ہرچند کہ خلا نورد آئی او کی رگڑ کی حرارت اور برجیسی مقناطیسی میدان کو بطور توانائی کے منبع کے استعمال کر سکتے ہیں، اس کے علاوہ اور کون سے ذرائع ان کے لئے دستیاب ہوں گے؟ اگر کبھی انسان کسی بھی دور میں دیوہیکل سیاروں کی سلطنت میں قدم رنجا فرمائیں گے تو ان کو لازمی طور پر زمین سے اوپر رہنے کے طریقوں کو تلاش کرنا ہوگا۔
پہلی نظر میں گیسی اور برفیلے جہاں اجاڑ اور حیات سے پاک لگتے ہیں۔ تاہم یہ تاریخ میں پہلی بار ایسا نہیں ہوا ہے کہ کھوجیوں کو اس قسم کی اصلاً وسائل کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح کی صورتحال کا سامنا قدیمی پولی نیشیائی خانہ بدوشوں کو بھی تھا، جون لومبرگ کہتے ہیں۔ "جہاں تک میں جانتا ہوں بحرالکاہل اور ہوائی وسائل کے حوالے سے کافی غریب جگہیں ہیں۔ یہاں پر کوئی بڑے جانور نہیں ہیں۔ یہاں دھاتیں نہیں ہیں؛ کوئی بھی ایسی چیز یہاں پر نہیں ہے جس کو پگھلایا جا سکے۔ یہ جزیرے خوبصورت ہیں، لیکن یہاں پر کام کرنا انتہائی محدود ہے۔" اصل میں بحری ڈونگی بنانے میں بھی وسائل اور پولی نیشیائی سماج کی تمام مہارت درکار تھی۔ جزیروں پر پھیل کر آباد ہونا ان کے سماج کے ارتقاء کی معراج تھی۔"
اسی طرح سے بیرونی نظام شمسی کے لئے خلائی جہازوں کو بنانا ہوگا۔ ہمارا نقل و حمل اور بالآخر ہمارا بنایا ہوا بنیادی ڈھانچہ ہمارے بہترین انجنیئروں اور سائنس دانوں کے لئے ایک للکار کی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم وہاں پر قابل استعمال وسائل موجود ہیں۔ ان مہتابوں کو اپنے ٹھکانے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ، آباد کاروں کے پاس ہی وسائل موجود ہوں گے، پانی سے ہائیڈروجن کو بطور توانائی کے ذرائع کے حاصل کیا جا سکتا ہے جبکہ آکسیجن سانس لینے کے کام میں آئی گی۔ کاربن ڈائی آکسائڈ اشیاء کو بنانے اور ایندھن کے طور پر کام آئے گی۔ بیرونی نظام شمسی کی ماہر ہیدی ہامل کہتی ہیں "بیرونی نظام شمسی میں سورج اس قدر دور ہوگا کہ میں نہیں سمجھتی کہ آپ شمسی توانائی کا استعمال کر سکتے ہیں۔ کس کو خبر ہے؟ ہو سکتا ہے کہ آپ ضخیم چیزوں کو سورج کی روشنی جمع کرنے کے لئے خلاء میں بھیج دیں۔ تاہم اس بات کی زیادہ امید ہے کہ آپ ریڈیائی تابکار ہم جاؤں کا استعمال کریں گے - یعنی نیوکلیائی توانائی یا کسی قسم کا اثر دار کیمیائی نظام جو وہاں موجود وسائل کا بروقت استعمال کر سکے۔ وہاں پر اتنی سردی ہے کہ یہ برف تو نرم ہونے والی نہیں ہے۔ برف چٹان جیسی سخت ہوگی۔ آپ اس کو اپنے عمارتی سامان کی جگہ استعمال کر سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ چناؤ کم ہے، جس چیز کی کمی ہے وہ ہمارے اس چناؤ کے علم کی ہے۔"
خاکہ 10.10 زحل کے چھوٹے مہتابوں کی سطح کو مٹی مختلف طرح سے ڈھکتی ہے لہٰذا یہاں پر اترنے کا ماحول بھی اس کے ساتھ ہی تبدیل ہوگا۔ گہرے مادّے کا بہاؤ دیکھیں جو ان چھوٹے چند مہتابوں کی سطح پر موجود ہے۔ گھڑیال کی طرح سے اوپر سے بائیں: ہیلنی، میتھونی ، کیلپسو ، ایپیمتھیس۔
جیسا کہ آئی او کی ارضی حرارتی توانائی ہے ویسے ہی یوروپا کے گرد ایک مہلک چاندی کی پٹی ہے۔ مشتری کی تابکاری کو بطور توانائی کے ذریعہ کے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ یورپین خلائی ایجنسی میں ہونے والی ایک تحقیق جو ڈاکٹر کلاڈیو بومبارڈ ڈیلی ( جو اب میڈرڈ ٹیکنیکل یونیورسٹی میں ہیں ) کی سربراہی میں ہوئی تھی اس میں رسی کے استعمال سے برجیسی مقناطیسی کرہ کے اندر بجلی کی پیداوار کے اوپر کھوج کی گئی۔ اس کا تصور جس میں انہوں نے مدار میں اڑنے والے خلائی جہاز کے لئے توانائی کو حاصل کرنے کا سوچا تھا اس کی بنیاد ایک سادے سے اصول پر رکھی تھی یعنی برقی موٹر یا جنریٹر پر - ایک تار مقناطیسی میدان کے اندر گھومتا ہوا برقی رو کو پیدا کرتا ۔
بومبارڈیلی کی ٹیم نے اندازہ لگایا کہ مشتری کے قطب کے پاس ایک خلائی جہاز چند کلوواٹ کی توانائی دو چھوٹے (تقریباً ٣ کلومیٹر طول) کی رسی سے پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر ان رسیوں کی لمبائی ٢٥ کلومیٹر کردی جائے تو توانائی کا حصول میگاواٹ میں پہنچ جائے گا۔ گلیلائی چاندوں پر کسی بھی ٹھکانے کا فاصلہ مشتری سے اس سے کہیں زیادہ ہوگا جو بومبار ڈیلی کی تحقیق میں استعمال ہوا ہے اس میں انہوں نے سب سے قریبی فاصلہ مشتری کے 1.3 نصف قطر کا فرض کیا ہے۔ دور دراز مہتابوں پر توانائی پیدا کرنے کے لئے لمبی رسیوں کی ضرورت ہوگی تاہم ان رسیوں کو چاند کی سطح پر بچھا دیا جائے گا جس طرح سے زیر سمندر میں بچھایا جاتا ہے۔ اس طرح سے مشتری کی ایک سب سے مہلک خاصیت کو مستقبل کے آباد کاروں کے فائدے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
دیوہیکل جہانوں کے مہتابوں پر پانی چٹان کی طرح ٹھوس ہوتا ہے۔ اس کا بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ جس طرح سے شمالی امریکا کے باشندے برف کو اپنے گھر جن کو اگلو کہتے ہیں بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں، اسی طرح سے خلا نورد برف کی اینٹیں بنا کر مختلف عمارتوں کو تعمیر کر سکتے ہیں۔ بیرونی نظام شمسی کے حالات میں برف معماری کے لئے زبردست کام کرے گی۔ صرف ایک انتباہ ہے – اس کو اندرونی حرارت سے بچانا ہوگا۔ عام کمرے کے درجہ حرارت پر اور 21 ڈگری پر دیواریں اور فرش پگھلنا شروع ہو جائے گا۔" آپ کو چیزوں کو ایک دوسرے سے حاجز کا استعمال کرتے ہوئے الگ رکھنا ہوگا،" لاک ہیڈ مارٹن کے بین کلارک کہتے ہیں۔ " ٹائٹن پر جانا صرف اس لئے مشکل ہوگا کہ وہاں کا کرہ فضائی دبیز ہے۔ تاہم ہم زمین پر بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ شمالی قطب اور انٹارکٹکا میں ٹھنڈ سے بچانے کے لئے عمارت کو ماحول سے الگ کر دیتے ہیں۔" ایک اور طریقہ پھلانے والے ٹھکانوں کے بنانے کا ہے، اے پی ایل کے رالف لورینز کہتے ہیں۔
ٹائٹن پر آپ ایک پھولے ہوئے گنبد میں اچھی طرح رہ سکتے ہیں۔ آپ اس کو نیچے لنگر انداز کرنا چاہیں گے۔ ٹائٹن کی سطح پر ذرّات کو ادھر ادھر کرنے کے لئے کافی ہوا موجود ہوتی ہے، جیسا کہ ریت کے ٹیلوں سے بھی معلوم ہوتا ہے لہٰذا بڑے پھولے ہوئے مسکن کو کھینچنے کے لئے کافی بڑا علاقہ مل سکتا ہے۔ لہٰذا آپ اپنے خیمے کے اطراف میں کھونٹے گاڑھ سکتے ہیں اس طرح سے آپ کے پاس کافی مہین دروازوں والا گنبد بن جائے گا۔ اس کو شہابی ٹکراؤ اور اس طرح کی کسی چیز سے نمٹنا نہیں پڑے گا کیونکہ آپ کے اوپر موجود بڑا کرہ فضائی سطح کو اس طرح کی چیزوں سے محفوظ رکھے گا۔ آپ کو صرف کرنا یہ ہوگا کہ اس کو حاجز کرکے دباؤ والے ماحول کو زمین کو پگھلانے سے روکنا ہوگا۔ ہم یقین سے نہیں جانتے کہ ٹائٹن کی سطح کے زیادہ تر اجزاء کیا ہیں۔ کچھ جگہوں پر شاید یہ پانی کی برف ہو سکتی ہے۔ اکثر جگہوں پر یہ نامیاتی لگتی ہے، یہ وہ چیزیں ہیں جو کمرے کے درجہ حرارت پر نرم بھی ہو سکتی ہیں یا پگھل بھی سکتی ہیں۔ لہٰذا آپ کو اپنا ٹائٹن کا گنبد حاجز بنانا ہوگا بس صرف آپ کو یہی کام کرنا ہوگا۔
پھولے ہوئے ٹھکانے دوسرے خالی ماحول والے مشتری، زحل ، یورینس اور نیپچون کے مہتابوں پر بھی کام آ سکتے ہیں۔ جانسن اسپیس سینٹر ایک عشرے سے بھی زیادہ کے عرصے سے باضابطہ طور پر چاند کی سطح پر آبادکاری کے بارے میں تحقیق میں لگا ہوا ہے۔ کچھ بہتر حاجز کے ساتھ اس ٹیکنالوجی کا اطلاق براہ راست بیرونی نظام شمسی میں کیا جا سکتا ہے۔
پانی کو چھوڑ کر گلیلائی مہتابوں کی سطح پر دوسرے وسائل بھی موجود ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کیلسٹو کے پاس مستقبل کے آباد کاروں کے لئے کافی اہم وسائل ہو سکتے ہیں۔ اس کے تاریک اجزاء شاید حیات کو سہارا دینے والے لازمی اجزاء جیسا کہ نائٹروجن، فاسفورس اور کاربن پر مشتمل ہوں۔ کچھ سلیکان اور عام دھاتیں بھی وہاں موجود ہوں۔ تاہم ان کے الگ ذخیروں کے بجائے وہ ایک دوسرے میں ملے ہوئے ہوں گے۔ گینی میڈ اور یوروپا کی سطح کچھ زیادہ خالص پانی کی لگتی ہے جبکہ چٹانی آئی او پر مسافروں کو گندھک کے مرکبات، لاوے میں قلموں کی صورت میں سیلیکٹ اور نمک مل سکتے ہیں۔
ایک سیارچے میں سب سے زیادہ وسائل لگتے ہیں اور یہ زحل کا دیوہیکل مصاحب ٹائٹن ہے، جے پی ایل کے کیون بائینز کہتے ہیں۔ " آپ کے پاس نہ صرف جھیلوں میں تمام ہائیڈرو کاربن موجود ہیں بلکہ آسمان سے بھی نازل ہوتی ہیں۔ لہٰذا سطح پر آپ کہیں بھی جائیں آپ کو ہائیڈروکاربن ملیں گے۔ اگر آپ ہائیڈروکاربن کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنا چاہئیں تو آپ کو ان جھیلوں پر جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ٹائٹن وہ جگہ ہوگی جہاں آپ اپنا ٹھکانہ بنائیں گے۔ آپ کے پاس موجود پانی کو توڑ کر آکسیجن ، ہائیڈروجن مل جائے گی جبکہ کاربن میتھین وہاں پہلے ہی سے موجود ہے لہٰذا آپ تمام مادّے کا استعمال کرتے ہوئے ایندھن کو بہت آسانی کے ساتھ بنا سکتے ہیں۔" ایک فضائیات کا تجزیہ نگار کہتا ہے، " حیات، پلاسٹک اور صنعتی سماج کی تمام بنیادی چیزیں وہاں پر موجود ہیں۔"[1]
خاکہ 10.11 شمالی قطب کی نولاگویک ہوٹل کی طرح کی عمارت جو کوٹزیبیو ، الاسکا میں ہے اس کو لازمی طور پر زیر زمین مستقلاً منجمد رہنے والی برف سے الگ رہنا پڑتا ہوگا تاکہ اسے پگھلنے سے بچایا جا سکے۔ اسپرنگ جیسے ریڈی ایٹر کو دیکھیں جنھیں بنایا ہی اس لئے گیا ہے تاکہ وہ اضافی حرارت کو نیچے نکلی ہوئی بنیاد سے ہٹا سکیں، جس کو براہ راست فرش سے تعلق نہ رکھنے کی وجہ سے نوک کی صورت میں الگ کر دیا ہے۔
[1] ۔رابرٹ زبرین سے ہونے والی ذاتی گفتگو۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں