ہے جو اسٹرنگ کے نظرئیے نے پیدا کی تھی۔ میں اس وقت طبیعیات کی سند حاصل کرنے والا برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کا طالبعلم تھا۔ اور مجھے یاد ہے کہ طبیعیات دان اپنی گردانیں انکار کی صورت میں ہلا کر کہتے تھے کہ طبیعیات کو اس طرح سے نہیں ہونا چاہئے۔ ماضی میں طبیعیات دان عام طور پر سخت عرق ریزی کے بعد قدرت کے مفصل مشاہدات کرتے تھے، اور پھر کچھ خیال پیش کرتے تھے، احتیاط کے ساتھ اعداد و شمار کے مخالف میں خیال کی جانچ کی جاتی تھی، اور پھر تھکا دینے والا عمل بار بار کیا جاتا تھا۔ اسٹرنگ کا نظریہ تو صرف کرسی پر بیٹھ کر صرف جواب کا قیاس لگا کر حاصل کر لیا گیا۔ ایسے دم بخود کر دینے والے مختصر راستوں کا ممکن ہونے کا تو تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

    کیونکہ ذیلی جوہری ذرّات کو ہم اپنے طاقتور آلات کی مدد سے بھی نہیں دیکھ سکتے، طبیعیات دانوں کو ان کی جانچ کے لئے وحشی لیکن اثر انگیز طریقہ ڈھونڈھنا تھا، یعنی ان کو زبردست توانائی کے ساتھ ٹکرانا تھا۔ ارب ہا ڈالر جسیم "جوہری تصادم گروں" یا "ذرّاتی اسراع گروں" کو بنانے میں لگا دیے گئے جو میلوں پر محیط ہیں، جہاں پر ذیلی جوہری ذرّات کی کرنیں پیدا کی جاتی ہیں اور پھر ان کو ایک دوسرے سے ٹکرا دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد طبیعیات دان انتہائی عرق ریزی کے ساتھ تصادم سے پیدا ہونے والے گرد و غبار کا جائزہ لیتے ہیں۔ اس تکلف دہ مشقت آمیز عمل کا مقصد اعداد کا سلسلہ بنانا ہے جس کو انتشاری قالب یا ایس قالب کہتے ہیں۔ اعداد کا یہ مجموعہ بہت اہم ہے کیونکہ یہ اپنے آپ میں ذیلی جوہری طبیعیات کی تمام اطلاع کو رمز بند کر دیتا ہے۔ یعنی کہ اگر کوئی ایس قالب کو جانتا ہو تو تمام بنیادی ذرّات کی خواص کو جان لے گا۔

    بنیادی ذرّاتی طبیعیات کا ایک مقصد ایس قالب کا ریاضیاتی طور پر ڈھانچے کا مضبوط تعاملات کے لئے اندازہ لگانا بھی ہے۔ ایک ایسا کام جو اس قدر دشوار گزار ہے کہ کچھ طبیعیات دان یقین رکھتے ہیں کہ یہ کسی بھی معلوم طبیعیات کے پرے کی چیز ہے۔ اب آپ اس سنسنی کے بارے میں اچھی طرح سے اندازہ لگا سکتے ہیں جب وینزیانو اور سوزوکی نے ریاضی کی کتاب کے اوراق کو پلٹتے ہوئے سادہ سا اندازہ لگاتے ہوئے ایس قالب کا قیاس کیا تھا ۔

    یہ نمونہ اس سے بالکل الگ تھا جو ہم اس سے پہلے دیکھ چکے ہیں۔ عام طور پر جب کوئی نیا نظریہ پیش کرتا ہے (جیسا کہ کوارک) تو طبیعیات دان کوشش کرتے ہیں کہ نظرئیے میں معمولی تبدیلیاں کریں، اس کے معلوم اعداد کو تبدیل کرتے ہیں (مثلاً ذرّات کی کمیتیں یا ان کی مضبوطی)۔ لیکن وینزیانو نمونہ اتنا شاندار بنا ہوا تھا کہ خفیف سی گڑبڑ بھی اس کے بنیادی تشاکل کو تباہ کر کے پورے کلیہ کو اجاڑ دیتی ہے۔ جس طرح سے شیشے کا نازک برتن ہوتا ہے کوئی بھی تبدیلی اس کو چکنا چور کر دیتی ہے۔

    ان سیکڑوں مقالات میں جنہوں نے اس میں خفیف سی تبدیلیاں کرنے کی کوشش کیں انہوں نے اس کی خوبصورتی کو تباہ کر دیا اور اس میں سے کوئی بھی آج باقی نہیں رہی۔ صرف وہی آج جانی جاتی ہیں جنہوں نے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی کہ آیا یہ کام کیوں کرتی ہے۔ یعنی کہ وہ جنہوں نے اس کے تشاکل کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ بالآخر طبیعیات دانوں نے سیکھ لیا کہ نظرئیے میں کوئی قابل رد و بدل چیز نہیں ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: اسٹرنگ نظرئیے کی تاریخ پر ایک نظر - حصّہ اوّل Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top