پانچ سپر اسٹرنگ نظریات کے علاوہ ایک اور تنگ کرنے والا سوال بھی موجود تھا جس کو اسٹرنگ نظریئے کو حل کرنے کے چکر میں فراموش کر دیا گیا تھا۔ ١٩٧٦ء تین طبیعیات دان پیٹر وین نیو وین ہوازن ، سرگیو فیرارا اور ڈینیل فریڈ مین جو اس وقت اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک ، اسٹونی بروک میں کام کرتے تھے، دریافت کیا کہ آئن سٹائن کی اصل قوّت ثقل کا نظریہ اس وقت فوق متشاکل بن جاتا ہے جب اس میں صرف ایک میدان کا اضافہ کیا جائے یعنی کہ ایک فوق کے ساتھ اصل قوّت ثقل کے میدان کا (جس کو گریوٹینو کہتے ہیں، جس کا مطلب "چھوٹے گریویٹون " ہوتے ہیں اور ان کا گھماؤ 3/2 ہوتا ہے۔) یہ نیا نظریہ فوق قوّت ثقل کہلاتا ہے اور اس کی بنیاد تاروں کے بجائے نقاط والے ذرّات پر رکھی ہے۔ سپر اسٹرنگ کے برعکس جس میں لامحدود سروں اور گمگ کے سلسلے ہوتے ہیں، فوق قوّت ثقل میں دو ذرّات ہوتے ہیں۔ ١٩٧٨ء اکولی نورمل سپیریرے کے یوجین کریمر، جوئیل شیراک اور برنارڈ جولیا نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ فوق قوّت ثقل سب سے زیادہ عمومی طور پر گیارہ جہتوں میں لکھی جا سکتی ہے۔( اگر ہم فوق قوّت ثقل کو بارہ یا تیرہ جہتوں میں لکھیں گے تو ریاضیاتی طور پر بے قاعدگیاں نمودار ہوں گی۔) ١٩٧٠ء کے عشرے کے اواخر اور ١٩٨٠ء کی دہائی کے شروع میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ فوق قوّت ثقل شاید افسانوی وحدتی میدانی نظریہ کو حقیقت بنا دے گا۔ اس نظریئے نے تو اسٹیفن ہاکنگ کو اس قدر متاثر کر دیا تھا کہ اس نے "نظری طبیعیات کا خاتمہ" کے عنوان سے ایک افتتاحی لیکچر اس وقت دیا تھا جب اس کو کیمبرج یونیورسٹی میں ریاضی کی لوکیشین نشست ملی تھی، یہ وہی نشست ہے جو ایک زمانے میں نیوٹن کے پاس ہوتی تھی۔ لیکن جلد ہے فوق قوّت ثقل کا نظریہ بھی انہی مسائل کا شکار ہو گیا جن کا دوسروں نے سامنا کیا تھا۔ ہرچند اس میں عام میدانی نظریئے کے برخلاف کم لامحدود چیزیں تھیں لیکن حتمی تجزیے کے بعد معلوم ہوا کہ فوق قوّت ثقل محدود نہیں ہے اور یہ بھی ممکنہ طور پر بے ضابطگیوں سے لبریز ہے۔ تمام دوسرے میدانی نظریوں کی طرح (بجز اسٹرنگ نظریئے کے) اس نے بھی سائنس دانوں کو چکمہ دے دیا تھا۔
دوسرا فوق تشاکل نظریہ جو گیارہ جہتوں میں قائم رہ سکتا ہے وہ ہے فوق جھلی نظریہ۔ ہرچند تار کی صرف ایک ہی جہت ہوتی ہے جو اس کی لمبائی کو بیان کرتی ہے، فوق جھلی کی دو یا اس سے زیادہ جہتیں ہو سکتیں ہیں کیونکہ یہ سطح کو ظاہر کرتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دو قسم کی جھلیاں (دو جھلی اور پنچ جھلی) بھی گیارہ جہتوں میں خود مختار طور پر رہ سکتی ہیں۔
بہرحال فوق جھلی کے بھی اپنے مسائل ہیں؛ ان پر کام کرنا بہت ہی مشکل سمجھا جاتا ہے، اور اس کے کوانٹم کے نظریات اصل میں تو پھیل جاتے ہیں۔ بربط کے تار تو اتنے سادے ہیں کہ یونانی فیثا غورسیوں نے آج سے دو ہزار برس پہلے ان کے قانون ہم آہنگی کو دریافت کرلیا تھا، جھلی اس قدر مشکل ہے کہ ابھی تک کسی نے بھی قابل ذکر طور پر کوئی موسیقی کا نظریہ اس کی بنیاد پر نہیں بنایا۔ مزید یہ جھلیاں بھی غیر پائیدار ہیں اور بالآخر انحطاط پذیر ہو کر نقاط والے ذرّات کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ لہٰذا ١٩٩٠ء کے عشرے کے وسط تک طبیعیات دانوں کے پاس کافی پراسرار چیزیں موجود تھیں۔ دس جہتوں میں کیوں اسٹرنگ کے پانچ نظریئے کام کرتے ہیں؟ اور گیارہ جہتوں میں کیوں صرف دو اسٹرنگ نظریئے، فوق قوّت ثقل اور فوق جھلیاں کام کرتی ہیں؟ مزید براں ان سب میں فوق تشاکل موجود ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں