ناقابل الٹ کائنات (The irreversible Universe)
یہ نیا تصور خاص طور پر ایلیا پریگوجوائن کے تصور سے نکلا ہے جو ماسکو میں 1917ء میں پیدا ہوئے اور 1947ء سے بیلجیئم کی فری یونیورسٹی سے وابستہ رہے، اور حال ہی میں وہ آسٹن میں واقع ٹیکساس یونیورسٹی سے وابستہ ہو گئے ہیں۔ انہوں نے 1977ء میں اپنے کام حر حرکیاتی عدم توازن میں نوبل انعام برائے کیمیا حاصل کیا۔ تاہم ان کے تصورات کی جانچ پڑتال ہونا باقی ہے اس کے بعد ہی ان کو ان درسی کتب کا حصّہ بنایا جائے گا جو حر حرکیات کے طالبعلم آج بھی یونیورسٹی کی سطح پر پڑھتے ہیں۔
پریگو جوائن نے کوانٹم نظریئے سے کچھ بنیادی خیالات لے کر پیمانہ کبیر کی ناقابل الٹ اور پیمانہ صغیر کی قابل الٹ موافقت پر حملہ کیا جو پون کیئر کی متواتر وقت سے سمجھی جا سکتی ہے۔ کوانٹم طبیعیات جس کو بیسویں صدی کے پہلے حصّے میں بنایا گیا تھا، وہ جوہروں اور چھوٹے ذرّات کے برتاؤ کے بارے میں اپنی پیش رو سے بہتر تفہیم فراہم کرتی ہے۔ یہ صرف کوانٹم طبیعیات کی ہی مدد ہے جس کی بدولت جدید سائنس دان اس قابل ہوئے ہیں کہ جوہروں کے کام کرنے کے طریقے اور ذرّات اور برقی مقناطیسی میدان کے درمیان ہونے والے تعاملات کو سمجھ سکیں۔ ہمیں یہاں پر زیادہ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے[1]، تاہم دو کوانٹم طبیعیات کی خصوصیات ایسی ہیں جو کائنات کے حر حرکیات سے متعلق ہیں۔
سب سے پہلا اہم نقطہ کوانٹم طبیعیات کی مساوات، کلاسیکی طبیعیات کی طرح، وقتی تشاکلی ہیں۔ کوانٹم طبیعیات میں کوئی وقت کا تیر جبلی طور پر موجود نہیں ہے، اور رد عمل اور تعاملات مساوات کے مطابق 'آگے' اور 'پیچھے' آسانی کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم اسی جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں بولٹزمین آکر نیوٹنی میکانیات کے قابل الٹ اور اصل دنیا کی فرسودگی کے درمیان پھنس گیا تھا۔ تاہم نئی طبیعیات کی دوسری اہم خاصیت ہمیں مخصوص کھونٹے سے دور کر دیتی ہے۔
ورنر ہائیزنبرگ، ایک جرمن سائنس دان تھا جس نے کوانٹم نظریئے کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، اس نے دریافت کیا کہ مساوات ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم کسی بھی ذرّے کی دونوں مقام اور رفتار ایک وقت میں معلوم کر سکیں۔ اصولی طور پر ہم یہ بات نہیں جان سکتے کہ کوئی ذرّہ کہاں ہے اور وہ کہاں جا رہا ہے۔ ہم کسی بھی خاصیت کا تعین خود سے اتنا درست کر سکتے ہیں جتنا کہ ہم چاہیں، تاہم بصورت معکوس ہم جتنی درستگی کے ساتھ اس کا مقام معلوم کریں گے اتنا ہی کم ہم اس کی رفتار کے بارے میں معلوم کر سکیں گے۔ یہی اصول اتفاقی طور پر دوسرے ان جوڑوں پر بھی لاگو ہوتا ہے جس کو 'مزدوج متغیر' کہتے ہیں، تاہم ہمیں ابھی اس کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
جب پہلی مرتبہ ہائیزنبرگ نے اپنا اصول عدم یقین بیان کیا تو کافی لوگوں نے سمجھا کہ شاید یہ انسانی مشاہدے کی عملی حدود کے بارے میں بات کر رہا ہے، اور یہ سمجھے کہ شاید الیکٹران کسی ایک مخصوص مقام پر ہو سکتا ہے اور ایک مخصوص سمتی رفتار و معیار حرکت کے ساتھ حرکت کر سکتا ہے تاہم یہ دونوں کو ایک ساتھ ناپنے کی ہماری قابلیت سے ہمیشہ ہی دور رہے گا۔ درحقیقت آج بھی بہت سارے لوگ ایسا ہی سوچتے ہیں کہ کوانٹم عدم یقینیت شاید اسی کو کہتے ہیں۔ لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ ہائیزنبرگ کی دریافت کی اہم بات حقیقت میں یہ ہے - حقیقت میں یہ کئی طرح سے کوانٹم کی بھی خاصیت ہے - کہ وہ ہستی جس کو ہم الیکٹران کہتے ہیں وہ ایک ساتھ دو چیزیں مخصوص مقام و مخصوص رفتار نہیں رکھ سکتی جبلی طور پر ایک عدم یقینیت موجود ہے جس کو کائنات کو ملا کر رکھنے سے نمٹنا ہے، تاہم اس کا انسانی تجرباتی طبیعیات دانوں کی قابلیت یا کسی اور چیز سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
یہ عقل عامہ نہیں ہے، لیکن یہ ایسا کیوں ہے؟ ہماری عقل کی بنیاد روزمرہ کی ان چیزوں پر منحصر ہوتی ہے جو انسانی پیمانے کی ہوتی ہیں اور اس پیمانے پر عدم یقین کا اثر اس قدر معمولی ہوتا ہے کہ نظر ہی نہیں آتا۔ ہمارے پاس کوئی ایسی بنیاد نہیں ہے جو یہ بتا سکے کہ 'عقل' جوہروں اور الیکٹرانوں کے پیمانے پر کیسی ہوگی، بس ہم تو ان نظریات کے بھروسے مدد حاصل کرتے ہیں جو اندازہ لگاتی ہیں کہ اس طرح کے ذرّات کا مجموعہ کس طرح سے مخصوص حالات میں جواب دے گا۔ وہ نظریہ جو سب سے بہترین ، سب سے زیادہ درست اور سب سے زیادہ یکساں درست اندازہ لگا سکتا ہے وہ کوانٹم کا نظریہ ہے بشمول اصول عدم یقین کے۔ بے شک یہ تو کوانٹم عجوبے کی ایک جھلک ہی ہے، کوانٹم نظریئے کی سب سے بہتر تشریح کے لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بھی اساسی 'حقیقت' موجود نہیں ہے جو جہان کبیر کو مل کر بنا سکے۔ صرف ایک ہی حقیقت اس واقعہ میں موجود ہوتی ہے جس کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں ڈائل پر سوئی اس وقت حرکت کرتی ہے جب ایک برقی بہاؤ بہتا ہے اور گیگر کاؤنٹر اس وقت کلک کرتا ہے جب بار دار ذرّہ اس کے سراغ رساں سے گزرتا ہے علیٰ ہذا القیاس۔ کوئی بھی چیز اس وقت تک حقیقت نہیں بنتی جب تک اس کا مشاہدہ نہ کیا جائے، کوانٹم طبیعیات دان کہتے ہیں، اور اس بات کو تصور کرنے کی کوشش کرنا فضول ہی ہے کہ جوہر اور الیکٹران اس وقت کیا کرتے ہیں جب ان کا مشاہدہ نہیں کیا جاتا۔
یہ تمام خیالات پریگو جوائن کے حر حرکیات کے نسخے میں شامل ہو گئے۔ جس حقیقت کا ہم وقت کے تیر اور عدم تشاکل کا مشاہدہ کرتے ہیں وہ جہان کبیر ہے۔ ایسا کیوں ہے وہ سوال کرتا ہے، کیا ہم اس بات کا تصور کریں کہ یہ دنیا کسی طرح سے ان گنت ننھے ذرّات سے مل کر بنی ہے جو درستگی کے ساتھ قابل الٹ وقتی تشاکلی برتاؤ کے قوانین کا اتباع کرتے ہیں؟ پریگوجوائن کے لئے اجمالی طور پر حاصل کردہ حر حرکیات کا دوسرا قانون بنیادی سچائی ہے، ایک درست قانون جو ہمیشہ لاگو ہوتا ہے، شماریاتی اصول کی طرح نہیں جو اکثر کم یا زیادہ پر لگتا ہے۔ یہ بظاہر ایک دوسرے پر اچھلتے چھوٹے کروں کا وقتی تشاکلی برتاؤ ہے جس کو اس نے حقیقت سے قریب تر سمجھ لیا ہے۔ 'ناقابل الٹ' وہ کہتا ہے یا تو تمام سطحوں پر درست ہوگا یا پھر کسی پر بھی نہیں۔ یہ معجزاتی طور پر ایک سطح سے دوسری سطح پر جاتے ہوئے نمودار نہیں ہو جاتا۔ (بے ترتیبی سے ترتیب، صفحہ 285۔)
ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہ کہاں لے جانا چاہ رہا ہے، اور ایک بند نظام کی مثال کو دیکھ کر ہم کوانٹم طبیعیات سے حر حرکیات کا براہ راست تعلق بھی دیکھ سکتے ہیں، یہ وہ قسم ہے جو پون کیئر کہتا ہے کہ اس کو اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہوگا بشرطیکہ کافی طویل وقت موجود ہو۔ ہم ایک مرتبہ پھر گیس سے بھرے ڈبے سے شروع کرتے ہیں، تاہم اس مرتبہ ہم اس کو تھوڑا سے پیچیدہ کر دیں گے، وہ اس طرح کہ ڈبے میں ہم ایک ہموار ڈھلوان مادّے کی پہاڑی بنا دیں گے جو مکمل طور پر تشاکل رکھتی ہوگی جو اوپر اٹھ کر چوٹی پر گول ہوگی۔ ذرا تصور کریں کہ پہاڑی کے اوپر ایک مکمل گول گیند انتہائی نفاست کے ساتھ رکھی ہے، ڈبہ ویسے ہی بند ہے تاکہ اس کو باقی کائنات سے حر حرکیاتی طور پر الگ رکھ سکے۔ گیند کا کیا ہوگا؟ ظاہر سے بات ہے کہ وہ پہاڑی کی چوٹی سے نیچے گر لڑک جائے گی۔ تاہم یہ کس طرف گرے گی؟ گیند جو سمت لے گی اور ڈبے میں موجود مادّے کی بعد کی تاریخ ان سب کا انحصار گیس کے جوہروں کی چھوٹی جمع ہوتی ٹکروں پر ہوگا۔ گیند پر بہت چھوٹا دباؤ اس کو اتفاق سے ایک طرف دھکیل رہا ہوگا اور یہ گر کر لڑک جائے گی۔
پون کیئر کے مطابق بالآخر گیند اپنی شروعاتی جگہ پر واپس پلٹ آئی گی۔ جب گیند پہاڑی سے لڑک جائے گی تو حتمی طور پر قوّت ثقل سے گرنے والی گیند سے پیدا ہونے والی یہ اپنی توانائی گیس کو دے گی اگر ہم کافی طویل عرصے (کائنات کی عمر سے کئی گنا زیادہ) انتظار کریں تو یہ ہوگا کہ گیس کے زیادہ تر جوہر گیند سے ٹکرائیں گے اور اسی سمت میں حرکت کریں گے اور اس کو تھوڑا سا دھکا اتنی ہی توانائی کے ساتھ جتنی کہ اس نے پہلے گیس کو دی تھی دے کر اس کو واپس لڑکا کر پہاڑی کے اوپرلے جائیں گے جبکہ گیس ٹھنڈی ہو جائے گی۔ ایسی بھی صورتحال ہوگی جب گیند غلط دھکا لے کر دوسری سمت میں چلی جائے یا کوئی بہت طاقتور دھکا مل جائے یا دھکا اتنا کمزور ہو کہ وہ واپس پہاڑی کی چوٹی پر پہنچ جائے۔ تاہم ایک مناسب طویل وقفے کے بعد ایک موقع ایسا آئے گا جب دھکا بعینہ اس قابل ہوگا کہ گیند کو واپس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا دے اور اس کو وہیں توازن میں رہنے دے۔ نظام پیش گوئی کے مطابق اپنی اصل حالت میں واپس آگیا ہوگا۔ یا ایسا ہی ہے؟
اگر ابھی گیند سے ٹکرانے والے گیس کے جوہر کے طریقوں میں تھوڑا سے بھی فرق اس ٹکر سے ہوگا جس وہ پہلی مرتبہ اس وقت ٹکرائے تھے جب یہ پہاڑ کی چوٹی پر تھی، تو وہ ایک مختلف سمت میں لڑک جائے گی اور ڈبے کے اندر کی چھوٹی دنیا کا مستقبل بالکل ہی الگ ہوگا۔ اور جوہر کے گیند سے ٹکرانے کے طریقوں میں چھوٹے اختلافات ضرور موجود ہوں گے کیونکہ کوانٹم اصول عدم یقین اس بات کو ناممکن بناتی ہے کہ جوہروں کے لئے کوئی درست حالات کا تعین کیا جا سکے۔ یہاں تک کہ اس سادہ سی صورت میں بھی ہم تصور کر سکتے ہیں کہ گیند بہت ہی درستگی کے ساتھ توازن میں ہوگی کیونکہ حالات میں آپ کی پسند کی چھوٹی سی بھی تبدیلی مستقبل کے برتاؤ کو بدل دے گی۔ حقیقی کائنات اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے، اور پیچیدہ نظاموں میں بہت سارے ایسے ذرّات موجود ہیں جن کے بارے میں اندازہ ہے کہ وہ بہت ہی زیادہ غیر پائیدار ہوتے ہیں، لہٰذا ابتدائی حالات میں تھوڑی سی بھی تبدیلی نظام کے مستقبل میں ہیبت ناک تغیر پیدا کر سکتی ہے۔
یا اگر آپ چاہیں چیزوں کے بارے میں ڈبے میں حرکت کرتے ہوئے گیس کے جوہروں کی اصل قابل الٹ حد کے بارے میں سوچیں۔ جب ہم ایک ایسے نظام کے بارے میں سوچتے ہیں جہاں ڈبے کے آدھے حصّے میں گیس پھیل کر پورے ڈبے کو بھر دیتی ہے، تو یہ کہنا آسان ہوتا ہے 'ہر جوہر کے بارے میں تصور کریں کہ وہ ایک ساتھ الٹ رہا ہے'۔ یہ تصور کچھ پول ٹیبل کی یاد دلاتا ہے جہاں حرکت کرتی ہوئی گیندیں اچانک ہی اپنے خط پرواز بدل کر واپس اصل جگہوں پر آ جاتی ہیں۔ اصل میں ہم یہ تجربہ نہیں کر سکتے تاہم ہم اس کا تصور کر سکتے ہیں۔ لیکن ذرا سوچیں کہ اس سادہ جملے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر جوہر کے مقام کا تعین درستگی کے ساتھ کیا گے ہوں اور ساتھ ہی میں اس کی سمتی رفتار کو بھی درستگی کے ساتھ معلوم کیا گیا ہو، اور پھر ان کو اس وقت الٹا دیا گیا ہو جب جوہر اسی درست مقام پر موجود ہوں۔ لیکن کوانٹم طبیعیات ہمیں بتاتا ہے کہ یہ ناممکن ہے! کسی بھی جوہر میں یہ دو خصائل (درست مقام اور درست سمتی رفتار)بیک وقت نہیں ہو سکتے۔ فطرت کے قوانین، جتنا اچھا ان کو آج تک سمجھا گیا ہے، اس بات کو اصولی طور پر ناممکن بناتے ہیں کہ گیس میں موجود ہر جوہر کی سمت الٹ جائے، ایسا صرف ان عملی مشکلات کی وجہ سے نہیں ہے جو انسانوں کی قابلیت میں رکاوٹ ہیں۔ کوئی ایسا طاقتور جادو موجود نہیں ہے جو اس کام کو کر سکے۔ لہٰذا ایک مرتبہ پھر ہمارا واسطہ ایک ایسے نظام سے پڑا جو قابل الٹ تو لگتا ہے تاہم درحقیقت وہ بھی ناقابل الٹ ہے۔
یہ بہت ہی سادہ پریگو جوائن کے حر حرکیات کی از سر نو تشریح کے ایک زاویہ کی توضیح ہے۔ تاہم اس کے پیغام کا خلاصہ بہت ہی سادہ اور اہم ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ہم کتنا ہی لمبا عرصہ بیٹھ کر نیم گرم کافی کے کپ کا مشاہدہ کریں، یہ کبھی بھی برف کے ٹکڑے کو بنا کر خود سے گرم نہیں ہوگا، قطع نظر اس بات سے کہ ہم کتنا لمبا عرصہ بیٹھ کر گیس کے ڈبے کو دیکھیں، یہ کبھی بھی ڈبے کے آدھے حصے میں جمع نہیں ہوگا اور ہم کبھی اسے اسی کم ناکارگی کی حالت میں نہیں دیکھ سکیں گے۔ حر حرکیات کا دوسرا قانون کائنات کا مطلق حکمران ہے۔
یہ تصورات کافی مشکل ہیں اور ان کو کوانٹم نظریئے کے تصور سے میل کھا کر جذب کرنا کوئی آسان نہیں ہے یعنی کہ قدرت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہے۔ پریگو جوائن کے لئے حقیقت صرف اس ناقابل الٹ عمل میں ہے جو دنیا میں جاری ہے - ہونے میں نہیں بلکہ بننے میں جیسا کہ وہ کہتا ہے۔ کیا پریگو جوائن کا حر حرکیات کا نسخہ روایتی معیاری نسخے سے بہتر ہے؟ فی الوقت یہ تو ذاتی پسند و ناپسند کی بات ہے کہ آپ کسے چاہتے ہیں؛ تاہم پریگو جوائن کے پاس اپنے حق میں ایک بہت طاقتور دلیل موجود ہے، یہ اتنی ہے کہ میں تو اس کی طرف اس وقت تک ہوں جب تک وہ غلط ثابت نہیں ہو جاتا - کسی نے بھی ابھی تک حر حرکیات کے دوسرے قانون سے انحراف ہوتا ہوا نہیں دیکھا، اور تاوقتیکہ کہ ایسا ہو، بہتر لگتا ہے کہ اسے ایسے ہی قبول کیا جائے جیسا کہ یہ ہے، یعنی قدرت کا ایک ایسا قانون جو توڑا نہ جا سکے۔
کائنات کی بحیثیت مجموعی کہانی اتنی ہو گئی ہے جتنی ہمیں بحث کرنے کے لئے درکار ہے۔ ہم ایک بڑھتے ہوئے ناکارگی کے علاقے میں رہتے ہیں، ایک پھیلتا ہوا تاریک خلاء کا بلبلہ جس میں کچھ روشن روشنیاں، ستارے اور کہکشائیں موجود ہیں۔ وقت ایسے بہتا ہے جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں، عظیم دھماکے سے آگے کی طرف بڑھتا ہوا اومیگا پائنٹ تک کائنات کی موت تک جاتا ہوا۔ جیسا کہ معلوم ہوا ہے کہ کائنات کا حتمی مقدر کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس میں کتنا مادّہ موجود ہے، نا صرف ان روشن ستاروں میں بلکہ ستاروں اور کہکشاؤں کے درمیان تاریکی میں بھی۔ تاہم اس کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ کس طرح کائنات اپنی دور حاضر کی شکل میں آئی - اور فی الوقت کونیاتی نظریات میں سب سے بہتر حقیقت میں بولٹز مین کے وجدان میں شاندار پون کیئر کا چکر ہے۔ مستقبل کو جاننے کے لئے ماضی کو سمجھنا ہوگا۔ جس کائنات میں ہم رہتے ہیں اس کی ہئیت سمجھنے کے لئے اور اس کے ممکنہ مقدر میں جھانکنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ یہ کہاں سے آئی ہے اور یہ کس طرح سے ایسے بن گئی ہے جس کو ہم آج دیکھتے ہیں۔ اور ہماری اس فہم کا آغاز کائنات کی سحابیوں کی سلطنت کا مشاہدہ کرکے شروع ہوتا ہے ۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں