19 ویں صدی کے دوران البرٹ آئنسٹائن نے اپنا خصوصی اضافیت کا نظریہ طبیعیات میں موجود بحران سے نمٹنے کے لئے بنایا۔ کیونکہ روشنی کی رفتار کی پیمائش کے طریقے بہتر سے بہتر ہو رہے تھے لہٰذا یہ واضح ہو گیا تھا کہ یہ دوسرے مظاہر کی طرح برتاؤ نہیں کرتی - اس کی رفتار ہمیشہ ایک جیسی ہی رہتی ہے قطع نظر کہ اس کے ماخذ اور اس کے شاہد کی اضافی حرکت چاہے جو بھی ہو۔
طبیعیات دانوں نے کافی کوششیں کی کہ مسئلے کا کوئی حل نکل آئے تاہم آئنسٹائن ہی صرف وہ شخص تھا جس نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے ہمت کی۔ اس نے دو اصولوں کی بنیاد پر طبیعیات کے قوانین نئے سرے سے لکھے یعنی روشنی کی ایک معین رفتار اور 'خصوصی اضافیت کا اصول' - یعنی کہ طبیعیات کے قوانین ان تمام مشاہدین کے لئے ایک جیسے ہی رہیں گے جو ایک ' جمودی حوالہ جاتی فریم' میں موجود ہیں (یعنی وہ صورتحال جس میں اسراع یا تخفیف اسراع ملوث نہ ہو)۔
آئنسٹائن نے دکھایا کہ جو اجسام 'اضافی' رفتاروں سے حرکت کرتے ہیں (بہت تیز رفتار جو روشنی کی رفتار سے مماثل ہے ) وہ لامحالہ طور پر اپنی ظاہری کمیت اور لمبائی بلکہ وقت کے بہاؤ میں بھی بگاڑ پیدا کر لیں گے (یہ باہر کھڑے ہوئے مشاہد کے نقطہ نظر سے ہو گا)۔ یہ بگاڑ اس وقت لامحدود ہو جائیں گے جب کوئی جسم روشنی کی رفتار سے حرکت کرنے کی کوشش کرے گا، جس سے آئنسٹائن قائل ہو گیا کہ روشنی کی رفتار، رفتار کی آخری حد ہے۔ اب آئنسٹائن کے نظریئے کی تصدیق کے لئے ایک صدی کے تجرباتی مشاہدات موجود ہیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں