ایم نظریئے کی آخری ایک اور پیش بینی ہے جس کو ابھی تک نہیں سمجھا جا سکا ہے لیکن اس کے طبیعی اور فلسفیانہ نتائج ہو سکتے ہیں۔ یہ نتائج ہمیں ان سوالات کو پوچھنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا کائنات ایک ہولو گرام ہے؟ کیا کوئی "کائنات کا عکس" موجود ہے جہاں ہمارے جسم دو جہتی شکل میں موجود ہیں؟ کیا کائنات کو ایک سی ڈی میں رکھا جا سکتا ہے جس کو ہماری تفریح طبع کی خاطر چلایا جا سکتا ہو؟ ہولو گرام اب کریڈٹ کارڈز ، بچوں کے عجائب گھروں، اور تفریحی پارکوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ انتہائی شاندار ہوتے ہیں کیونکہ یہ سہ جہتی شبیہ کو دو جہتی سطح پر اتار لیتے ہیں۔ عام طور پر اگر آپ کسی تصویر کو دیکھتے ہیں اور جب اپنا سر ہلاتے ہیں تو تصویر بدلتی نہیں ہے۔ لیکن ہولو گرام ذرا مختلف ہوتا ہے۔ جب آپ ہولوگرافک تصویر کو دیکھتے ہیں اور اپنے سر کو حرکت دیتے ہیں اس وقت آپ کو تصویر بدلتی ہوئی نظر آتی ہے ایسا لگتا ہے جیسے کہ آپ اس تصویر کو کھڑکی یا سوراخ سے دیکھ رہے ہیں۔ (ممکن ہے کہ ہولو گرام بالآخر سہ جہتی ٹیلی ویژن اور فلموں کو حقیقی دنیا میں لے آئیں۔ مستقبل میں ممکن ہے کہ ہم اطمینان سے اپنے کمرے میں بیٹھ کر دیوار پر لگی اسکرین کو دیکھ رہے ہوں گے جو ہمیں دور دراز کی جگہوں کے مکمل سہ جہتی نظارے ایسے کرا رہی ہوگی جیسا کہ ٹیلی ویژن کی اسکرین اصل میں کھڑکی ہو اور ہم اس کھڑکی کے اندر سے نئے نظارے کر رہے ہوں۔ مزید براں اگر دیوار پر لگنے والی اسکرین ایک بڑے سلنڈر کی شکل کی ہوگی اور جو ہمارے کمرے کے بیچ میں رکھی ہوئی ہو تو ایسا لگے کہ ہم ایک نئی دنیا میں چلے گئے ہیں۔ ہم جہاں بھی نگاہ اٹھا کر دیکھیں گے ہم پر ایک نئی سہ جہتی حقیقت آشکار ہوگی جس کو اصلی دنیا سے الگ کرنا بہت مشکل ہوگا۔)
ہولو گرام کی اصل روح یہ ہے کہ وہ دو جہتی سطح پر وہ تمام معلومات کو رمز بند کر لیتا ہے جو سہ جہتی تصویر بنانے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ ( ہولو گرام کو تجربہ گاہ میں لیزر کی روشنی ایک حساس عکاسانہ پلیٹ پر مار کر روشنی کو اصل مبدا سے آنے والی لیزر کی کرن کے ساتھ باہمی تعامل کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
کچھ طبیعیات دانوں کے خیال میں اس کو کائنات پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے - ممکن ہے کہ ہم کسی ہولو گرام میں رہ رہے ہوں۔ یہ پراسرار پیش بینی بلیک ہول کی طبیعیات سے نکلتی ہے۔ بیکن سٹین اور ہاکنگ کے خیال میں بلیک ہول میں اطلاعات کی کل مقدار واقعاتی افق (جو کرۂ ہے ) کی سطح سے متناسب ہوتا ہے۔ یہ عجیب نتیجہ ہے کیونکہ عام طور پر جسم میں موجود ذخیرہ شدہ معلومات اس کی مقدار کے تناسب سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کتاب میں موجود معلومات اس کی جلد کے سطحی رقبے کے بجائے حجم کے تناسب سے ہوتی ہے۔ یہ بات ہم بے اختیار طور پر جانتے ہیں کیونکہ ہم کسی کتاب کی جلد کو دیکھ کر اس کے بارے میں رائے قائم نہیں کر سکتے۔ لیکن ہمارا یہ وجدان بلیک ہول کے لئے ناکام ہو جاتا ہے ۔ ہم بلیک ہول کا اندازہ باہر سے ہی دیکھ کر کرتے ہیں۔
ہم اس عجیب قیاس کو رد کر سکتے ہیں کیونکہ بلیک ہول بذات خود ہی عجیب و غریب چیز ہیں جہاں پر عمومی جبلت ختم ہو جاتی ہے۔ بہرحال ان نتائج کا اطلاق ایم نظرئیے پر بھی ہوتا ہے، جو ہمیں کائنات کی سب سے بہترین توجیہہ دے سکتی ہے۔ ١٩٩٧ء میں پرنسٹن میں واقع انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی کے جوین ملڈاسینا نے اس وقت کافی سنسنی پھیلا دی جب انہوں نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ اسٹرنگ نظریہ ایک نئی قسم کی ہولوگرافک کائنات کی جانب لے جاتا ہے۔
اس نے شروعات ایک پنچ جہتی "ضد ڈی سٹر کائنات " سے کی جو اکثر اسٹرنگ نظرئیے یا فوق قوّت ثقل نظرئیے میں نمودار ہوتی ہے۔ ایک ڈی سٹر کائنات وہ کائنات ہے جس میں کائناتی مستقل مثبت ہے جس کی وجہ سے کائنات میں اسراع ہے۔ (ہم یاد دلاتے چلیں کہ ہماری کائنات فی الوقت ڈی سٹر کائنات کی سب سے موزوں امید وار ہے، جہاں کائناتی مستقل مثبت ہے جو کہکشاؤں کو تیز سے تیز سمتی رفتار سے دور دھکیل رہا ہے۔ ایک ضد ڈی سٹر کائنات میں منفی کائناتی مستقل ہو سکتا ہے لہٰذا وہ پھٹ سکتی ہے۔) ملڈاسینا اس بات کو ثابت کیا کہ پانچ جہتی کائنات اور اس کے کنارے جو کہ چار جہتی کائنات ہے میں ثنویت موجود ہے۔ یہ کافی حیرانی کی بات ہے کہ کوئی بھی ہستی جو اس پنچ جہتی کائنات میں رہ رہی ہو گی وہ ریاضیاتی حساب سے چار جہتی مکان میں رہنے والی ہستی کے برابر ہی ہوگی۔ کوئی بھی ایسا طریقہ نہیں ہے جس میں یہ دونوں الگ ہوں۔
ہم اس بات کو ایک خام تشبیہ سے بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایک مچھلی کو سنہری مچھلی کی بوتل میں تیرتا ہوا تصوّر کریں۔ یہ مچھلیاں سمجھتی ہیں کہ ان کی بوتل حقیقت سے قریب تر ہے۔ اب ایک دو جہتی ہولوگرافک تصویر کا تصوّر کریں جس کو مچھلی کی بوتل پر ڈالا جا رہا ہے۔ یہ تصویر اصل مچھلی کی بالکل اصل نقل ہے بجز اس کے کہ یہ چپٹی ہے۔ کوئی بھی حرکت جو مچھلی بوتل میں کرے گی وہ بوتل کی سطح پر موجود چپٹی تصویر بھی کرے گی۔ وہ مچھلی جو بوتل کے اندر تیر رہی ہے اور وہ مچھلی جو چپٹی ہو کر بوتل کی سطح پر رہ رہی ہے دونوں سمجھیں گی کہ وہ اصلی مچھلی ہیں اور دوسری مچھلی ایک سراب ہے۔ دونوں مچھلیاں زندہ ہیں اور ایسا برتاؤ کر رہی ہیں کہ جیسا کہ وہ اصلی ہوں۔ کون سی چیز درست ہے؟ اصل میں دونوں ہی سچی ہیں کیونکہ ریاضیاتی طور پر دونوں ایک جیسی اور ناقابل شناخت ہیں۔
جو بات اسٹرنگ نظریاتیوں کو پرجوش کر دیتی ہے وہ یہ کہ پانچ جہتی ضد ڈی سٹر مکان کا حساب لگانا آسان ہے جبکہ چار جہتی میدانی نظریات سے کام لینا انتہائی مشکل بات ہے۔ (آج بھی عشروں کی سخت محنت کے بعد ہمارے سب سے طاقتور کمپیوٹر بھی چار جہتی کوارک کے نمونے کو نہ تو حل کر سکتے ہیں اور نہ ہی پروٹون اور نیوٹران کی کمیت کو نکال سکتے ہیں۔ کوارک کی مساوات کو خود سے کافی اچھی طرح سمجھا جا چکا ہے لیکن ان کو چار جہت میں حل کرکے پروٹون اور نیوٹران کی خصوصیات کو حاصل کرنا اس سے زیادہ مشکل ہے جتنا پہلے سمجھا جاتا تھا۔ ) عجیب ثنویت کا استعمال کرتے ہوئے ایک مقصد تو نیوٹران اور پروٹون کی خصوصیات کو معلوم کرنا ہے۔
اس ہولوگرافک خاصیت کے عملی اطلاقیات ہو سکتے ہیں مثلاً بلیک ہول کی طبیعیات میں اطلاعاتی تناقض کو حل کرنا ۔ چار جہت میں اس بات کو ثابت کرنا انتہائی مشکل کام ہے کہ اطلاع اس وقت کہیں غائب ہو گئی ہے جب ہم نے اسے بلیک ہول میں پھینکا ہے ۔ لیکن ایسا کوئی بھی مکان پنج جہتی مکان میں جڑواں ہوگا لہٰذا وہاں شاید اطلاع کبھی بھی غائب نہیں ہوگی۔ امید یہ ہے کہ وہ مسئلہ جو بے چار جہتی دنیا میں بے لگام ہے (مثلاً اطلاعاتی مسئلہ ، کوارک کے نمونوں میں کمیت کا حساب لگانا وغیرہ وغیرہ) بالآخر پانچ جہت میں بھی حل ہو جائے گا جہاں پر ریاضی کافی آسان ہے۔ اور یہ ہمیشہ سے ممکن رہا ہے کہ یہ تشبیہ اصل میں حقیقی دنیا کا ہی عکس ہے – یعنی کہ اصل میں ہم ایک ہولوگرام دنیا میں رہ رہے ہوں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں