لیکن جیسے ہی اسٹرنگ نظریئے نے آگے بڑھنا شروع کیا یہ تیزی سے سلجھنا شروع ہو گیا۔ رڈگرز کے کلاڈ لوولیس نے یہ جان لیا کہ اصل وینزیانو نمونے میں ایک خفیف سی ریاضیاتی غلطی موجود ہے جس کو صرف اسی وقت درست کیا جا سکتا ہے جب مکان و زمان کی چھبیس جہتیں ہوں۔ اسی طرح نویو، شیوارز اور ریڈمنڈ کا سپر اسٹرنگ بھی صرف دس جہتوں میں ہی کام کر سکتا ہے۔ اس بات نے طبیعیات دانوں کے چودہ طبق روشن کردیئے۔ اس طرح کی بات دنیائے سائنس کی تاریخ میں کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ہمیں کہیں پر بھی کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جہاں نظریہ اپنی جہتوں کا خود سے چناؤ کرے۔ مثال کے طور پر نیوٹن اور آئن سٹائن کے نظریات کسی بھی جہت میں بنائے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر قوّت ثقل کا مشہور زمانہ قانون معکوس مربع کو چار جہتوں میں معکوس مثلث میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔ اسٹرنگ نظریہ بہرحال صرف مخصوص جہتوں میں ہی کام کرتا ہے۔
عملی نقطۂ نگاہ سے، یہ ایک تباہی تھی۔ آفاقی طور پر یہ بات مسلمہ ہے کہ ہماری دنیا مکان کی تین جہتوں (لمبائی، چوڑائی، اور گہرائی) اور وقت کی ایک جہت بھی وجود رکھتی ہے۔ کائنات کے وجود کو دس جہتوں میں ماننے کا مقصد یہ ہوگا کہ نظریہ سائنسی قصوں کی حدود کو چھو لے گا۔
اسٹرنگ کے طبیعیات دان مذاق کا نشانہ بننے لگے۔ (جان شیوارز کو یاد ہے کہ جب وہ رچرڈ فائن من کے ساتھ بالا بر میں جا رہا ہوتا تھا تو وہ اکثر مذاق میں اس سے کہتا تھا، "ویسے جان، آج کل تم کتنی جہتوں میں رہ رہے ہو؟" لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق جتنا وہ اس نظریئے کو بچانے کی کوشش کرتے وہ اتنا ہی تیزی کے ساتھ ختم ہو جاتا تھا۔ صرف چند لوگ جو ان دنوں ہٹ دھرمی کے ساتھ اس نظریئے پر کام کرتے رہے ان میں ایک کالٹک کے جان شیوارز اور اکولی نورمیل سپیرییرے ، پیرس کے جوئل شیرک ہی تھے۔ اس وقت تک ، اسٹرنگ نظریہ صرف مضبوط نیوکلیائی تعاملات کو ہی بیان کرنے والا سمجھا جاتا تھا۔ لیکن ایک مسئلہ تھا، یہ نمونہ ایک ایسے ذرّہ کی پیش گوئی کرتا تھا جو مضبوط تعاملات میں موجود نہیں تھا۔ ایک عجیب ذرّہ جس کی کمیت صفر تھی اور وہ کوانٹم کی اکائی کے دو گھماؤ رکھتا تھا۔ اس چپکو ذرّے سے جان چھڑوانے کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔ ہر مرتبہ جب بھی کوئی اس جڑواں گھماؤ والے ذرّے کو نکالتا تھا نمونہ فوراً ہی منہدم ہو کر اپنی جادوئی خصائص کھو دیتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ کسی طرح یہ اضافی دو گھماؤ والا ذرّہ اس مکمل نمونے کا امین ہے۔
تب شیرک اور شیوارز نے ایک جرات مندانہ قدم اٹھایا۔ اصل میں سقم ایک رحمت تھی۔ اگر وہ اس تنگ کرنے والے دو گھماؤ والے ذرّے کو گریویٹون ( ایک ایسا ذرّہ جو آئن سٹائن کے قوّت ثقل کے قانون کی وجہ سے بنتا ہے)کہتے تو نظریئے اصل میں آئن سٹائن کا قوّت ثقل کے نظریئے کو بھی اپنے اندر سمو دیتا! (بالفاظ دیگر، آئن سٹائن کا عمومی اضافیت کا نظریہ سادے طور پر پست ترین تھرتھراہٹ یا سپر اسٹرنگ کے سُر کے ساتھ نمودار ہوا۔)عجیب بات یہ ہے کہ طبیعیات کے دوسرے نظریات پر زور کوشش کرتے ہیں کہ قوّت ثقل کا ذکر کسی طرح سے گول کر جائیں، اسٹرنگ نظریہ اس کو طلب کرتا ہے۔( یعنی اصل میں اسٹرنگ نظریئے کی سب سے پرکشش بات یہ ہے کہ یہ کہتا ہے کہ قوّت ثقل کو شامل کرو ورنہ میں کام نہیں کروں گا۔) اس جرات مندانہ کام سے، سائنس دانوں کو اندازہ ہو گیا کہ اسٹرنگ نمونہ غلط مسئلے کو حل کرنے کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ اصل میں اس کا مقصد صرف مضبوط نیوکلیائی تعاملات پر اطلاق نہیں تھا بلکہ یہ تو ہر شئے کا نظریہ تھا۔ جیسا کہ ویٹن زور دے کر کہتے ہیں اس نظریئے کا ایک پر کشش پہلو یہ ہے کہ یہ قوّت ثقل کی موجودگی کا طالب ہوتا ہے۔ معیاری میدانی نظریات عشروں سے قوّت ثقل کو قبول کرنے سے انکاری ہیں تاہم قوّت ثقل اسٹرنگ نظریئے میں درکار ہوتی ہے۔
بہر کیف شیرک اور شیوارز کا اہم خیال بری طرح سے نظر انداز کر دیا گیا۔ اسٹرنگ نظریئے کو قوّت ثقل اور ذیلی جوہری ذرّات دونوں کو بیان کرنے کے لئے صرف 10-33 سینٹی میٹر لمبا ہونا ہوگا (یعنی کہ پلانک لمبائی جتنا)، بالفاظ دیگر ان کو ایک ارب ارب گنا پروٹون سے بھی چھوٹا ہونا ہوگا۔ یہ ایک بات ایسی تھی جو زیادہ تر طبیعیات دانوں کو ہضم نہیں ہو سکتی تھی۔ لیکن ١٩٨٠ء عشرے کے درمیان میں ہر شئے کے نظریئے کو حاصل کرنے والی دوسری کوششیں کچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوئیں۔ معیاری نمونے کے نظریات میں قوّت ثقل شامل کرنے کی کوششیں گہری دلدل میں اترتی چلی گئیں ( جن کو میں جلد ہی آگے بیان کروں گا)۔ ہر مرتبہ جب بھی کوئی قوّت ثقل کا زبردستی نکاح کوانٹم قوّتوں کے ساتھ کرنے کی کوشش کرتا تو نتیجہ طلاق پر ہی منتج ہوتا یعنی کہ ریاضیاتی غیر ہم آہنگی اس قدر زیادہ ہوتی تھیں کہ نظریہ ختم ہی ہو جاتا تھا۔ (آئن سٹائن اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ شاید خدا کے پاس کائنات کو تخلیق کرنے کے لئے زیادہ چناؤ کا اختیار نہیں تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ صرف ایک اکلوتا نظریہ ہی ریاضیاتی تمام تر غیر ہم آہنگیوں سے آزاد ہے۔)
اس میں دو قسم کے ریاضیاتی تفاوت تھے۔ پہلا تو لا محدودیت کا مسئلہ تھا۔ عام طور پر کوانٹم اتار چڑھاؤ کافی خفیف ہوتے ہیں۔ کوانٹم کے اثرات عام طور پر صرف نیوٹن کے قانون حرکت میں ہلکی تبدیلیاں کرکے حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم زیادہ تر ان کو جہان اکبر میں نظرانداز کر دیتے ہیں کیونکہ یہ بہت ہی چھوٹے ہوتے ہیں۔ بہرحال جب قوّت ثقل کو کوانٹم کے نظریئے میں شامل کیا جاتا ہے تو یہ کوانٹم کے اتار چڑھاؤ اصل میں غیر محدود بن جاتے ہیں جو ایک بہت ہی بیہودہ سی بات ہے۔
دوسری ریاضیاتی عدم مطابقت نظریئے میں موجود ان چھوٹے انحرافات کی "بے قاعدگیوں" سے نمٹنا ہوتا ہے جو اس وقت نمودار ہوتے ہیں جب ہم نظریئے میں کوانٹم اتار چڑھاؤ شامل کرتے ہیں۔ یہ بے قاعدگیاں نظریئے کے اصل تشاکل کو بگاڑ دیتی ہیں، جس سے یہ نظریہ لاچار ہو جاتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک ایسے خلائی جہاز بنانے والے کا تصوّر کریں جس کو ایک ایسا راکٹ بنانا ہے جو لازمی طور پر چکنا اور نرم رو گاڑی کی طرح فضا کو چیر کر اس میں سفر کرے۔ ایسے کسی راکٹ کے لئے بہت زیادہ متشاکل ہونا نہایت ضروری ہوگا تاکہ وہ ہوا اور رگڑ کو کم کر سکے (اس صورت میں اس کی شکل ایک سلنڈر کی سی ہونی چاہئے تاکہ راکٹ اپنے محور پر گھومتے ہوئے ہر لحاظ سے ایک جیسا ہی رہے۔) اس تشاکل کو 2(O) کہتے ہیں ۔ لیکن اس میں دو مسئلے ہو سکتے ہیں۔ پہلا کیونکہ راکٹ بہت شاندار سمتی رفتار سے سفر کرتا ہے لہٰذا اس کے پروں میں تھرتھراہٹ پیدا ہو سکتی ہے۔ عام طور پر یہ ارتعاش زیر صوتی ہوائی جہازوں میں کافی خفیف سی ہوتی ہے۔ بہرحال، بیشتر صوتی سمتی رفتار پر سفر کرنے سے یہ اتار چڑھاؤ بڑھ کر کافی شدید ہو سکتے ہیں، جو بالآخر پروں کو ریزہ ریزہ کر دیں گے۔ اسی طرح سے انحراف قوّت ثقل کے کوانٹم نظریئے کو تباہ کر سکتا ہے۔ عام طور پر، یہ اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ ان کو آسانی کے ساتھ نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن قوّت ثقل کا کوانٹم نظریہ اس کو اجاڑ دیتا ہے۔ راکٹ خلائی جہاز کے ساتھ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ڈھانچے یا خول میں ننھی دراڑیں پڑ سکتی ہیں۔ یہ خامیاں راکٹ خلائی جہاز کے اصل 2(O) کے تشاکل کو برباد کر دیں گی۔ ہر چند یہ ننھی ہوں گی لیکن یہ بالآخر پھیل کر جہاز کے خول کو کرچی کرچی کر دیں گی۔ اسی طرح سے، یہ "دراڑیں" قوّت ثقل کے نظریئے کے تشاکل کو ختم کر دیتی ہیں۔
اس قسم کے مسائل سے نمٹنے کے لئے دو حل موجود ہیں۔ ایک حل تو مرہم پٹی کا ہے، اس امید کے ساتھ کہ راکٹ خلاء میں نہ پھٹ جائے ان دراڑوں کو گوند سے بھر دیا جائے اور پروں کے ساتھ راڈ لگا دی جائی۔ یہی وہ طریقہ ہے جو زیادہ تر طبیعیات دان اس وقت استعمال کرتے ہیں جب وہ کوانٹم کے نظریئے کا نکاح قوّت ثقل سے کروا رہے ہوتے ہیں۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان دونوں مسائل پر کسی طرح سے مٹی ڈال دی جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دوبارہ شروع سے نئی چیزوں اور اجنبی مادّوں کے ساتھ ابتدا کی جائے جو خلائی سفر کا تناؤ برداشت کر سکیں۔
طبیعیات دانوں کی قوّت ثقل کے کوانٹم کے نظریئے کو ٹھیک کرنے کے لئے عشروں سے کوششیں جاری ہیں لیکن ان تمام کا نتیجہ صرف پہیلیوں اور مزید انحراف کی صورت میں ہی نکل رہا ہے۔ بتدریج انھیں اس بات کا احساس ہو گیا کہ مرہم پٹی کا طریقہ چھوڑنا پڑے گا اور ان کو ایک بالکل نیا نظریہ درکار ہوگا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں