Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 14 جون، 2016

    کیا کائنات ایک کمپیوٹر پروگرام کی طرح ہے؟




    جیسا کہ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں کہ جان وہیلر اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تمام طبیعی حقیقتوں کو خالص اطلاع تک کم کیا جا سکتا ہے۔ بینک سٹین بلیک ہول کے تصوّر کو ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے ان چھوئی سرحدوں کی طرف لے جاتے ہیں وہ سوال کرتے ہیں کیا کائنات کوئی کمپیوٹر کا پروگرام ہے؟ کیا ہم کائناتی سی ڈی میں محفوظ صرف اطلاع ہیں؟

    یہ سوال کہ آیا کیا ہم کمپیوٹر پروگرام کے اندر رہ رہے ہیں بہت ہی اچھی طرح سے فلم میٹرکس کا موضوع بنایا گیا ہے جہاں خلائی مخلوق نے تمام طبیعی حقیقتوں کو کم کرکے ایک کمپیوٹر پروگرام میں ڈال دیا تھا۔ ارب ہا انسان سمجھتے ہیں کہ وہ روز مرہ کی زندگی گزار رہے ہیں، اس بات سے بے خبر کہ یہ صرف کمپیوٹر کی پیدا کردہ دنیا ہے جبکہ ان کے اصل جسم خول میں سو رہے ہیں جہاں خلائی مخلوق ان کو بطور توانائی کے مبدا کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ 

    فلم میں یہ بات ممکن ہوتی ہے کہ چھوٹے کمپیوٹر پروگراموں کو چلایا جائے جو مصنوعی چھوٹی حقیقتیں پیدا کر دیتا ہے ۔ اگر کوئی کنگ فو ماسٹر یا ہیلی کاپٹر کا پائلٹ بننا چاہتا ہے تو صرف کمپیوٹر میں سی ڈی لگاؤ اس میں موجود پروگرام آپ کے دماغ میں منتقل ہو جائے گا اور یہ لیں! آپ نے فوری طور پر ان پیچیدہ ہنر مندیوں کو سیکھ لیا ہے۔ جب سی ڈی چل رہی ہوتی ہے تو ایک مکمل نئی حقیقت پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ ایک پیچیدہ سوال پیدا کرتا ہے کیا تمام حقیقتوں کو ایک سی ڈی میں رکھا جا سکتا ہے؟

    ارب ہا سوتے ہوئے لوگوں کو نقلی حالت حقیقی میں لانے کے لئے جو کمپیوٹر کو توانائی درکار ہوگی وہ ناقابل تصوّر ہے۔ لیکن کیا نظری طور پر مکمل کائنات ایک محدود کمپیوٹر کے پروگرام میں ذخیرہ کی جا سکتی ہے؟ اس سوال کی جڑیں نیوٹن کے قانون حرکت اور بہت ہی تجارت اور ہماری روزمرہ زندگی کے عملی اطلاقیوں تک جاتی ہیں۔ مارک ٹوئن اس بات کو کہنے کے بہت ہی زیادہ شوقین تھے، "ہر کوئی موسم کے شکایت کرتا ہے، لیکن کوئی بھی اس کے لئے کچھ نہیں کرتا ۔ "جدید تہذیب ایک خالی طوفان کو نہیں بدل سکتی لیکن طبیعیات دان ایک اور سوال کرتے ہیں آیا ہم موسم کی پیش گوئی کر سکتے ہیں؟ کیا کمپیوٹر پروگرام اس طرح سے بنایا جا سکتا ہے جو زمین کے پیچیدہ موسموں کے نمونوں کی پیشن گوئی کر سکے ۔ اس پیش گوئی کے کافی عملی اطلاق ان لوگوں کے لئے موجود ہیں جو موسم کو جاننا چاہتے ہیں ، کھیتوں میں کام کرنے والے اس کسان سے لے کر جو یہ جاننا چاہتا ہے کہ کب اپنی فصل کو لگائے ماہر موسمیات تک جو اس صدی میں ہونے والی عالمگیر حرارت کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔ 

    اصولی طور پر کمپیوٹر نیوٹن کے قانون حرکت کا استعمال کرتے ہوئے لگ بھگ خودمختاری کے ساتھ درست طور ان سالمات کو بیان کر سکتے ہیں جو موسموں کو بناتے ہیں۔ لیکن عملی طور پر کمپیوٹر پروگرام کافی خام ہیں اور وہ موسم کے بارے میں ایک یا چند دن سے زیادہ دور کی پیش گوئی نہیں کر سکتے۔ موسم کی پیش بینی کے لئے ہوا کے ہر سالمہ کی حرکت کا تعین کرنا پڑے گا۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو ہمارے موجودہ سب سے زیادہ طاقتور کمپیوٹر کی پہنچ سے بھی باہر ہے۔ ایک مسئلہ انتشاری نظرئیے اور "تتلی کے اثر" کا بھی ہے، جہاں ہلکی سی تتلی کے پر سے ہونے والی تھرتھراہٹ بھی لہریں پیدا کر دیتی ہے جو اس قدر اثر رکھتی ہے کہ سینکڑوں کلومیٹر دور موسم کو فیصلہ کن طور پر تبدیل کر دیتی ہے۔

    ریاضی دان اس صورتحال کو اس طرح سے بیان کرتے ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹا نمونہ جو موسم کو درستگی کے ساتھ بیان کر سکے وہ خود موسم ہی ہے۔ بجائے ہر سالمہ کی صغیر پیمانے پر جانچ کی جائے ، سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم آنے والے کل کے موسم کے بارے میں تخمینہ جات کے ساتھ ساتھ نمونے اور رجحان کو دیکھیں(مثلاً گرین ہاؤس اثر)۔

    لہٰذا نیوٹنی دنیا کو کمپیوٹر پروگرام کی حد تک محدود کرنا حد درجہ مشکل کام ہے، کیونکہ کافی سارے متغیر اور کافی ساری تتلیاں موجود ہیں۔ لیکن کوانٹم کے جہاں میں عجیب و غریب چیزیں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ بیکن سٹین نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ بلیک ہول کی کل اطلاع اس کے واقعاتی افق کی سطح کے رقبے کی نسبت ہوتی ہے۔ لہٰذا اس بات کو دیکھنے کا ایک بہت ہی انوکھا طریقہ موجود ہے۔ کافی طبیعیات دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سب سے ممکنہ چھوٹا پلانک فاصلہ10-33 سینٹی میٹر ہے۔ کیونکہ یہ ناقابل تصوّر طور پر چھوٹا فاصلہ ہے، مکان و زمان یہاں پر ہموار نہیں ہوتے بلکہ جھاگ کی صورت میں ہوتے ہیں جن کو ہم بلبلوں سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ ہم افقی کرۂ کے رقبے کو چھوٹے مربعوں میں تقسیم کر سکتے ہیں جس میں ہر مربع کی لمبائی پلانک حجم کی ہوگی۔ اگر ہر مربع ایک اطلاع کا ٹکڑا اپنے اندر رکھتا ہوگا اور ہم تمام مربعوں کو جمع کر لیں تو ہمیں لگ بھگ بلیک ہول میں موجود تمام اطلاعاتی جز مل جائیں گے۔ یہ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان میں سے ہر پلانک مربع اطلاع کا سب سے چھوٹا ٹکڑا ہے۔ اگر یہ بات درست ہوئی تو بیکن سٹین دعویٰ کرتا ہے کہ شاید میدانی نظرئیے کے بجائے اطلاع ہی طبیعیات کی اصل زبان ہو ۔ جیسا کہ وہ کہتا ہے،" میدانی نظریہ، اپنی لا محدودیت کے ساتھ حتمی کہانی نہیں ہو سکتا۔"

    انیسویں صدی میں جب سے مائیکل فیراڈے نے اپنا کام پیش کیا ہے اس وقت سے طبیعیات کو میدانی زبان میں پیش کیا گیا ہے جو ہموار اور مسلسل ہوتا ہے اور جو مقناطیسی قوّت، برق اور قوّت ثقل وغیرہ کو مکان و زمان کے کسی بھی نقطے پر موجود ان کی طاقت کو ناپتی ہے۔ لیکن میدانی نظریہ ٹکڑوں کے بجائے ہموار اور مسلسل ہوتا ہے۔ ایک میدان کسی بھی قسم کی قدر کو رکھ سکتا ہے جبکہ ڈیجیٹل نمبر صرف مجرد اطلاع رکھتا ہے جو صفر اور ایک پر مشتمل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آئن سٹائن کے نظرئیے میں پائی جانے والی ہموار ربڑ کی چادر اور الجھے ہوئے تار کا فرق یہی ہے۔ ربڑ کی چادر کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے لامحدود چھوٹے ذرّوں میں توڑا جا سکتا ہے ، جبکہ جال کے تار میں چھوٹے فاصلے جس کو جال کا فاصلہ کہتے ہیں۔ بیکن سٹین تجویز کرتا ہے کہ " ایک حتمی نظرئیے کا میدان سے بلکہ مکان و زمان سے تعلق ہونے کے بجائے ان اطلاعات سے ہوگا جو طبیعی عمل کے دوران آپس میں تبادلہ کرتی ہیں۔"

    اگر کائنات کو ڈیجیٹل کرکے صفر اور ایک میں محدود کر دیا جائے تو کائنات کی کل اطلاع کا حجم کیا ہوگا؟ بیکن سٹین کے تخمینے کے مطابق ایک سینٹی میٹر جتنے بلیک ہول میں 1066 اطلاع کے ٹکڑے ہو سکتے ہیں۔ لیکن جب ایک سینٹی میٹر جتنا جسم اس قدر اطلاع کو اپنے اندر رکھ سکتا ہے تو اس کے اندازے کے مطابق قابل مشاہدہ کائنات کم از کم 10100 اطلاع رکھتی ہوگی(جس کو اصولی طور پر دبا کر ایک ایسے کُرّے تک محدود کیا جا سکتا ہے جو ایک نوری برس کا دسواں حصّہ ہو۔ یہ دیوہیکل نمبر جو ایک کے بعد سو صفر رکھتا ہے گوگل کہلاتا ہے۔)

    اگر تصویر کا یہ رخ درست ہوا، تو ہمارے پاس ایک عجیب و غریب صورتحال موجود ہوگی۔ اس کا مطلب ہو سکتا ہے کہ اگرچہ نیوٹنی دنیا کو کمپیوٹر کی مدد سے نقل نہیں کیا جا سکتا( یا اس کو صرف ایک ایسے نظام کی مدد سے نقل کیا جا سکتا ہے جو خود اس نظام جتنا ہی بڑا ہو) لیکن کوانٹم کی دنیا میں شاید کائنات کو بذات خود ایک سی ڈی رکھا جا سکتا ہے! نظری طور پر اگر ہم 10100 اطلاع کے ٹکڑوں کو سی ڈی پر رکھ سکیں تو ہم کائنات میں ہونے والے کسی بھی واقعہ کو اپنے کمرے میں بیٹھے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ اصولی طور پر کوئی بھی سی ڈی میں موجود اطلاعات کو از سر نو ترتیب دے سکتا ہے اور اس طرح سے طبیعی حقیقت ایک مختلف انداز سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ ایک طرح سے جو کوئی ایسا کر سکتا ہوگا اس کے پاس مقدر کو لکھنے کی دیو مالائی طاقت موجود ہوگی۔

    (بیکن سٹین اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ کائنات کی کل اطلاعات کا حجم اس سے کہیں زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ اصل میں تو سب سے چھوٹی مقدار جو کائنات کی کل اطلاعات کو اپنے اندر سما سکے ممکن ہے کہ کائنات کے حجم ہی کی ہو۔ اگر یہ بات درست ہوئی تو ہم وہیں پہنچ جائیں گے جہاں سے شروع کیا ہے۔ وہ سب سے چھوٹا نظام جو کائنات کے نمونے کو نقل کر سکتا ہے وہ کائنات خود سے ہے۔)

    اسٹرنگ نظریہ بہرحال چھوٹے فاصلے کی اور اس چیز کی کہ آیا ہم کائنات کو ڈیجیٹل کرکے ایک سی ڈی پر سمو سکتے ہیں یا نہیں کی ایک مختلف تشریح پیش کرتا ہے۔ ایم نظریہ ایک ٹی ثنویت رکھتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ یونانی فلاسفر زینو سمجھتا تھا کہ ایک خط کو بغیر کسی حد کے لامحدود نقاط میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ آج کوانٹم طبیعیات دان مثلاً بیکن سٹین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹا فاصلہ پلانک فاصلہ ہو سکتا ہے جو 10-33 سینٹی میٹر ہوتا ہے جہاں مکان و زمان کی ساخت جھاگ اور بلبلوں جیسی بن جاتی ہے۔ لیکن ایم نظریہ ہمیں اس میں ایک نیا موڑ دیتا ہے۔ فرض کریں کہ ہم ایک اسٹرنگ نظرئیے کو لیتے ہیں اور اس کی ایک جہت کو موڑ کر ایک دائرے میں تبدیل کر دیتے ہیں جس کا نصف قطر Rہو ۔ اس کے بعد ہم ایک اور اسٹرنگ کو لے کر اس کی ایک جہت کو ایک دائرے جس کا نصف قطر 1/R ہے اس میں موڑ دیتے ہیں ۔ ان دونوں مختلف نظریات کا موازنہ کرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ دونوں ایک ہی جیسی ہیں۔ اب فرض کریں کہ R ناقابل تصوّر حد تک چھوٹا ہو گیا ہے ، پلانک لمبائی سے بھی چھوٹا ۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ طبیعیات پلانک لمبائی پر بھی اس طبیعیات جیسی ہی ہوگی جیسا کہ وہ پلانک لمبائی سے باہر ہے۔ پلانک لمبائی پر مکان و زمان غیر ہموار اور جھاگ والا ہوگا، لیکن پلانک لمبائی کے اندر کی طبیعیات اور بڑے فاصلوں پر طبیعیات ہموار اور اصل میں تو بالکل ایک جیسی ہی ہوگی۔

    اس ثنویت کو پہلی مرتبہ ١٩٨٤ء میں میرے پرانے رفیق اور اوساکا یونیورسٹی کے کیجی کیکاوا اور ان کے شاگرد مسامی یاما ساکی نے دریافت کیا تھا۔ بہرکیف اسٹرنگ نظریہ بظاہر اس بات کا نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ انتہائی چھوٹے پلانک فاصلے پر طبیعیات یکایک ختم نہیں ہو جاتی۔ اصل بات تو یہ ہے کہ پلانک لمبائی کی طبیعیات اور پلانک لمبائی سے بڑی جگہ کی طبیعیات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر یہ آشفتہ تاویل درست ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ اسٹرنگ نظرئیے کے چھوٹے فاصلے کے اندر بھی ایک مکمل کائنات وجود رکھ سکتی ہے۔ بالفاظ دیگر ہم میدانی نظرئیے کو بجائے ٹکروں کے اس کی مسلسل ساخت کے ساتھ کائنات کو بیان کرنے کے لئے پلانک توانائی کے اندر موجود رہتے ہوئے اب بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ لہٰذا شاید کسی بھی صورت کائنات کمپیوٹر کا کوئی پروگرام تو بالکل نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ایک اچھی طرح سے بیان کردہ مسئلہ ہے لہٰذا کسی بھی واقعہ کو صرف وقت ہی بتائے گا۔

    (یہ ٹی ثنویت بگ بینگ سے پہلے وینیزیانو منظر نامے کا جواز ہے جس کو میں نے پہلے بیان کیا تھا۔ اس نمونے میں بلیک ہول منہدم ہو کر پلانک لمبائی کا ہو جاتا ہے اور پھر واپس بگ بینگ کی صورت میں پھٹتا ہے۔ یہ دوبارہ پھٹنے کا عمل کوئی بے ربط نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک ہموار ٹی ثنویت پلانک لمبائی سے چھوٹے بلیک ہول اور پلانک لمبائی سے بڑی پھیلتی ہوئی کائنات کے درمیان ہوتی ہے۔)
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کیا کائنات ایک کمپیوٹر پروگرام کی طرح ہے؟ Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top