ایک ناممکن الوقوع کائنات (An improbable Universe)
یہ تصور کہ بشرطیکہ ہم کافی طویل انتظار کریں حر حرکیات کے پہلے قانون کے تحت تمام حالتیں متواتر وقوع پذیر ہوتی ہیں، تاہم اس کی موافقت حر حرکیات کے دوسرے قانون سے کرنا مشکل ہے جو کہتا ہے کہ ناکارگی بڑھے گی اور ایک مخصوص سمت ہوگی جہاں وقت کا تیر جائے گا۔ لڈوگ بولٹز مین 1844ء میں ویانا میں پیدا ہوئے تھے اور وہ حر حرکیات کے تصور کو پیش کرنے والی بانیان میں سے ایک تھے، انہوں نے ان دونوں تصورات میں موافقت پیدا کرنے کا طریقہ ڈھونڈ نکالا تھا۔ تاہم اس کا مطلب تھا کہ 'عقل عامہ' کو وقت کے بہاؤ کو سمجھنے کے لئے ترک کرنا ہوگا، اس کے ساتھ ہی انھوں نے ایک تصور متعارف کروایا کہ کائنات ناقابل تصور طور پر کسی بھی ہماری دیکھی جانے والی چیز سے خاصی وسیع ہے۔[1]
پون کیئر کے کام نے بتایا کہ کوئی بھی بند، متحرک نظام اپنے آپ کو لامحدود طور پر دہرائے گا، اس طرح سے اتنا وقت مل جائے گا جس میں ہر ممکن حالت وقوع پذیر ہو سکے۔ یہ چیز صرف کسی گیس کے ڈبے پر ہی نہیں بلکہ کسی بھی نظام بشمول کائنات اور ہماری ملکی وے کہکشاں پر بھی لاگو ہوگی۔ ایک حقیقی لامحدود کائنات میں جو خلاء میں ہمیشہ پھیل رہی ہو اور جس کا پیمانہ حیات لازوال ہو، تو کوئی بھی ایسی چیز جو قوانین طبیعیات کی رو سے ممنوع نہیں ہے لازمی طور پر کسی جگہ کسی وقت وقوع پذیر ہوگی (یا حقیقت میں لامحدود جگہوں پر اور لامحدود وقت میں دہرائی جائی گی)۔ بولٹزمین کی دلیل تھی کہ پوری قابل مشاہدہ کائنات لازمی طور پر کسی بڑی کائنات کے چھوٹے مقامی علاقے کی نمائندگی کرتی ہے، ایک ایسا حصّہ جس میں بہت ہی نایاب تاہم ناگزیر اتار چڑھاؤ وقوع پذیر ہوتے ہیں بعینہ جیسے ڈبے کے ایک حصّے میں موجود گیس کے جوہر یا کافی کے کپ سے برف کا ٹکڑا بننے کا واقعہ بڑے پیمانے پر وقوع پذیر ہوگا۔
بولٹز مین کے زمانے میں 'کائنات' کا مطلب ہماری ملکی وے کہکشاں تھی۔ بیسویں صدی میں جا کر فلکیات دانوں کو سمجھ میں آیا کہ ہماری کہکشاں جس میں ارب ہا ستارے موجود ہیں وہ وسیع خلاء میں پھیلی ہوئی ارب ہا کہکشاؤں میں سے ایک کہکشاں ہے۔ تاہم اس سے دلیل پر اثر نہیں پڑتا - اس صورتحال میں اس عدد میں مزید کچھ صفر کا اضافہ ہو جائے گا جو پہلے ہی انسانی فہم سے باہر ہے۔
دلیل کچھ یوں کہتی ہے۔ فرض کریں کہ ایک ایسی کائنات موجود ہے وہ وسیع تر اور اتنی بڑی ہے کہ ہم نے اس جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی، تاہم یہ بحیثیت مجموعی حرارتی توازن میں زیادہ سے زیادہ ناکارگی کے ساتھ موجود ہے۔ بولٹز مین کے مطابق:
اس طرح کی کائنات میں جو حرارتی توازن میں ہوگی وہ ایک مردہ کائنات ہوگی، [کائنات] کہکشاں کا ایک نسبتاً چھوٹا علاقہ یہاں یا وہاں موجود ہوگا (جس کو ہم 'جہاں' کہہ سکتے ہیں) یہ علاقے حرارتی توازن سے معنی خیز انداز میں نسبتاً مختصر کھینچے ہوئے 'وقت کے 'عہد' میں انحراف کرتے ہیں۔[2]
اس صورتحال کو موجودہ صورتحال کے مطابق ڈھالنے کے لئے صرف ہمیں ایک لفظ 'کائنات' کو شامل کرنا ہوگا۔ بولٹزمین نے سادے طور پر یہ کہا کہ ہم ایک خلاء کے بلبلے میں رہتے ہیں جہاں پر چھوٹے توازن سے انحراف کئے مقامی علاقے واقع ہیں اور جو اب واپس عظیم کائنات کی طویل عرصے والی قدرتی حالت میں واپس جا رہے ہیں۔ جیسا کہ بولٹزمین نے اشارہ کیا، اس طرح کے کم ناکارگی بلبلے میں موجود وقت کا تیر کم امکانی حالت سے زیادہ امکانی حالت میں جا رہا ہے، یعنی کہ بڑھتی ہوئی ناکارگی کی سمت۔ کوئی وقت کی منفرد سمت ایسی موجود نہیں ہے جو پوری کائنات پر لاگو ہو، اس کے بجائے صرف وقت کی سمت مقامی ہوتی ہے جس کا اطلاق اس علاقے پر ہوتا ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔ وقت کے تیر کی یہ عجیب و غریب توجیح (ظاہر سی بات ہے کہ بولٹزمین نے یہ اصطلاح استعمال نہیں کی تھی کیونکہ یہ اس وقت تک ایجاد ہی نہیں ہوئی تھی) کو ایک خاکے کے ذریعہ بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے (خاکہ 1.4) اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کم ناکارگی کے بلبلے میں ہر جگہ تیر بلند ناکارگی کی حالت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
خاکہ 1.4 جب وقت کے تیر کو بطور اس سمت کے رہنما کے طور پر لیا جاتا ہے جس میں ناکارگی بڑھتی ہے، تو یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ ہماری معلوم کائنات ناکارگی کے اٹکل پچو اتار چڑھاؤ پیدا کرتی ہے۔ اس صورت میں، جب بھی کوئی شاہد کم ناکارگی کے علاقے میں موجود ہوگا، تو مقامی وقت کا تیر بڑھتی ہوئی ناکارگی کی جانب اشارہ کرے گا۔ شاید ایسا ہے کہ وقت کا تیر عالمگیر طور پر مطلق ہے ہی نہیں؟
اس نقطہ نظر کے لحاظ سے، کائنات غیر معمولی طور پر ناممکن الوقوع اور خلاف قیاس واقعہ ہے، جو لازمی طور پر ایک لامحدود کائنات میں واقع ہوا ہوگا۔ بولٹزمین کی اپنی تحریک اس خیال کو آگے بڑھانے کے لئے اس کے اپنے الفاظوں سے واضح ہو جاتا ہے:
مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس طرح سے چیزوں کو دیکھنا ہی صرف ایک ایسا طریقہ ہے جس سے ہمیں دوسرے قانون کی صحت اور گرم موت ہر انفرادی دنیا کے لئے ابتدائی حالت سے لے کر حتمی حالت کے درمیان پوری کائنات کی یک سمتی تبدیلی کئے بغیر معلوم ہو سکتی ہے۔
تاہم دور حاضر کے ماہرین تکوینیات کائنات کو ایسے ہی دیکھتے ہیں!بلاشبہ بولٹزمین عظیم دھماکے کے نظریئے یا پس منظر کی اشعاع کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا، اور وہ اس دور میں جی رہا تھا جب بغیر کسی حیل و حجت کے کہا جاتا تھا کہ کائنات کا کوئی وقت کا مخصوص ماخذ نہیں ہے نہ ہی اس کا کوئی اختتام ہوگا۔ آج زیادہ تر ماہرین تکوینیات ذرا مختلف سوچتے ہیں، کائنات کی پیدائش کا تصور، اس کی محدود عمر اور موت کو اچھی طرح قبول کرلیا گیا ہے، کم از کم امکان کی حد تک تو ایسا ہی ہے۔ بولٹز مین کی ناممکن الوقوع کائنات تاریخ کا تجسس تھی، کوئی حقیقی دنیا کو اس سے بھی کم حر حرکیات کی نئی تشریح کی مدد سے بیان کر سکتا ہے، جیسا کہ ہم جلد ہی دیکھیں گے۔ تاہم اس کی توضیح کچھ دلچسپ نکات اٹھاتی ہے جس کو ہم اب وقت کا تیر کہتے ہیں، یہ اس قابل ہیں کہ ہم اس کو مزید تفصیل سے دیکھیں اور پوری کتاب کو پڑھتے ہوئے اس کو اپنے دماغ میں رکھیں۔
وقت کے تیر میں جو کسی مخصوص سمت کی جانب اشارہ کر رہا ہو اور مخصوص سمت میں بہتے ہوئے ہمارے موضوعی وقت کے بہاؤ کے فہم میں ایک بنیادی فرق ہے۔ یہ نکتہ بولٹز مین کی دلیل میں شامل ہے تاہم اس کو حال ہی میں زیادہ بہتر طور پرایڈیلیڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پال ڈیویز نے زیادہ زور و شور سے اٹھایا ہے۔ ڈیویز نے مووی فلم کی مثال کو ہی لیا جیسا کہ ہماری آگ کے الاؤ کو دہکانے والی ہماری تصوراتی مثال تھی۔ وہ بتاتے ہیں (مثال کے طور پر جدید کائنات میں مکان و زمان) کہ اگر ایسی وقت کے عدم تشاکل کی کوئی فلم بنائی جائے اور پھر اس فلم کو کاٹ کر مختلف انفرادی ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے، اور پھر ان کو آپس میں ملا دیا جائے، تب بھی اس بات کا امکان موجود ہے کہ انفرادی تصاویر کا مطالعہ کرکے تفاوت کو ڈھونڈ کر ان کو ٹھیک ترتیب میں رکھ دیا جائے۔ جبلی عدم تشاکل کو ظاہر کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ فلم کو چلایا جائے، یا وقت کو بہایا جائے۔ وقت کا بہاؤ ایک نفسیاتی مظہر ہے جو اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب ہم وقت کو عدم تشاکل کائنات سے تعامل کراتے ہیں۔
سمندر میں تیرتے ہوئے جہاز کے اوپر موجود قطب نما کی سوئی کے ساتھ والی تشبیہ ڈیویز اس بات کو واضح کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ قطب نما کی سوئی ہمیشہ شمالی مقناطیسی قطب کی جانب رہ کر عدم تشاکل کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جہاز ہمیشہ شمال کی طرف تیرے گا۔ جہاز شمال کی طرف بھی تیر سکتا ہے (یا کسی دوسری سمت بھی جا سکتا ہے) تاہم تیر نشان اب بھی شمال کی طرف ہی رہے گا۔ اور اگر ہم چاہیں تو ہم قطب نما کے تیر کو جنوب کی طرف بھی کر سکتے ہیں۔ یہ تب بھی راستہ ڈھونڈنے کے لئے ویسا ہی کارآمد رہے گا، ہرچند کہ خود سے دی ہوئی 'سمت' الٹی ہو گئی ہوگی۔ یہ قدرتی بات ہے کہ ہم اس سمت کو بیان کریں جس جانب وقت کا تیر اشارہ کر رہا ہے یعنی وہ سمت جہاں ہم سمجھتے ہیں کہ وقت بہہ رہا ہے۔ تاہم یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ عدم تشاکل کائنات کی خلقی خاصیت ہے، جبکہ بہاؤ سے متعلق ہمارا فہم ایک ایسا مظہر ہے جس کو کوئی بھی سمجھنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ خاص طور پر اگر وقت پیچھے کی طرف بہے تو عدم تشاکل کو کوئی فرق نہیں پڑے گا اور تمام کے تمام حر حرکیات کے قوانین اس وقت بھی ویسے ہی لاگو ہوں گے۔
یہ بات فلسفیانہ طور پر بات کی کھال نکالنے جیسا لگتا ہے، تاہم آپ اس خیال پر ثابت قدم رہیں بعد میں اس کی اہمیت بہت بڑھنے والی ہے۔ سب سے پہلے حر حرکیات میں ہونے والی نئی پیش رفت کو دیکھیں جس نے روایتی تشریح کو اوندھے منہ گرا دیا ہے، اور پون کیئر اور بولٹز مین کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی ہے، اور بتایا ہے کہ ناقابل الٹ ہونا اصل میں کائنات کی ایک بنیادی خاصیت ہے بشرطیکہ ایک مرتبہ وقت کے تیر کو بیان کر دیا جائے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں