اسٹیم سیلز کی نشوونما کیسے کی جاتی ہے؟
کس طرح سے تحقیق کے لئے عطیہ کردہ ایک اسٹیم سیل کو بار آور انسانی جنین میں پرورش کیا جاتا ہے، اس کے اندر کافی سارے اسٹیم سیلز موجود ہوتے ہیں کیونکہ خلیات کو اپنے پورے جوبن پر آنا ہے۔ سائنس دان اس میں سے خلیات کو کشید کرتے ہیں اور ان کو کاشت کرنے والی طشتری پر رکھتے ہیں۔
یہ کاشت کرنے والی طشتری مختلف چیزوں سے لبریز ہوتی ہے جو مختلف غذائی اجزاء کا ملغوبہ ہوتی ہے اس کا کام خلیات کو تقسیم ہونے اور پرورش پانے کی حوصلہ افزائی کرنا ہوتا ہے۔ جب خلیات تقسیم ہوتے ہیں تو ان کو متعدد طشتریوں میں رکھا جاتا ہے جس میں ہر ایک کوشش کرتا ہے کہ ایک جنین اسٹیم سیلز کی قطار کو مکمل کرے۔ جب ایک قطار مکمل ہو جاتی ہے تو پھر اس کو مزید تحقیق و ترقی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اسٹیم سیلز کیا ہوتے ہیں ؟
اس بات کو سمجھیں کہ کس طرح یہ بنیادی اینٹیں نئی زندگی کو وجود میں لاتی ہیں
اسٹیم سیلز (خام یا غیر متشکل خلیہ جس سے مخصوص خلیے تشکیل پاتے ہیں ) اس قدر خاص ہوتے ہیں کہ ان پر یقین کرنا مشکل ہوتا ہے، ان میں خون کے سرخ ذرّات سے لے کر دماغ کے خلیات تک جسم کے کسی بھی قسم کے خلیے کے بننے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ وہ حیات اور اس کی نمو کے لئے لازمی یوں ہیں کہ وہ بافتوں کی مرمت اور مردہ خلیات کو تبدیل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جلد کی بھرائی مسلسل جلد کے اسٹیم خلیات سے ہوتی رہتی ہے۔
اسٹیم سیلز اپنی حیات کا چکر عمومی، بغیر خاصیت کے خلیہ سے کرتے ہیں جن میں بافتوں سے مخصوص کوئی ساخت نہیں ہوتی مثلاً آکسیجن کو لے جانے کی صلاحیت۔ اسٹیم سیلز تدریجی فرق نامی ایک عمل کے ذریعہ خاص بنتے ہیں۔ اس عمل کی شروعات اندرونی اور بیرونی اشاروں کے ذریعہ ہوتی ہے۔ اندرونی اشارے ڈی این اے کی لڑیوں سے آتے ہیں جن میں خلیات کی ساخت کی اطلاعات ہوتی ہیں جبکہ بیرونی اشاروں میں قریبی خلیات کے کیمیائی مادّے شامل ہیں۔ اسٹیم سیلز اپنے آپ کی کئی مرتبہ نقول بنا لیتے ہیں - جسے ہم نمود کے نام سے جانتے ہیں - جبکہ کچھ دوسرے جیسا کہ عصبی خلیات تقسیم ہی نہیں ہوتے۔ اسٹیم خلیات کی دو اقسام ہیں جیسا کہ آکسفورڈ مارٹن اسکول کے شعبہ آکسفورڈ اسٹیم سیلز انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر پال فیئر چائلڈ کہتے ہیں : "بالغ اسٹیم سیلز کافی با اختیار ہوتے ہیں جس کا مطلب ہوا کہ وہ متعدد قسم کے خلیات پیدا کرنے کے قابل ہوتے ہیں جو ایک طرح سے دیگر سے متعلق ہو سکتے ہیں جیسا کہ ہڈی کے گودے میں موجود اسٹیم سیلز وہ خلیات بنا سکتے ہیں جو خون کو بناتا ہے، " وہ کہتے ہیں۔ "اس کے برعکس زائد قوی اسٹیم سیلز جو نمو کرتے جنین میں پائے جاتے ہیں وہ تخمینہ لگائے گئے 210 خلیات میں سے کسی ایک کو بھی بنانے کے قابل ہوتے ہیں جو مل کر انسانی جسم کو بناتا ہے۔ "
تقسیم اور تبدیل ہونے کی یہ حیرت انگیز خوبی اسٹیم سیلز کو طبی تحقیق میں ایک زرخیز ذریعہ بنا دیتی ہے۔ ایک مرتبہ ان کی حقیقی صلاحیت کا فائدہ اٹھانے کے طریقے کو قابو کر لیا جائے تو ان کا استعمال بہت ساری بیماریوں اور معذوریوں کے علاج کے لئے کیا جا سکے گا۔
خلیات کی کلوننگ
سائنس دان خلیات کو اپنا حالیہ کردار بھول کر دوبارہ سے زائد قوی خلیات بنانے کے لئے پروگرام کر سکتے ہیں - جو ابتدائی جنین کے اسٹیم سیلز سے کافی مختلف ہوتا ہے۔ ان کو آمادہ زائد قوی اسٹیم سیلز (آئی پی ایس سی ایس) کہتے ہیں اور ان کا استعمال جسم کی ان جگہوں پر کیا جا سکتا ہے جہاں ان کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہ قریبی خلیات کی خصوصیات حاصل کر لیتے ہیں۔
آئی پی ایس سی اس سے کہیں زیادہ قابل بھروسہ ہیں جتنا کہ کسی جنین کے عطیے سے بنے اسٹیم سیلز کیونکہ جسم اپنے آپ سے بنے اسٹیم سیلز کو زیادہ آسانی سے قبول کرتا ہے۔
آئی پی ایس سی انحطاطی صورتحال کا سدباب کرنے میں استعمال ہو سکتی ہے جیسا کہ لرزنے اور گنج پن کی بیماری جو ان خلیات کے مرنے کی وجہ سے ہوتی ہیں جن کی بھرائی نہیں کی جاتی۔ آئی پی ایس سی ان کمیوں کو بھر کر جسم کے نظام کو اپنے پہلے کے مقام پر لے آتی ہے۔
پروفیسر فیئر چائلڈ کہتے ہیں کہ آئی پی ایس سی بہت ساری بے مخصوص ضابطگیوں کے علاج کی تلاش میں مدد دے سکتی ہے : "ان افراد سے خلیات حاصل کر کے جو ان نادر صورتحال سے دوچار ہیں ہم تجربہ گاہ میں اس صورتحال کا نمونہ بنا سکتے ہیں اور بیماری پر استعمال ہونے والی نئی ادویات کے اثرات کی چھان بین کر سکتے ہیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں