Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 15 جون، 2016

    ایم نظریئے کا انجام؟




    اگر ایم نظریہ کامیاب ہوا تو یہ اصل میں ہر شئے کا نظریہ ہوگا تو کیا یہ طبیعیات جس کو ہم جانتے ہیں اس کا خاتمہ ہوگا؟

    اس کا جواب نفی میں ہے۔ چلیں ایک مثال دیتے ہیں۔ اگر ہمیں شطرنج کے اصول معلوم ہوں تو صرف ان اصولوں کو جاننے سے ہی ہم شطرنج کے بہترین کھلاڑی نہیں بن سکتے۔ اسی طرح کائنات کے اصولوں کو جاننے کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ ہم کو سمجھ بوجھ کی زبان میں حل کی متنوع فیہ اقسام کے چیمپئن بن گئے ہیں۔

    ذاتی طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایم نظریہ کا اطلاق کائنات پر کرنا کافی جلد بازی ہوگا۔ ہر چند یہ ایک ایسی کائنات کی نئی تصویر پیش کرتی ہے جس میں کائنات بالکل نئے طریقے سے شروع ہوئی ہے۔ میرے مطابق اصل مسئلہ یہ ہے کہ حتمی نمونہ اپنی آخری شکل میں نہیں ہے۔ ایم نظریہ بہت اچھے سے ہر شئے کا نظریہ ہو سکتا ہے لیکن میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ابھی اسے مکمل ہونے میں کافی وقت لگے گا۔

    یہ نظریہ ١٩٦٨ء سے پیچھے کی طرف ارتقا پذیر ہے اور اس کی حتمی مساوات اب تک نہیں ڈھونڈی جا سکی ہے۔ (مثال کے طور پر اسٹرنگ نظریہ کو اسٹرنگ میدانی نظریہ سے بنایا جا سکتا ہے جیسا کہ میں نے اور کیکاوا نے برسوں پہلے کیا تھا۔ ایم نظریہ کا اس کا ساتھی ابھی تک نامعلوم ہے ۔) ایم نظریہ کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں سے ایک پی برین میں ماہرین طبیعیات غلطاں ہیں۔ مقالات کے سلسلے لکھے جا رہے ہیں تاکہ جھلیوں کی پریشان کر دینے والی متنوع فیہ اقسام کی فہرست تیار کی جائے۔ ڈونٹ کی شکل کی جھلیاں بھی موجود ہیں جن میں ایک سوراخ ہے، ایک ڈونٹ کافی سارے سوراخوں کے ساتھ بھی موجود ہے آپس میں ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی جھلیاں بھی ہیں اور اس طرح کی کئی دوسری ۔

    یہ بات وہ قصّہ یاد دلاتی ہے جس میں اندھے آدمی ایک ہاتھی سے ملتے ہیں ۔ جب وہ ہاتھی کے جسم کے مختلف حصّوں کو چھوتے ہیں تو ہر ایک اس کو اپنی سمجھ بوجھ کے حساب سے سمجھتا ہے۔ ایک آدمی جس نے دم کو چھوا ہوتا ہے کہتا ہے کہ ہاتھی ایک دھاگے کی طرح ہے۔ ایک دوسرا عقلمند آدمی کہتا ہے جس نے اس کے کانوں کو چھوا تھا کہ ہاتھی ایک جھلی کی طرح ہے۔ آخر میں بچا ہوا اندھا عقلمند کہتا ہے کہ پہلے دونوں غلط ہیں۔ وہ ہاتھی کے پیروں کو چھوتا ہے جو سونڈ کی طرح لگتے ہیں تو اس کے مطابق ہاتھی اصل میں تین برین کا ہوتا ہے ۔ کیونکہ وہ اندھے تھے لہٰذا وہ ایک اجتماعی تصویر کو نہیں دیکھ سکے، تمام برین کو اگر ہم جمع کریں تو وہ ایک ہی ہاتھی کو بیان کریں گی۔

    اسی طرح سے اس بات پر یقین کرنا کافی مشکل ہے کہ سینکڑوں جھلیاں جو ایم نظریے میں پائی جاتی ہیں وہ بنیادی سطح پر موجود ہیں۔ فی الوقت ہمارے پاس ایم نظرئیے کی مکمل سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ میرا اپنا نقطۂ نظر جس نے مجھے میری حالیہ تحقیق کی طرف رہنمائی کی ہے وہ یہ ہے کہ یہ جھلیاں اور دھاگے اصل میں مکان کی "تکثیف شدہ " حالت ہیں۔ آئن سٹائن نے کوشش کی کہ مادّے کو خالص جیومیٹری کی شکل میں بیان کرے ، مکان و زمان کی ساخت میں موجود کسی طرح کے پیچ کی طرح۔ مثال کے طور پر اگر ہمارے پاس بستر کی چادر موجود ہے اور اس میں کوئی پیچ بن جاتا ہے ، تو وہ پیچ ایسا برتاؤ کرے گا جیسے کہ اس کی اپنی خود کی زندگی علیحدہ سے موجود ہے۔ 

    آئن سٹائن نے الیکٹران اور دوسرے بنیادی ذرّات کو مکان و زمان کی جیومیٹری میں کسی قسم کا نقص بیان کیا ہے. ہر چند کہ وہ ناکام ہوا لیکن اس کا یہ خیال پہلے سے بھی بڑھ کر ایم نظریئے میں زندہ ہو گیا۔

    میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ آئن سٹائن صحیح راستے پر تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ذیلی جوہری طبیعیات کو بذریعہ جیومیٹری کے بنایا جائے۔ بجائے نقاطی ذرّات کے مماثل کے لئے جیومیٹرک تلاش کرنے کے بجائے جو آئن سٹائن کا طریقہ تھا ، اس بات کی کوشش کی جا سکتی ہے کہ تاروں اور جھلیوں کے جیومیٹرک مماثل کو بنایا جائے جو خالص مکان و زمان سے بنے ہوئے ہوں۔

    اس طریقہ کی منطق کو دیکھنے کے لئے طبیعیات کی تاریخ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ماضی میں طبیعیات دانوں کو جب بھی اجسام کے طیف کا سامنا کرنا پڑا، تو انھیں اس بات کا احساس ہوا کہ جڑوں میں مزید بنیادی چیزیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر جب ہم نے ہائیڈروجن گیس سے نکلنے والے طیفی خطوط کو دریافت کیا تو بالآخر ہمیں احساس ہوا کہ یہ خط جوہروں سے نکل رہے ہیں ، یہ الیکٹران کے کوانٹم چھلانگیں لگانے کی وجہ سے ہیں جب وہ مرکزے کے گرد چکر کھاتے ہوئے لگاتے ہیں۔ اسی طرح سے جب ١٩٥٠ء میں جب مضبوط ذرّات کا غلغلہ اٹھا تھا تب طبیعیات دانوں نے بالآخر اس بات کو سمجھ لیا کہ یہ سوائے کوارک کی بندھی ہوئی حالتوں کے اور کچھ نہیں ہیں۔ اور جب ان کا سامنا معیاری نمونے کے کوارک اور دوسرے بنیادی ذرّات سے ہوا تو طبیعیات دانوں کی اکثریت اس بات پر یقین رکھنے لگی کہ یہ اسٹرنگ کی تھرتھراہٹ کے اور کچھ نہیں ہیں۔

    ایم نظریئے کے ساتھ ہمارا سامنا پی برین کی تمام اقسام اور بوقلومونی کے غلغلے سے ہے۔ اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ بنیادی ہو سکتے ہیں کیونکہ اتنے سرے پی برین موجود ہیں اور کیونکہ وہ بنیادی طور پر غیر متوازن اور مختلف ہیں۔ ایک سادہ حل جو تاریخی طریقے سے میل کھاتا ہے وہ یہ بات فرض کرتا ہے کہ ایم نظریہ ایک اور سادے اصول سے پیدا ہوا ہے یعنی شاید جیومیٹری سے ۔

    اس بنیادی سوال کو حل کرنے کے لئے ہمیں اس بات کو جاننا ہوگا کہ طبیعیات کے اصول جو نظریہ کی بنیاد ہیں کوئی غیر واضح ریاضی نہیں ہے۔ جیسا کہ طبیعیات دان برائن گرین کہتے ہیں، "فی الوقت اسٹرنگ نظری اس جگہ پر ہیں جہاں پر آئن سٹائن "اصول مساوات" سے محروم تھا۔ جب سے ١٩٦٨ء میں وینیزیانو نے دوراندیشیانہ اندازہ لگایا ہے تب سے نظریئے کو ایک دریافت کے بعد دوسری دریافت اور ایک انقلاب کے بعد دوسرے انقلاب سے حاصل ہونے والی معلومات کی صورت میں ایک جگہ جمع کیا گیا ہے۔ لیکن ایک بنیادی منظم اصول جو ان دریافتوں اور نظریئے کے دوسرے تمام خصائص، تمام تر اثرات اور نظامی ساخت کو ہاتھوں ہاتھ لیتا ہے۔ ایک ایسی ساخت جو ہر انفرادی جز کی موجودگی کو مطلق طور پر لامحالہ بناتی ہے وہ اب بھی غائب ہے۔ اس اصول کی دریافت اسٹرنگ نظریئے کی پیش رفت میں ایک اہم سنگ میل ایک تاریخی لمحہ ہوگا۔ کیونکہ اس سے ہمیں نظریئے کے اندرونی طور پر کام کرنے کے انداز کو غیر معمولی طور پر شفافیت کے ساتھ دیکھنے کو ملے گا۔"

    یہ ان کروڑوں حل کے متعلق فہم فراہم کرتا ہے جو اب تک اسٹرنگ نظریئے میں پائے گئے ہیں جس میں سے ہر ایک خود مختار کائنات کو بیان کرتا ہے۔ ماضی میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ ان حل کے جنگلوں میں سے صرف ایک ہی اسٹرنگ نظریئے کا اصلی حل ہوگا۔ آج ہماری سوچ میں تبدیلی آ رہی ہے۔ ابھی تک کوئی بھی ایسا طریقہ نہیں مل سکا کہ ان کروڑوں کائناتوں میں سے کوئی ایک کائنات کو پسند کیا جا سکے۔ اس بات کا احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ اگر اسٹرنگ نظریئے کا ہم کوئی منفرد حل نہیں تلاش کر سکے تو اس کا مطلب ہوگا کہ شاید ایسا کوئی اکلوتا حل موجود ہی نہیں ہے۔ تمام حل برابر ہیں۔ کثیر کائناتیں موجود ہیں، جس میں سے ہر ایک طبیعیات کے تمام قوانین سے میل کھاتی ہے۔ یہی بات ہمیں اس طرف لے جاتی ہے جو ناکارگی کا اصول یا بشری اصول کہلاتا ہے اور ہمیں خلق کی ہوئی کائنات کی طرف لے جاتا ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ایم نظریئے کا انجام؟ Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top