بگ بینگ کی تلاش - جان گریبن
باب اوّل - 1
وقت کا تیر (The Arrow of Time)
ہماری دنیا کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ دن کے بعد رات آتی۔ رات کا سیاہ آسمان ہمیں بتاتا ہے کہ مجموعی طور پر کائنات ایک ایسی خنک و خالی جگہ ہے جہاں کچھ دور بکھرے ہوئے گرم اجسام بطور ستارے موجود ہیں۔ دن کی روشنی بتاتی ہے کہ ہم کائنات کے ایک ایسے غیر معمولی حصّے میں رہتے ہیں جو خلاء میں ان بکھرے ستاروں میں سے ایک ستارے کے قریب ہے، یعنی ہمارا سورج، توانائی کا منبع جو زمین اور سے کہیں دور خلاء میں تیرتا رہتا ہے۔ دن و رات کا سادہ مشاہدہ کائنات قدرت کے کچھ سب سے زیادہ بنیادی رازوں اور حیات و کائنات کے درمیان موجود رشتے سے پردہ اٹھاتا ہے۔
اگر کائنات ابد تک وجود رکھتی اور اس میں اتنے ہی تعداد میں ستارے اور کہکشائیں موجود ہوتے جتنی کہ آج موجود ہیں اور بعینہ اسی طرح سے کم و بیش خلاء میں تقسیم ہوتے تو ممکنہ طور پر ان کی صورت ایسی نہ ہوتی جیسی کہ ہم آج مشاہدہ کرتے ہیں۔ ہمیشہ سے موجود اپنی توانائی کو انڈیلتے ہوئے ستارے اپنے درمیان کی جگہ کو روشنی سے بھر دیتے، اور پورا آسمان سورج جیسی جگمگاہٹ سے روشن ہو جاتا۔ یہ حقیقت کہ آسمان رات کو سیاہ ہوتا ہے اس بات کا ثبوت ہے کہ جس میں کائنات ہم رہتے ہیں وہ تغیر پذیر ہے، اور یہ ہمیشہ سے ایسی نہیں ہے جیسی کہ ہمیں آج نظر آتی ہے۔ ستارے اور کہکشائیں ازل سے قائم نہیں ہیں، اصل میں یہ تو حال ہی میں وجود میں آئی ہیں، ان کو تو اتنا وقت بھی نہیں ملا کہ خالی جگہ کو اپنی روشنی سے ہی بھر دیں۔ فلکی طبیعیات دان جو ستاروں کے قلب میں نیوکلیائی تعامل سے پیدا ہونے والی توانائی کی پیدائش کے طریقہ کا مطالعہ کرتے ہیں، وہ بتا سکتے ہیں کہ ایک عام ستارہ اپنی زندگی کے دوران کتنی روشنی خلاء میں پھینک سکتا ہے۔ جوہری ایندھن کی فراہمی محدود ہے، اور وہ توانائی جو ایک ستارہ ہائیڈروجن کو ہیلیئم میں ضم کرکے پیدا کر سکتا ہے لازمی طور پر وہ بھی محدود ہی ہے۔ بلکہ اس وقت جب کہکشاں میں موجود تمام ستارے اپنی حیات زندگی سے گزر چکے ہوں گے اور ٹھنڈے ہوتے ہوئے انگارے بن جائیں گے تو خلاء اور رات کا آسمان بھی تاریک ہو جائے گا۔ اتنی توانائی دستیاب ہی نہیں ہے کہ کہ وہ رات کے آسمان کو روشن کر سکے۔ دن کے بعد آنے والی رات کے انوکھے اور عجیب مشاہدے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ آسمان تاریک ہے، بلکہ اس میں بہت زیادہ روشن ستارے نہیں ہیں۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ کائنات اتنی کم عمر (کونیاتی پیمانے کے لحاظ سے) کے روشن مینار تاریکی میں رکھے؟
یہ پہیلی پوری طاقت کے ساتھ دن کے وقت سورج کی روشنی میں واپس گھر آ جاتی ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں دنیا کی چیزوں کی بنیادی خاصیت یہ ہے کہ وہ حالت توازن میں جانے کو بیتاب رہتی ہیں یہ کائنات میں ایک عدم توازن کو پیش کرتا ہے۔ اگر ایک برف کے مکعب کو گرم کافی کے کپ کے اوپر رکھ دیا جائے، تو مائع ٹھنڈا ہو جائے گا اور برف گرم ہونے کی وجہ سے پگھل جائے گی۔ آخر میں ہمارے پاس صرف نیم گرم مائع بچا رہ جائے گا جس کا درجہ حرارت یکساں حالت توازن میں ہوگا۔ سورج ایک ایسی حالت میں پیدا ہوا ہے جس میں بڑی مقدار کی توانائی بہت ہی کم جگہ گھیرنے والے مادّے میں موجود ہے، یہ بھی اسی کام میں مصروف ہے، اپنی ذخیرہ شدہ توانائی کو کائنات کو گرما نے کے لئے (انتہائی معمولی مقدار میں) دے رہا ہے، اور بالآخر یہ ٹھنڈا ہو کر سرد خلاء کے ساتھ حالت توازن میں آ جائے گا۔ لیکن 'بالآخر'، سورج کی طرح کے ستارے کی عمر کئی سینکڑوں کروڑ ہا (کئی ارب ) برس کی ہوتی ہے، اور اسی عمر کے دوران خلاء میں توانائی کو انڈیلنے کی وجہ سے حیات ہمارے سیارے پر وجود پانے کے قابل ہوئی ہے (اور شاید یہ دوسرے لاتعداد سیاروں پر بھی موجود ہو جو لاتعداد ستاروں کے گرد مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں)۔
کیونکہ دن کے بعد رات نمودار ہوتی ہے لہٰذا ہمیں معلوم ہے کہ کائنات میں کافی جگہیں ایسی ہیں جہاں پر حالات توازن میں نہیں ہیں۔ حیات کا انحصار اس طرح کی جگہوں کی موجودگی پر ہی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کائنات بدل رہی ہے، کیونکہ یہ ابد تک اس حالت میں نہیں رہ سکتی جس حالت میں ہم اس کا ابھی مشاہدہ کر رہے ہیں اور آسمان ابھی تک سیاہ ہی ہے۔ ہماری جانی پہچانی کائنات پیدا ہوئی تھی اور اس کا حتمی مقدر موت ہی ہے۔ اور ہم اس سادہ مشاہدے سے جانتے ہیں کہ وقت کی ایک سمت ہے، ایک تیر جو کونیاتی ماضی کے راستے سے نکلتا ہوا کونیاتی مستقبل تک جا رہا ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں