اعلیٰ قانون (The supreme law)
کائنات کی یہ تمام خصوصیات اس چیز سے بندھی ہوئی ہیں جس کو 1920ء اور 1930ء کی دہائی کے عظیم برطانوی ماہر فلکیات آرتھر ایڈنگٹن قدرت کا اعلیٰ قانون (سپریم لا) کہتے ہیں۔ اس کو حر حرکیات کے دوسرے قانون (Second law of thermodynamics)کا نام دیا گیا ہے، اور یہ انیسویں صدی کے دوران دریافت ہوا تھا، اس کی دریافت کائنات کا فلکیاتی مشاہدہ کرکے نہیں بلکہ مشین کی کارکردگی کی عملی تفتیش کرکے کی گئی تھی، یہ دریافت صنعتی انقلاب - بھاپ کے انجن کے دوران بہت ہی اہمیت کی حامل تھی۔
ویسے اس طرح کی بات کافی عجیب لگتی ہے کہ ایسا اعلی اصول کیسے 'دوسرے' درجے پر آسکتا ہے، تاہم حر حرکیات کا پہلا قانون بہت ہی سادہ ہے، یعنی کہ حرارت توانائی کی ایک قسم ہے، یہ اصول کام کرتا ہے اور حرارت قابل مبادلہ ہے، تاہم کسی بھی بند نظام میں کل توانائی ہمیشہ ایک جیسی ہی رہے گی - مثال کے طور اگر کافی کا کپ ایک بے عیب حاجز (انسولیٹر) ہو، تو کپ میں ڈالی ہوئی برف گرم ہوکر پگھلے گی اور گرم کافی کو ٹھنڈا کرے گی، تاہم کپ کے اندر موجود کل توانائی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ یہ چیز بذات خود ہی صنعتی انقلاب کا اہم شعور و فہم تھا، تاہم دوسرا قانون کافی دور رس نتائج کا حامل ہے۔[1]
خاکہ 1.1 حرارت ہمیشہ فرق کو کم کرنے میں لگی رہتی ہے۔ ایک برف کا مکعب (کیوب) جو گرم مائع کے جگ کے اوپر رکھا جائے گا وہ پگھلے گا اور مائع ٹھنڈا ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم دیکھتے ہوں کہ ٹھنڈے مائع سے اچانک سے برف کا مکعب (کیوب) بن جائے اور باقی مائع گرم ہو جائے۔ یہ حر حرکیات کا دوسرا قانون ہے جو وقت کے تیر سے متعلق ہے۔
دوسرے قانون کو بیان کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں، تاہم ان سب کو کائنات کی پہلے بیان کردہ خصوصیت سے نمٹنا ہوگا۔ سورج کی طرح کا ستارہ خلاء کی خنکی میں حرارت کو انڈیل رہا ہے، گرم مائع پر رکھا ہوا برف کا مکعب پگھلتا ہے۔ ہم نے کبھی ایسا ہوتے ہوئے نہیں دیکھا کہ نیم گرم کافی سے کوئی برف کا مکعب (کیوب) اچانک بن جائے جبکہ باقی موجود مائع گرم ہو جائے، جبکہ دونوں حالتوں (برف کا مکعب + گرم کافی) اور ( نیم گرم کافی) میں توانائی کی ایک جیسی ہی مقدار موجود ہے۔ حرارت ہمیشہ گرم جسم سے ٹھنڈے کی طرف بہتی ہے، ٹھنڈے سے گرم کی طرف نہیں۔ اگرچہ کل توانائی کی مقدار بدلی نہیں ہے، تاہم توانائی کی تقسیم کچھ مخصوص طریقوں سے ناقابل تغیر طور پر ہی بدلی جا سکتی ہے۔ فوٹون (روشنی کے ذرّات) خلاء سے نمودار ہو کر سورج میں نہیں جاتے کہ اس کو گرم کر دیں یا اس کے قلب میں چلنے والے جوہری تعامل کو الٹ دیں۔
اس طرح سے کہنے سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ حر حرکیات کا دوسرا قانون وقت کے تیر کو بھی بیان کرتا ہے، اور یہ وہی تیر ہے جس کو رات کے تاریک آسمان کا مشاہدہ کرکے وقت کے تیر کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ دوسرے قانون کی ایک اور توجیح میں اطلاعات بھی شامل ہے - جب چیزیں بدلتی ہیں تو ان میں بے ترتیبی کی حالت میں چلے جانے کا قدرتی میلان موجود ہوتا ہے۔ نظام (برف کے مکعب + گرم کافی) میں ایک ساخت موجود ہوتی ہے جو نظام میں گم ہو جاتی ہے (نیم گرم کافی)۔ روزمرہ کے لحاظ سے چیزیں فرسودہ ہو جاتی ہیں۔ ہوا اور موسم پتھروں کو ریزہ ریزہ کر دیتا ہے اور متروک گھروں کو پتھروں کے ڈھیر میں تبدیل کر دیتے ہیں؛ کبھی ہم یہ نہیں سوچتے کہ یہ دھول سے صاف ستھری اینٹوں کی دیواروں کو بنائیں گے۔ طبیعیات دان قدرت کی اس خاصیت کو ریاضیاتی طور پر ایک تصور سے بیان کرتے ہیں جو ناکارگی (اینٹروپی) کہلاتی ہے، اس کے بارے میں ہم سب سے بہتر اندازہ یہ کہہ کر لگا سکتے ہیں کہ یہ اطلاع کی پیمائش کا منفی پیمانہ یا پیچیدگی ہو سکتا۔[2] نظام میں ترتیب میں کمی سے ناکارگی میں اضافہ ہوگا۔ دوسرا قانون کہتا ہے کہ ایک بند نظام میں، ناکارگی ہمیشہ بڑھے گی (یا بہت ہوا تو ایک ہی سطح پر رہے گی) جبکہ پیچیدگی ہمیشہ کم ہوگی۔
ناکارگی کا تصور دوسرے قانون کے لئے سب سے بہتر اور صاف تصویر پیش کرنے میں مدد کرتا ہے، تاہم حقیقی طور پر یہ اس کا استعمال ریاضیاتی طبیعیات دان ہی کر سکتے ہیں۔ روڈولف کلاوسیوس جو ایک جرمن طبیعیات دان اور حر حرکیات کے بانیان میں سے ایک تھا، اس نے 1865ء میں پہلے اور دوسرے قانون کا خلاصہ اس طرح پیش کیا: دنیا کی توانائی مستقل ہے؛ دنیا کی ناکارگی بڑھ رہی ہے۔ یکساں طور پر مختصراً روز مرہ بول چال میں استعمال ہونے والا نامعلوم جدید محاورہ ہے: آپ عدم سے کوئی چیز حاصل نہیں کر سکتے؛ بلکہ آپ کسی چیز کو دو برابر حصّوں میں بھی نہیں توڑ سکتے۔ یہ ناکارگی اور دوسرے قانون کی وجہ سے الٹ بات ہے، اس کے بارے میں اس طرح سے سوچا جا سکتا ہے جیسے کہ یہ دنیا میں موجود کارآمد توانائی کی دستیابی کے بارے میں کچھ بتا رہا ہو۔ پیٹر اٹکینز اپنی معرکۃ الآراء کتاب دوسرا قانون میں اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ کیونکہ کل توانائی محفوظ ہے، لہٰذا ہمارے توانائی کے استعمال سے پیدا ہونے والے توانائی کے 'بحران' جیسی کوئی صورتحال مشکل سے ہی وجود رکھتی ہوگی۔ جب ہم تیل و کوئلہ جلا لیں گے تو ہم میں سادہ طور پر ایک (کارآمد) توانائی کو ایک حالت سے دوسری حالت (کم کارآمد، کم مرتکز)میں بدل دیا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم کائنات کی کل ناکارگی کو بڑھا رہے ہوں گے اور توانائی کے معیار کو پراگندہ کر رہے ہوں گے۔ ہم جس چیز کا سامنا کرنے جا رہے ہیں وہ توانائی کا بحران نہیں بلکہ ناکارگی کا بحران ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ حیات بڑھتی ہوئی ناکارگی کی ایک استثناء نظر آتی ہے۔ زندہ جاندار - ایک درخت، ایک جیلی فش، ایک انسان - سادہ کیمیائی عناصر اور مرکبات کھاتے ہیں اور اس کو انتہائی پیچیدہ ساخت میں انتہائی منظم طور پر از سرنو ترتیب دیتے ہیں۔ تاہم وہ ایسا ایسی صورت میں کر سکتے ہیں جب وہ سورج سے آنی والی توانائی کا استعمال کر سکیں۔ ایک جاندار کو تو چھوڑ ہی دیجئے، زمین بھی ایک بند نظام نہیں ہے۔ سورج مسلسل اعلیٰ معیار کی توانائی خلاء میں انڈیل رہا ہے؛ زمین پر موجود حیات اس میں سے کچھ کو حاصل کرتی ہے (کوئلہ اور تیل بھی ذخیرہ شدہ شمسی توانائی کی ایک صورت ہیں، جن کو کروڑ ہا برس پہلے زندہ جانداروں نے حاصل کرکے محفوظ کر دیا تھا)، اور اس کا استعمال کرکے پیچیدہ، کم معیار کی توانائی کائنات کو واپس کر دیتی ہے۔ ایک انسانی زندگی، یا پھول، یا ایک چونٹی جو مقامی ناکارگی کو کم کرتی ہے اس کا ازالہ اس وسیع ناکارگی میں اضافہ سے ہو جاتا ہے جو سورج اس سرگرمی میں پیدا کرتا ہے جس میں توانائی پیدا ہوتی ہے جس پر جانداروں کا انحصار ہوتا ہے۔ نظام شمسی کو اگر ہم بحیثیت مجموعی دیکھیں تو ناکارگی ہمیشہ بڑھے گی۔
پوری کائنات - جس کو توضیح کے لحاظ سے ایک بند نظام ہونا چاہئے - ایک ہی کشتی میں سوار ہے۔ ستاروں کے اندر مرکوز، 'مفید' توانائی پوری خلاء میں انڈیلی جا رہی ہے جہاں پر وہ ہمیشہ نہیں رہے گی۔ قوّت ثقل - جو ستاروں کو کھینچنے میں مصروف ہے اور ان کو وہ توانائی فراہم کرتی ہے جو ان کو اندر سے اس نقطہ تک گرم کرتی ہے جہاں جوہری تعامل شروع ہو جاتا ہے - اور حر حرکیات کے درمیان ایک کشمکش جاری ہے جس میں دونوں توانائی کی تقسیم کو دوسرے قانون کے تحت لانے میں مصروف ہیں۔ جیسا کہ ہم دیکھیں گے ، کائنات کی کہانی اصل میں قوّت ثقل اور حر حرکیات کے درمیان ہونے والی جدوجہد کی کہانی ہے۔ جب پوری کائنات ایک یکساں درجہ حرارت پر آ جائے گی، تو پھر کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، کیونکہ حرارت کا بہاؤ ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں ہوگا۔ تاوقتیکہ اس میں اتنا مادّہ موجود ہو جو اس کو حتمی عظیم چرمراہٹ میں منہدم کر دے، اومیگا نقطہ، ہماری کائنات کا مقدر بنائے گا۔ کائنات میں کسی قسم کی تنظیم باقی نہیں رہے گی، سادہ طور پر ہر جگہ یکساں افراتفری موجود ہوگی جس میں زمین جیسی کسی چیز کو بنانے کا عمل ناممکن ہوگا۔ انیسویں صدی کے اکثر سائنس دان - بلکہ بعد کے بھی کچھ - کائنات کی اس حرارتی موت سے ڈرتے تھے، ایک ایسا خاتمہ جو حر حرکیات کے قوانین میں موجود ہے۔ کوئی بھی مکمل طور پر اس بات کا ادراک نہیں رکھتا کہ کائنات میں دیکھی جانے والی بدیہی تبدیلی بتاتی ہے کہ کائنات کی لازمی طور پر 'گرم پیدائش" ماضی کے کسی محدود وقت میں ہوئی ہوگی، جس کی وجہ سے آج دیکھے جانے والے توازن میں بگاڑ کی صورتحال پیدا ہو گئی ہوگی۔ اور تمام لوگ لازمی طور پر اس بات کو جاننے کے لئے متذبذب ہوتے ہیں کہ "حرارتی موت" جو بھی ہونی تھی اور جس باریکی سے بھی ہونی تھی پہلے ہی ہو چکی ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں