حیات کی تخلیق کرنے کے لئے ہمارے سیارے کو نسبتاً کروڑ ہا برس تک پائیداری درکار تھی ۔ لیکن ایسی دنیا جو کروڑ ہا برس تک پائیدار ہو اس کو بنانا حیرت ناک طور پر کافی مشکل ہے۔
شروع اس طریقے سے کرتے ہیں جس میں جوہر کی تخلیق ہوتی ہے، یہ بات دھیان میں رہے کہ پروٹون کی کمیت نیوٹران کی کمیت سے تھوڑی کم ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیوٹران کو بالآخر انحطاط پذیر ہو کر پروٹون میں بدلنا ہوگا جو توانائی کی پست حالت رکھتا ہے۔ اگر پروٹون صرف ایک فیصد بھاری ہوتا، تو وہ انحطاط پذیر ہو کر نیوٹران میں بدل جاتا، اور تمام مرکزے غیر پائیدار ہو کر پاش پاش ہو جاتے۔ جوہر بکھر جاتے اور حیات ممکن نہ ہو پاتی۔
ایک اور کائناتی حادثہ جو حیات کو ناممکن بنا سکتا ہے وہ یہ کہ پروٹون پائیدار ہوتے لیکن انحطاط پذیر ہو کر ضد الیکٹران میں نہیں بدلتے۔ تجربات نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ پروٹون کی حیات اصل میں فلکیاتی پیمانے پر ہے، یعنی کہ کائنات کی حیات سے بھی لمبی۔ پائیدار ڈی این اے کی تخلیق کے لئے پروٹون کو کم از کم کروڑ ہا برس تک پائیدار ہونا چاہئے تھا۔
اگر مضبوط قوّت تھوڑی سی بھی کمزور ہوتی، ڈیوٹیریئم جیسے مرکزے بکھر جاتے، اور کائنات میں موجود کوئی بھی عنصر ستاروں کے اندرونی قلب میں تالیف نہیں ہو پاتا ۔ اگر نیوکلیائی قوّت ذرا بھی زیادہ مضبوط ہوتی تو ستارے اپنا نیوکلیائی ایندھن جلد پھونک دیتے، اور حیات کا ارتقا نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر ہم کمزور قوت کی طاقت میں تغیر کریں تب بھی ہمیں یہی معلوم ہوگا کہ حیات کا وجود پانا اس صورت میں بھی ناممکن ہے۔ نیوٹرینو ز جو کمزور نیوکلیائی قوّت کے ذریعہ عمل کرتے ہیں وہ پھٹتے ہوئے سپرنووا سے توانائی کو باہر نکالنے کے لئے بہت اہم ہوتے ہیں۔ یہ توانائی ہی اصل میں لوہے سے بھاری عناصر کو بنانے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ اگر کمزور قوّت تھوڑی سے بھی زیادہ کمزور ہوتی تو نیوٹرینوز بمشکل ہی تعامل کر پاتے مطلب سپرنووا لوہے سے بھاری عناصر کو نہیں بنا سکتے تھے ۔ اگر کمزور قوّت تھوڑی سے بھی مضبوط ہوتی، تو نیوٹرینوز ستارے کے قلب سے صحیح طور سے فرار نہیں ہو پاتے اور نتیجتاً ان بھاری عناصر کی تخلیق نہیں ہو پاتی جس سے ہمارے جسم اور ہماری دنیا بنی ہے ۔
اصل میں تو سائنس دانوں نے ایک لمبی فہرست اس طرح کے " خوش گمان کائناتی حادثات" کی بنائی ہوئی ہے۔ جب اس متاثر کن فہرست کا سامنا کیا جاتا ہے تو ہمیں یہ جان کر کافی جھٹکا لگتا ہے کہ کتنے سارے شناسا کائناتی مستقلات ایسے ہیں جن کی مقدار اتنی نپی تلی ہے جس کی وجہ سے ہی حیات کی نمو ممکن ہو سکی ہے۔ اگر اس میں سے کسی بھی ایک بھی حادثے کو تبدیل کر دیا جائے، تو ستارے کبھی تشکیل ہی نہ پا سکتے ، کائنات بکھر جاتی، ڈی این اے کبھی وجود نہیں پاتے، ہماری جانی پہچانی زیست ناممکن ہو جاتی، زمین پلٹ یا منجمد ہو جاتی علیٰ ہذا القیاس ۔
ماہر فلکیات ہو روس اس بات پر زور دینے کے لئے کہ یہ صورتحال کس قدر شاندار طور پر حیرت انگیز ہے ، بوئینگ 747 ہوائی جہاز سے اس کا موازنہ کرتے ہیں جو کسی کباڑ خانے میں طوفان سے ٹکرانے کے بعد خود سے وجود میں آ جائے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں