ایک مرتبہ آئن سٹائن نے کہا تھا کہ اگر کوئی نظریہ ایک ایسی تصویر پیش کرنے میں ناکام رہے جس کو ایک بچہ نہ سمجھ سکے تو ممکنہ طور پر وہ فضول ہوگی۔ خوش قسمتی سے اسٹرنگ نظرئیے کے پیچھے ایک سادہ سی طبیعیاتی تصویر موجود ہے ایک ایسی تصویر جو موسیقی پر بنی ہے۔
اسٹرنگ نظرئیے کے مطابق اگر آپ کے پاس ایک فوق خرد بین موجود ہو اور آپ الیکٹران کے قلب میں جھانک سکیں ، تو آپ کو کوئی نقطے والا ذرّہ نہیں نظر آئے گا بلکہ آپ وہاں پر ایک مرتعش تار دیکھیں گے ۔ (تار حد درجے مہین ہوگا، اس کی لمبائی پلانک 10-33 سینٹی میٹر ہوگی۔ یعنی ایک پروٹون سے ایک ارب ارب گنا کم، لہٰذا تمام ذیلی جوہری ذرّات نقطہ جیسے لگتے ہوں گے۔ اگر ہم اس تار کو کھینچیں، تو اس کی تھرتھراہٹ بدل جائے گی؛ ہو سکتا ہے کہ الیکٹران تبدیل ہو کر نیوٹرینو میں بدل جائے۔ دوبارہ اس کو چھیڑیں اب کی بار ہو سکتا ہے کہ وہ کسی کوارک میں بدل جائے۔ اصل میں اگر آپ اس کو زور سے کھینچیں گے تو وہ کسی بھی جانے پہچانے ذیلی جوہری ذرّات میں بدل سکتا ہے۔ اس طرح سے اسٹرنگ کا نظریہ بغیر کسی مشقت کے اس بات کو بیان کرتا ہے کہ اتنے زیادہ ذیلی جوہری ذرّات کیوں موجود ہیں۔ اصل میں وہ سوائے " مختلف سروں" کے اور کچھ نہیں ہیں جن کو سپر اسٹرنگ میں بجایا جاتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے وائلن کی مثال لیں ، وائلن میں سر الف، بے اور ج تیز سریں بنیادی نہیں ہیں۔ تار کو مختلف طرح سے چھیڑنے پر ہم موسیقی کے تمام پیمانے کے سر حاصل کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر 'ب' چپٹا ' د' سر سے بنیادی طور پر بالکل بھی مختلف نہیں ہے۔ یہ سب تار کی سر سے کچھ زیادہ نہیں ہیں۔ اسی طرح سے الیکٹران اور کوارک بھی کوئی بنیادی چیز نہیں ہیں بلکہ یہ صرف ایک تار ہی ہیں۔ اصل میں کائنات میں موجود تمام ذیلی جوہری ذرّات صرف تار کے ارتعاش سے زیادہ کچھ اور نہیں ہیں۔ تاروں میں ہونے والی "ہم آہنگی" قوانین طبیعیات ہیں۔
اسٹرنگ ٹوٹتے اور جڑتے ہوئے آپس میں تعامل کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ تعاملات ہوتے ہیں جو ہم کسی جوہر میں موجود الیکٹران اور پروٹون کے درمیان ہوتا ہوا دیکھ سکتے ہیں ۔ اس طرح سے اسٹرنگ کے نظرئیے سے ہم تمام جوہری اور نیوکلیائی طبیعیات کے قوانین کو پیش کر سکتے ہیں۔ "سریں" جو اسٹرنگ کے نظرئیے کے ذریعہ لکھی جا سکتی ہیں وہ کیمیا کے قوانین کے برابر ہیں۔ کائنات کو اب اسٹرنگ کے وسیع سمفونی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
نہ صرف اسٹرنگ کا نظریہ کوانٹم نظریہ کے ذرّات کو کائنات کی موسیقی کی سروں میں بیان کرتا ہے بلکہ یہ آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت کو بھی بیان کرتا نظر آتا ہے۔ یعنی کہ اسٹرنگ کی سب سے پست تھرتھراہٹ، دو گھماؤ والے ذرّات جس کی کوئی کمیت نہیں ہے جس کو گریویٹون بھی کہتے ہیں ایک ذرّہ یا کشش ثقل کا کوانٹم۔ اگر ہم ان گریویٹون کے تعاملات کا حساب لگائیں، تو ہمیں بالکل درست طور پر آئن سٹائن کا پرانا نظریہ کوانٹم کی صورت میں مل جائے گا۔ جب اسٹرنگ حرکت کرتے ہوئے ٹوٹتے اور جڑتے ہیں تو وہ مکان و زمان پر کافی پابندیاں لاگو کر دیتے ہیں۔ جب ہم ان پابندیوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو دوبارہ ہمیں آئن سٹائن کا پرانا نظریہ اضافیت مل جاتا ہے۔ پس اس طرح سے اسٹرنگ کا نظریہ بغیر کسی اضافی مشقت کے آئن سٹائن کے نظریہ کو صفائی کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ ایڈورڈ ویٹن نے کہا تھا کہ اگر آئن سٹائن کبھی اضافیت کو دریافت نہیں کرتا، تو اس کا نظریہ ہو سکتا کہ اسٹرنگ کے نظریہ کی ضمنی پیداوار کے طور پر حاصل ہو جاتا۔ عمومی اضافیت تو ایک طرح سے مفت میں حاصل ہو جاتی۔
اسٹرنگ نظریہ کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کو موسیقی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ موسیقی ایک ایسی تمثیل بیان کرتی ہے جس کے ذریعہ ہم کائنات کی قدرت کو ذیلی جوہری پیمانے اور کائناتی پیمانے دونوں پر سمجھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ شہرہ آفاق سارنگی ساز یہودی مینوہن نے ایک مرتبہ لکھا تھا، "موسیقی انتشار سے ترتیب کو جنم دیتی ہے ، لے انتشار کو ہم آہنگ ہونے کے لئے مجبور کرتی ہے، اور ہم آہنگی، ناموافقت میں مطابقت پیدا کرتی ہے۔"
آئن سٹائن نے لکھا تھا کہ اس کا وحدتی میدانی نظریہ بالآخر اس کو "خدا کی حکمت کو سمجھنے " کا موقع دے گا۔ اگر اسٹرنگ کا نظریہ صحیح ہوا، تو ہم اب دیکھ سکتے ہیں کہ خدا کی حکمت کائناتی موسیقی ہے جو دس جہتی اضافی خلاء میں گونج رہی ہے۔ جیسا کہ گوٹ فرائیڈ لئبنیز نے ایک مرتبہ کہا تھا، "موسیقی لاشعوری روح کی ایک ایسی چھپی ہوئی ریاضیاتی مشق ہے جس کا یہ اندازہ لگا رہا ہے۔"
تاریخی طور پر، موسیقی اور سائنس کے درمیان اوّلین تعلق پانچویں صدی قبل مسیح میں اس وقت پیدا ہوا جب یونانی فیثاغورسیوں نے ہم آہنگی کے قوانین کو دریافت کیا تھا اور ان کو ریاضیاتی طور پر کم کر دیا تھا۔ انہیں نے اس بات کا پتا چلا لیا تھا کہ بربط کے کھینچے ہوئے تار سے نکلنے والی سر اس کی لمبائی کی موافقت سے ہوتی ہے۔ اگر بربط کے تار کی لمبائی کو دوگنا کر دیا جائے تو سر پورے آٹھویں درجے سے کم ہو جائے گی۔ اگر تار کی لمبائی کو دو تہائی کم کر دیا جائے گا تو تال میں ہونے والی تبدیلی پانچواں حصّہ ہوگی۔ پس اس طرح سے موسیقی کے قوانین اور ہم آہنگی کو بالکل صحت کے ساتھ اعداد کے درمیان موجود نسبت سے کم کیا جا سکتا ہے۔ بغیر کسی حیرت کے فیثاغورسیوں کا نعرہ تھا ، "ہر شئے اعداد" ہیں۔ وہ اپنی اس دریافت سے اس قدر خوش تھے کہ انہوں نے "ہم آہنگی کے قانون" کا اطلاق پوری کائنات پر کرنا شروع کر دیا۔ ان کی کوششیں مادّے کی زبردست پیچیدگی کے باعث ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ بہرحال ایک طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسٹرنگ نظرئیے کے ساتھ ہم فیثاغورسیوں کے خواب کو پورا کر سکتے ہیں۔
اس تاریخی ربط پر تبصرہ کرتے ہوئے جیمی جمیز نے ایک مرتبہ کہا تھا، " موسیقی اور سائنس ایک مرتبہ اس طرح سے بیان کئے گئے تھے کہ اگر کوئی یہ تجویز کرنے کی غلطی کرتا کہ ان دونوں کے درمیان کوئی لازمی تفاوت ہے تو اس کو جاہل گردانہ جاتا تھا، لیکن اب اگر کوئی اس طرح کی تجویز دے کہ ان دونوں میں کوئی قدر مشترک ہے تو اس کو ایک جماعت فلسطینی کہے گی تو دوسری ٹھرکی۔ اور جو ان دونوں کو ہر دل عزیز رکھنے والا ہو اس کی تو خیر نہیں ۔"
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں