پانچواں Q ہے پس منظر کی کائناتی خرد موجی امواج میں ہونے والی بے قاعدگیاں کا حد ارتعاش جس کی مقدار 10-5 ہے ۔ اگر یہ نمبر تھوڑا چھوٹا ہوتا تب کائنات حد درجے یکساں ہوتی، حیات سے خالی گیس اور گرد کا ڈھیر جو کبھی آج نظر آنے والے ستاروں اور کہکشاؤں میں نہیں ڈھلتی۔ کائنات اندھیری، یکساں ، بغیر شکل اور حیات کے ہوتی۔ اگر Q بڑا ہوتا تو مادّہ کائنات کی تاریخ میں جلد ہی فوق جھرمٹ ساختوں میں تکثیف ہو جاتا۔
"مادّے کے یہ عظیم لوتھڑے جسیم بلیک ہولز میں بدل جاتے، " ریس کہتے ہیں۔ یہ بلیک ہول کہکشاؤں کے جھرمٹ سے بھی بھاری ہوتے۔ گیس کے اس عظیم جھرمٹ میں جس قسم کے ستارے بھی بنتے وہ اس قدر گنجان ہوتے کہ سیاروی نظام کا بننا ممکن نہیں ہوتا۔
آخری D ہے ، امکانی جہتوں کی تعداد۔ ایم نظریئے میں دلچسپی کی وجہ سے طبیعیات دان اس سوال کی طرف پلٹتے ہیں کہ آیا حیات کا ہونا بلند یا پست جہتوں میں ممکن ہے۔ اگر خلاء یک جہتی ہوتی، تو حیات ممکنہ طور پر ممکن نہیں ہوتی کیونکہ کائنات بہت ہی ناکارہ ہوتی۔
عام طور پر جب طبیعیات دان کوانٹم نظریہ کا اطلاق ایک جہت والی کائنات پر کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ذرّات ایک دوسرے میں سے بغیر تعامل کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات ممکن ہے کہ ایک جہت میں وجود رکھنے والی کائنات حیات کو سہارا نہیں دے سکتی کیونکہ ذرّات آپس میں پیچیدہ اجسام بنانے کے لئے جڑ نہیں سکتے۔
دو جہتی مکان میں بھی مسئلہ ہوتا کیونکہ حیات بنتے ہی پاش پاش ہو جاتی۔ ذرا دو جہتی چپٹی ہستیوں کا تصوّر کریں، جو چپٹے رہائشی کہلاتے ہیں اور لٹو کے اوپر رہتے ہیں۔ ذرا انھیں کھاتے ہوئے تصوّر کریں۔ وہ راستہ جو ان کے منہ سے ہوتا ہوا پیچھے کی طرف جاتا ہے وہ دو حصّوں میں بٹ جائے گا اور وہ الگ ہو جائیں گے۔ لہٰذا اس بات کا تصوّر کرنا مشکل ہے کہ کس طرح سے چپٹی ہستیاں بطور پیچیدہ مخلوق کے بغیر ریزہ ریزہ ہوئے یا بکھرے ہوئے وجود قائم رکھ سکتی ہیں ۔
حیاتیات کی طرف سے دی جانے والی ایک اور دلیل اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ ذہانت تین سے کم جہتوں میں وجود نہیں رکھ سکتی۔ ہمارا دماغ ایسے ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے عصبانیوں پر مشتمل ہے جو وسیع برقی جال سے جڑا ہوا ہے۔ اگر کائنات ایک یا دو جہتی ہوتی تو پیچیدہ عصبانیے کے جال کو بنانا مشکل ہوتا، بالخصوص اگر وہ ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے ہوتے تو ان میں شارٹ سرکٹ ہو جاتا۔ کم جہتوں میں ہم بری طرح سے کافی ساری پیچیدہ منطقی سرکٹوں اور عصبانیوں کو چھوٹی سی جگہ میں رکھ سکنے میں محدود ہو جاتے۔ مثال کے طور پر ہمارا اپنا دماغ ہی ایک کھرب عصبانیوں پر مشتمل ہے ، یہ تعداد لگ بھگ ملکی وے کہکشاں میں موجود ستاروں کی تعداد جتنی ہی ہے، ہر عصبانیہ دوسرے دس ہزار عصبانیوں سے جڑا ہوا ہے۔ اس طرح کی پیچیدہ ساخت کو کم جہتوں میں بنانا کافی مشکل ہے۔
چار جہتی مکان میں ایک مسئلہ ہے ، سیارے سورج کے گرد اپنے مداروں میں پائیداری سے چکر نہیں لگا سکتے ۔ نیوٹن کا قانون معکوس مربع ، قانون معکوس مکعب سے بدل جاتا ہے ، اور ١٩١٧ء، پال اہرن فیسٹ نے جو آئن سٹائن کا قریبی رفیق تھا اندازہ لگایا کہ طبیعیات دوسری جہتوں میں کیسی ہوگی ۔ اس نے جس مساوات کی جانچ کی وہ پوئی سن لاپلاس مساوات کہلاتی ہے (یہ مساوات نہ صرف سیاروی اجسام کی حرکت پر لاگو ہوتی ہے بلکہ جوہروں پر برقی بار پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے) اس نے معلوم کیا کہ مدار چار یا اس سے زائد جہتوں میں مستحکم نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ الیکٹران اور سیارے ناگہانی ٹکراؤ کا شکار ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ ممکنہ طور پر جوہر اور نظام ہائے شمسی اضافی جہتوں میں وجود قائم نہیں رکھ سکتے۔ بالفاظ دیگر تین جہتیں خاص ہیں۔
ریس کے لئے بشری اصول کثیر کائناتوں کے لئے دی جانے والی سب سے قائل کر دینے والی دلیل ہے۔ بلکہ اسی طرح جس طرح سے زمین کے لئے گولڈی لاکس زون میں ہونا دوسرے ماورائے شمس سیاروں کے لئے ہے ، بعینہ کائنات کا گولڈ لاکس زون میں ہونا اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ متوازی کائناتیں موجود ہیں۔ ریس تبصرہ کرتے ہیں، "اگر کپڑوں کا اک ڈھیر موجود ہو ، اور اس میں سے کوئی آپ کے ناپ کا ہو تو اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ اگر کافی کائناتیں موجود ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے قاعدے قوانین الگ ہیں ، تو ہم ان میں سے ایک میں ہیں۔" بالفاظ دیگر ہماری کائنات کسی عظیم خالق کی خلق کردہ کائنات نہیں ہے بلکہ کثیر کائناتوں میں موجود کائناتوں کے قانون اوسط کی وجہ سے ایسی ہے۔
وائن برگ اس نقطۂ نظر سے متفق ہوتا نظر آتا ہے۔ اصل میں تو وائن برگ کو کثیر کائنات کا تصوّر ہی از روئے دانش خوشگوار لگتا ہے۔ اسے یہ خیال کبھی پسند نہیں رہا کہ وقت اچھل کر یکایک بگ بینگ سے نکل آیا اور اس سے پہلے وقت کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ کثیر کائناتوں میں ہمارے پاس ابد تک کائناتیں تخلیق ہوتی رہیں گی۔
اس بات کی ایک اور سخن ساز وجہ ہے کہ آیا ریس کیوں کثیر کائناتوں کا تصوّر پسند کرتا ہے۔ اس کے مطابق کائنات میں بہت ہی تھوڑی سی "بدصورتی" موجود ہے۔ مثال کے طور پر زمین کا مدار ہلکا سے بیضوی ہے۔ اگر یہ مکمل بے عیب ہوتا تو الہیات دانوں کی طرح کوئی بھی کہہ سکتا تھا کہ یہ ربّانی مداخلت کی ضمنی پیداوار ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے جو اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ گولڈی لاکس زونوں کے نپے تلے انداز میں کچھ اٹکل پچو پن موجود ہے۔ اسی طرح سے کائناتی مستقل مکمل طور پر صفر نہیں ہے بلکہ اس کی قدر کم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری کائنات اب "کوئی ایسی خاص نہیں ہے جس کو ہماری ضرورت ہے۔" یہ تمام باتیں اس بات سے ہم آہنگ ہیں جس میں کہا جاتا ہے کہ کائنات اٹکل پچو میں حادثے کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں