Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    ہفتہ، 2 جولائی، 2016

    کائنات کے چھ عدد - حصّہ اوّل

    کثیر کائناتیں 


    دوسرے سائنس دان جیسا کہ کیمبرج یونیورسٹی کے سر مارٹن ریس سمجھتے ہیں کہ یہ کائناتی حادثات کثیر کائنات کا ثبوت ہیں۔ ریس اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ صرف ایک ہی طریقہ ہے جس میں اس بات کو حل کیا جا سکتا ہے کہ ہم ناقابل تصوّر سینکڑوں موزوں ترین اتفاقات کے ساتھ رہ رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ کروڑ ہا متوازی کائناتوں موجود ہیں۔ ان کثیر کائناتوں کی دنیا میں، زیادہ تر کائناتیں مردہ ہیں۔ پروٹون پائیدار نہیں ہیں۔ جوہر کبھی تکثیف ہی نہیں ہوئے۔ ڈی این اے بنے ہی نہیں۔ کائنات پہلے ہی منہدم ہو گئی یا فوراً ہی منجمد ہو گئی، اور ایسا ضروری نہیں ہے کہ اس لئے ہوا ہوگا کہ خدا نے چاہا ہے بلکہ اس کی وجہ اوسطوں کا قانون ہے۔

    ایک طرح سے، سر مارٹن ریس وہ آخری شخص تھے جن سے شاید اس بات کی امید تھی کہ وہ متوازی کائناتوں کے نظریئے پر آگے بڑھیں گے۔ وہ انگلستان کے شاہی ماہر فلکیات ہیں اور ان پر اس بات کی کافی ذمہ داری ہے کہ وہ کائنات سے متعلق محکمہ کے نقطۂ نظر کو بیان کریں۔ بالوں میں چاندنی لئے ، ممتاز بے عیب لباس پہنے ہوئے ، ریس عوامی معاملات پر بھی ایسی ہی فصاحت سے بولتے ہیں جتنا کہ عجوبہ کائنات پر۔

    یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں ہے کہ یہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کائنات بہت باریک بینی سے بنی ہے تاکہ یہاں حیات کی نمو ہو سکے۔ کائنات کے لئے کافی سارے حادثات لازمی طور پر ہونے چاہئے تھے جو تمام چیزوں کو حیات کے لئے اتنی موزونیت فراہم کرتے۔ "بظاہر کائنات کی نوک پلک کا درست ہونا جس پر ہمارے وجود کا انحصار ہے ایک اتفاق بھی ہو سکتا ہے،" ریس لکھتے ہیں۔ " میں پہلے ایسے سوچتا تھا۔ لیکن یہ خیال اب بہت ہی تنگ نظر لگتا ہے۔۔۔ایک مرتبہ ہم اس بات کو تسلیم کر لیں، تو کائنات کے کافی ظاہری مخصوص خصائص - جن کو کبھی الہیات دان تخلیق کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے تھے – کا وقوع ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں ہوگی۔"

    ریس کوشش کرتے ہیں کہ اپنی اس دلیل میں وزن ڈالیں اور اس کے لئے وہ کچھ باتوں کا تعین کرتے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایسا لگاتا ہے کہ کائنات پر چھ اعداد کی حکمرانی ہے ۔ جن میں سے ہر ایک قابل پیما اور انتہائی باریک بینی سے درست کیا ہوا ہے۔ ان چھ اعداد کو حیات کی شرائط کا پورا کرنا لازمی ہوگا ورنہ مردہ کائنات پیدا ہوگی۔ 

    پہلا ایپسلون ہے ، جس کو بقدر 0.007 کے ہونا چاہئے ، یہ ہائیڈروجن کی وہ نسبتی مقدار ہے جو بگ بینگ کے وقت بذریعہ گداختی عمل کے ہیلیئم میں تبدیل ہوگی۔ اگر یہ عدد 0.007 کے بجائے 0.006 ہوگا تو یہ نیوکلیائی طاقت کو کمزور کر دے گی، اور پروٹون اور نیوٹران آپس میں بندھ نہیں سکیں گے۔ ڈیوٹیریئم (ایک پروٹون اور ایک نیوٹران پر مشتمل عنصر ) نہیں بن سکے گا، لہٰذا بھاری عناصر کبھی بھی ستاروں میں نہیں بن سکیں گے، ہمارے جسم کے جوہر کبھی نہیں تشکیل پا سکیں گے، اور تمام کائنات ہائیڈروجن میں تحلیل ہو جائے گی۔ یہاں تک کہ نیوکلیائی قوّت میں تھوڑی سی بھی کمی دوری جدول میں موجود عناصر میں عدم استحکام پیدا کر دے گی ، اور حیات کو خلق کرنے کے لئے بہت ہی کم پائیدار عناصر بن سکیں گے۔

    اگر ایپسیلان0.008 ہوتا، تب گداخت کا عمل اس قدر تیز ہوتا کہ بگ بینگ سے بننے والی ہائیڈروجن بچتی ہی نہیں، اور آج ستارے سیاروں کو توانائی فراہم کرنے کے لئے نہیں ہوتے۔ یا شاید دو پروٹون آپس میں بندھ باندھ لیتے نتیجتاً ستاروں میں عمل گداخت کا ہونا ممکن نہ رہتا ۔ ریس اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو فریڈ ہوئیل نے ڈھونڈی تھی کہ صرف نیوکلیائی قوّت میں ہونے والی چار فیصد تبدیلی بھی ستاروں کے قلب میں کاربن کی تخلیق کو مشکل بنا دیتی اور اس طرح سے حیات کا نمو پانا ممکن نہ ہوتا۔ ہوئیل نے معلوم کرلیا تھا کہ اگر نیوکلیائی طاقت میں ہلکا سا بھی رد و بدل ہوتا تو بیریلیئم اس قدر غیر مستحکم ہوتی کہ کاربن کے جوہروں کو بننے کے لئے پل کا کام سرانجام نہیں دے سکتی تھی۔

    دوسرا N ہے جس کی قوّت 1036 کی ہے ۔ یہ برقی طاقت کی قوّت کو قوّت ثقل سے تقسیم کرنے کی مقدار ہے۔ جو اس بات کو بیان کرتی ہے کہ قوّت ثقل کس قدر کمزور ہے۔ اگر قوّت ثقل اس سے بھی کمزور ہوتی، تو ستارہ تکثیف ہو کر وہ زبردست درجہ حرارت حاصل نہیں کر سکتے تھے جو عمل گداخت کے لئے ضروری ہے۔ لہٰذا ستارے کبھی نہ چمکتے اور سیارے ظلمت کے اندھیرے میں ڈوبے رہتے۔

    لیکن گر قوّت ثقل تھوڑی سی بھی زیادہ طاقتور ہوتی تو یہ ستاروں کو جلد گرما دیتی اور وہ اپنا ایندھن اتنی تیزی سے خرچ کرتے کہ حیات شروع ہی نہیں ہو سکتی تھی۔ مزید براں طاقتور قوّت ثقل کا مطلب ہوتا کہ کہکشائیں جلد بن جاتیں اور کافی چھوٹی ہوتیں۔ ستارے کافی گنجان ہوتے نتیجتاً مختلف ستاروں اور سیاروں میں تباہ کن تصادم ہو جاتے۔

    تیسرا اومیگا ہے، یعنی کہ کائنات کی اوسط کمیت۔ اگر اومیگا کافی چھوٹا ہوتا تب کائنات بہت تیزی سے پھیلتی ہوئی ٹھنڈی ہو جاتی۔ اگر اومیگا کافی بڑا ہوتا تب کائنات حیات کے شروع ہونے سے پہلے ہی منہدم ہو جاتی۔ ریس لکھتے ہیں، " بگ بینگ کے پہلے سیکنڈ کے بعد اومیگا اس اتفاق سے 1015 کے بقدر ایک حصّے کے بھی مختلف نہیں ہو سکتا تھا ۔ کیونکہ کائنات دس ارب سال بعد اب بھی پھیل رہی ہے اور اومیگا کی قدر یقینی طور پر اس اتفاق سے مختلف نہیں ہے۔"

    چوتھی چیز لمبڈا یعنی کہ کائناتی مستقل ہے، جو کائنات کے اسراع کا تعین کرتا ہے۔ اگر یہ صرف چند گنا بڑا ہوتا تو اس سے پیدا ہونے والی ضد قوّت ثقل کائنات کو اڑا کر بکھیر دیتی، اور اس کا انجام ایک عظیم انجماد کی صورت میں ہوتا، جو حیات کو ناممکن بنا دیتا۔ لیکن اگر کائناتی مستقل منفی ہوتا تو کائنات سکڑ کر ایک عظیم چرمراہٹ میں ختم ہو جاتی۔ بالفاظ دیگر اومیگا جیسے کائناتی مستقل کو بھی انتہائی نپے تلے انداز میں حیات کی نمو کے لئے ہونا چاہئے تھا۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کائنات کے چھ عدد - حصّہ اوّل Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top