ہرچند وحدتی میدانی نظریہ حاصل کرنے کی پرانی تمام کوششیں ناکامی سے دو چار ہوئی ہیں، اسٹرنگ نظریہ ابھی تک تمام مشکلات کو بخیر و خوبی پار کر چکا ہے۔ اصل میں اس کا کوئی حریف ہی نہیں ہے۔ دو ایسی وجوہات ہیں جو اس بات کو بیان کر سکتی ہیں کہ کیوں اسٹرنگ نظریہ اس جگہ کامیاب ہوتا ہے جہاں دوسرے نظرئیے ناکام ہو جاتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ نظریہ ایک مبسوط جسم (تار) پر انحصار کرتا ہے، یہ ان تمام انحراف کو نظرانداز کرتا ہے جس کا نقطے جیسے ذرّات شکار ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ نیوٹن کا مشاہدہ تھا ، نقطے والے ذرّے کے پاس پہنچنے پر آس پاس قوّت ثقل لامحدود ہو جائے گی۔ (نیوٹن کے مشہور زمانہ قانون معکوس مربع میں قوّت ثقل 1/r2 کے بڑھتی ہے ، لہٰذا اس طرح سے یہ اس وقت لامحدود ہو جائے گی جب ہم کسی نقطے والے ذرّے تک پہنچتے ہیں۔ یعنی جیسے ہی r زیرو ہوگا، ثقلی قوت یکدم سے 1/0 ہو جائے گی جو کہ لامحدود ہوگی۔)
کوانٹم کے نظرئیے میں بھی قوّت اس وقت لامحدود رہے گی جب ہم کسی نقطے جیسے ذرّے کے قریب پہنچیں گے۔ عشرے پر محیط عرصے میں غیر واضح اصولوں کا ایک سلسلہ فائن مین اور دوسروں نے ایجاد کر لیا تھا تاکہ وہ اس کے ساتھ دوسری قسم کے انحراف کو قالین کے اندر دبا دیں۔ لیکن کوانٹم قوّت ثقل کے نظرئیے میں فائن مین کی زنبیل میں موجود ترکیبیں اس قابل نہیں ہیں جو نظرئیے میں موجود تمام لا محدودیت کو ختم کر سکے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نقاطی ذرّات اس قدر لامحدود طور پر چھوٹے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی قوّت اور توانائی لامحدود ہے۔
لیکن جب ہم تار کا نظریہ احتیاط کے ساتھ جانچتے ہیں تو ہمیں دو قسم کے میکانزم ملتے ہیں جو اس قسم کے انتشار کو ختم کرتے ہیں۔ پہلا میکانزم تاروں کی مقامیات کی وجہ سے ہے؛ دوسرا اس کے تشاکل کی وجہ سے ہے جس کو فوق تشاکل کہتے ہیں۔
اسٹرنگ نظرئیے کی مقامیات نقطے والے ذرّات کی مقامیات سے مکمل طور پر الگ ہے، لہٰذا دونوں کے انحراف بھی کافی مختلف ہیں۔ (اگر ایسی ہی بات کی جائے، تو کیونکہ ان تاروں کی لمبائی محدود ہوتی ہے، لہٰذا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ طاقت اس وقت لامحدود نہیں ہوگی جب ہم اس کے پاس پہنچیں گے۔ تار کے قریب قوّت صرف 1/L2 بڑھے گی ، اس میں L تار کی لمبائی ہے جو پلانک فاصلے کے لحاظ سے 10-33 کی لمبائی ہے۔ یہ L لمبائی انحراف کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔) کیونکہ تار کو نقطے کی طرح کا ذرّہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا ایک محدود حجم ہوتا ہے لہٰذا کوئی بھی اس بات کو بیان کر سکتا ہے کہ انحراف تاروں سے لتھڑے ہوئے ہیں اور اس طرح سے تمام طبیعیاتی مقداریں محدود ہو جاتی ہیں۔
ہرچند ایسا لگتا ہے کہ اسٹرنگ نظرئیے میں موجود انحراف لتھڑا ہوا ہے اور محدود ہے ، لیکن اس کو درست طور پر ریاضیاتی زبان میں بیان کرنا انتہائی مشکل ہے اور اسے صرف ترخیمی شرح تفاعل سے بیان کیا جا سکتا ہے ، جو ریاضی کی دنیا کا سب سے عجیب عمل ہے۔ اس کی تاریخ اتنی طلسماتی ہے کہ اس نے ہالی ووڈ کی فلموں میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ "اچھائی پیچھا کرے گی" ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان کی کہانی ہے جو کیمبرج کی گلیوں میں رہتا ہے ۔ یہ کردار میٹ ڈیمن نے نبھایا ہے جو فلم میں شاندار ریاضیاتی قابلیت کا حامل ہوتا ہے ۔ اپنے محلے کے کچھ بدمعاشوں سے ہاتھا پائی میں الجھنے سے پہلے وہ ایم آئی ٹی میں خلاصی کی نوکری کرتا ہے۔ ایم آئی ٹی کے پروفیسر اس وقت بھونچکا رہ جاتے ہیں جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سڑک چھاپ اصل میں ریاضی کی خدا داد صلاحیتوں کا حامل ہے جو بہت ہی آسانی کے ساتھ ان ریاضیاتی مسائل کا جواب دے دیتا ہے جو بظاہر لاینحل دکھائی دیتے ہیں۔ اس بات کا احساس کرنے کے بعد کہ اس سڑک چھاپ نے خود سے ہی اعلیٰ ریاضی سیکھ لی ہے، ان میں سے ایک نے اس کو "اگلا رامانو جان " قرار دے دیا۔
اصل میں "اچھائی پیچھا کرے گی" سرینی واسارامانو جان کی زندگی سے ماخوذ تھی جو بیسویں صدی کے عظیم ریاضی دان تھا ۔ ایک ایسا آدمی جو آخری صدی کے شروع میں ہندوستانی شہر مدراس کے قریب غربت میں اور الگ تھلگ پلا بڑھا تھا۔ علیحدہ رہنے کے باوجود اس نے خود سے ہی یورپ کی انیسویں صدی کی ریاضی کو جان لیا تھا۔ اس کا مستقبل کسی سپرنووا کی طرح تھا، مختصر عرصے کے لئے آسمان کو اپنی ریاضیاتی چمک سے منور کر دیا تھا۔ بدقسمتی سے اس کا انتقال ١٩٢٠ء میں ٹی بی سے صرف ٣٧ برس کی عمر میں ہو گیا۔ میٹ ڈیمن کی طرح اس نے ریاضی کی مساوات ترخیمی شرح تفاعل کا خواب دیکھا تھا جس کی عجیب لیکن خوبصورت ریاضیاتی خصوصیات صرف چوبیس جہتوں میں تھیں۔ ریاضی دان اب بھی رامانو جان کی اس کتاب کو حل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں جو اس کے مرنے کے بعد ملی تھی۔ رامانو جان کے کام کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ آٹھ جہتوں پر عام استعمال میں لیا جا سکتا ہے جو سیدھا ہی اسٹرنگ نظرئیے پر لاگو ہو سکتا ہے۔ طبیعیات دان نظرئیے کو بنانے کے لئے اس میں دو اضافی جہتیں شامل کرتے ہیں۔(مثال کے طور پر تقطیبی رنگین چشمے اس حقیقت کا استعمال کرتے ہیں کہ روشنی کی دو طبیعی تقطیب ہوتی ہیں؛ وہ الٹا سیدھا یا پھر اوپر نیچے مرتعش ہو سکتی ہے۔ لیکن روشنی کی میکسویل کی مساوات کا ریاضیاتی کلیہ صرف چار چیزوں سے ہی بیان کیا جا سکتا ہے۔ ان چار ارتعاش میں سے اصل میں دو تو بالکل ہی اضافی ہیں۔) جب ہم رامانو جان تفاعل میں مزید دو جہتوں کا اضافہ کرتے ہیں تو ریاضی کے جادوئی اعداد ١٠ اور ٢٦ بن جاتے ہیں جو اسٹرنگ نظرئیے کے جادوئی اعداد ہی ہیں۔ ایک طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ رمانو جان جنگ عظیم اوّل سے پہلے ہی اسٹرنگ نظرئیے پر کام کر رہا تھا!
ان ترخیمی شرح تفاعل کی شاندار خصوصیات اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ نظریہ کیوں دس جہتوں میں وجود رکھتا ہے۔ صرف ان ہی جہتوں میں وہ تمام انحراف جنہوں نے دوسرے نظریوں کو ناکامی سے دوچار کر دیا تھا ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے کہ جادو ہو گیا ہو ۔ لیکن تاروں کی مقامیات بذات خود اتنی طاقتور نہیں ہے کہ تمام انحرافات کو ختم کر دے۔ نظرئیے میں باقی رہ جانے والے انحرافات اسٹرنگ نظرئیے کی دوسری خاصیت یعنی کہ اس کے تشاکل نے ختم کر دیئے ۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں