خاکہ 10.16 عمودی پتھر کے ستون یوروپا کی طرز کے۔ کیونکہ یوروپا کے ہم وزن پتھروں کو اس طرح سے کھڑا کیا جا سکتا ہے کہ وہ آسمان میں موجود مشتری کے محل وقوع کی مدد سے وقت کو بتا سکیں۔
تھامس کولی اور فریڈرک چرچ جیسے لوگ ان لوگوں میں موجود ہوں گے جو دیوہیکل جہانوں کو آباد کریں گے۔ جہاں بھی بنی نوع انسان جائے گی ، یہ اپنے اختراعی نشان چاہئے سنگی نقش کی صورت میں ہوں، اہرام کی صورت میں، سنگی ستونوں کی صورت میں یا عمودی کھڑے پتھروں کی صورت میں ثبت کرتی جائے گی۔ بیرونی سیاروں اور ان کے مہتابوں کا ماحول اختراعی کو بیان کرنے کے لئے نئے طریقے پیش کرے جو جبلی طور پر انسان کا حصّہ لگیں گے۔ جے پی ایل کے رابرٹ پاپالارڈو یوروپا کی طرف اشارہ کرکے ایک مثال دیتے ہیں۔
مشتری تو آسمان میں اپنی ایک جگہ پر موجود ہوگا اور آپ اپنے باغ کی کرسی پر بیٹھ کر اس کا تبدیل ہوتا مقام دیکھ رہے ہوں گے۔ یوروپا تھوڑا سا متامل ہے لہٰذا مشتری تھوڑا سا اوپر نیچے ہوگا، اپنے گرد منتقل ہوتا ہوا کیونکہ یوروپا خود سر خم (اس کے مدار) میں کر رہا ہوگا۔ مشتری طلوع اور غروب نہیں ہوتا تاہم وہ حرکت کرتا ہے۔ شاید آپ مشتری کو آسمان میں دیکھ کر دھوپ گھڑی کی طرح یہ بتا سکیں کہ اس وقت کیا بج رہا ہے ۔ اسی دوران آپ مشتری کے ہلالی مراحل بھی آتے جاتے دیکھ سکیں گے۔ رات میں آپ کو افق پر ایک اچھا روشن مشتری دکھائی دے گا۔ دن کے دوران یہ زیادہ تر تاریک ہوگا تاہم آپ اس کے حلقے سورج کی روشنی میں دیکھ سکیں گے۔
شاید ایک دن کافی سارے انسانی فنکار کچھ اس طرح کی چیز بنا سکیں جو رابرٹ پاپالاراڈو کے یوروپا کی شمسی گھڑی کی طرح ہو، ایک عمودی کھڑے پتھروں کا سلسلہ جو افق پر مشتری کے محل وقوع کے لحاظ سے مقامی وقت کا حساب رکھ سکے۔ خلائی ٹوپوں میں موجود جدید کمپیوٹروں کے ساتھ اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوگی تاہم یہ حیرت انگیز ضرور ہوگا۔
جون لومبرگ خبردار کرتے ہیں کہ اگر ماضی کسی قسم کا اشارہ ہے تو اس کام کا اندازہ لگانا مشکل ہوگا کہ انسانی اختراع کی کون سی شکل مستقبل میں ظاہر ہوتی ہے۔
اگر آپ نشاۃ ثانیہ میں ہوتے اور یہ تصور کرنے کی کوشش کرتے کہ اکیسویں صدی میں مصوری کیسی ہوگی؛ اگر واقعی آپ حقیقی تخیلاتی ہوتے تو آپ مختلف قسم کی مصوری سوچتے۔ پانی میں حل پذیر رنگ اور تمام مصوری کا سامان جو ہمارے پاس ہے۔ لیکن کیا آپ کمپیوٹر ترسیمات کا سوچ سکتے تھے؟ میں نہیں سمجھتا کہ آپ کا دماغ کبھی بھی اس سمت میں جا سکتا تھا کیونکہ اس دوران کافی زیادہ چھلانگیں لگی تھیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت بھی ایسی لوگ موجود ہوں گے جو سویٹر کو بن رہے ہوں گے اور پانی کے رنگوں سے مصوری کر رہے ہوں گے اور ہماری تمام تیکنیک کو بچائے ہوئے ہوں گے۔ تاہم یہ چیزیں اس وقت کے فنکاروں کے لئے بھی ماضی کی یاد دلانے والی ہوں گی۔ فن ایک ایسی چیز ہے جو ٹیکنالوجی کے بدلنے کے ساتھ متروک نہیں ہوتا۔ پرانی ٹیکنالوجی تاریخی دلچسپی بن جاتی ہے تاہم نئی ٹیکنالوجی بہتر کام کرتی ہے۔ جب آپ غاروں میں بنی ہوئی جانوروں کی تصاویر کو دیکھتے ہیں تو آپ ان کو کسی بھی جانور کی کسی بھی مصور کی بنائی ہوئی تصاویر سے ملا سکتے ہیں ۔ پرانے رابطہ اور پرانے باہمی عمل متروک نہیں ہوں گے میں تو ایسا سوچنا پسند کرتا ہوں۔ ہمیشہ ایسے لوگ موجود ہوں گے جو سہ جہتی پرنٹر کے بجائے اپنے ہاتھ مٹی سے سنگوانا چاہیں گے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں