فلسفی کے بجائے ماہر فلکیات ریس کہتے ہیں کہ سو بات کی ایک بات یہ کہ تمام نظریات کو جانچا جانا باقی ہے۔ اصل میں یہی وجہ ہے کہ آیا وہ کیوں پراسرار نظریات سے مقابلے کرنے کے بجائے کثیر کائناتوں کے تصوّر کے حق میں ہے۔ ان کو یقین ہے کہ کثیر کائنات کا نظریہ اگلے بیس برسوں میں قابل جانچ ہو جائے گا۔
کثیر کائناتوں کے نظریہ میں سے تو اصل میں ایک آج بھی قابل جانچ ہے۔ طبیعیات دان لی اسمولین تو ریس سے بھی آگے چلے گئے ہیں اور اس بات کو فرض کرتے ہیں کہ کائنات کا ارتقا وقوع پذیر ہو رہا ہے اور اس کا مقابلہ وہ ڈارونی ارتقا سے کرتے ہیں ، اس ارتقا کے نتیجے میں کائناتیں بالآخر ہماری کائنات جیسی ہو جائیں گی۔ مثال کے طور پر انتشاری افراط زدہ نظریے میں بچہ کائنات کا طبیعیاتی مستقل اس کی مورث کائنات کے طبیعیاتی مستقل سے تھوڑا سے الگ ہوگا۔ اگر کائنات بلیک ہول سے نکلتی ہے جیسا کہ کچھ طبیعیات دان یقین رکھتے ہیں تو کثیر کائناتوں میں اس کائنات کا غالبہ ہوگا جس میں زیادہ بلیک ہولز موجود ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جیسا کہ جانوروں کی دنیا میں ہوتا ہے ، جو کائنات زیادہ بچے دے گی وہی بالآخر اپنے جینی اطلاع - قدرت کے طبیعیاتی مستقل - کو پھیلانے میں کامیاب ہوگی۔ اگر یہ بات درست ہوئی تو ماضی میں ہماری کائنات کے شاید لامحدود تعداد میں آباؤ اجداد ہوں گے اور ہماری کائنات شاید قدرتی چناؤ کے دسیوں کھرب ہا برسوں پر مشتمل ماضی کی ضمنی پیداوار ہوگی۔ بالفاظ دیگر ہماری کائنات بقائے اصلاح کی ضمنی پیداوار ہوگی یعنی کہ یہ اس کائنات کی اولاد ہوگی جس میں سب سے زیادہ بلیک ہولز موجود ہوں گے۔
ہرچند کائناتوں کے درمیان ڈارونی ارتقا عجیب اور نیا تصوّر ہے، اسمولین یقین رکھتے ہیں کہ اس کو صرف بلیک ہولز کی تعداد کو شمار کرکے جانچا جا سکتا ہے۔ ہماری کائنات بلیک ہولز کو پیدا کرنے کے لئے سب سے زیادہ موزوں ہوگی۔ (بہرحال اس بات کو اب بھی ثابت کرنا ہے کہ زیادہ بلیک ہولز والی کائنات وہی ہیں جو ہماری جیسی حیات کو سہارا دیتی ہیں۔)
کیونکہ خیال قابل جانچ ہے لہٰذا مخالف مثالوں کو بھی زیر غور لایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر قیاسی طور پر کائنات کے پیرامیٹر میں رد و بدل کرکے یہ ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ بلیک ہولز ان کائنات میں فوری پیدا ہوتے ہیں جو حیات سے خالی ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی بھی اس بات کا مظاہرہ کر سکتا ہے کہ ایک کائنات جس میں مضبوط نیوکلیائی قوّت کافی توانا ہو وہ ستاروں کو تیزی سے جلا کر کافی تعداد میں سپرنووا پیدا کر سکتی ہے جو بعد میں منہدم ہو کر بلیک ہولز کی تشکیل کریں گے۔ ایسی کائنات میں نیوکلیائی قوّت کی طاقت میں اضافے کا مطلب ہوگا کہ ستاروں کا دور حیات کافی مختصر ہوگا لہٰذا حیات شروع ہی نہیں ہو سکے گی ۔ لیکن اس کائنات میں ہو سکتا ہے کہ زیادہ بلیک ہولز موجود ہوں، لہٰذا وہ اسمولین کے خیال کو رد کرتے ہیں۔ اس خیال کا فائدہ یہ ہے کہ اس کو جانچا ، دہرایا اور رد کیا جا سکتا ہے( جو کسی بھی سچے سائنسی نظریہ کا طرہ امتیاز ہے )۔ یہ تو وقت ہے بتائے گا کہ یہ تصوّر باقی رہ سکے گا یا نہیں۔
ہرچند کہ ثقب کرم ، سپر اسٹرنگ، اور اضافی جہتیں ہماری حالیہ تجرباتی بساط سے باہر ہیں ، نئے تجربات کیے جا رہے ہیں اور مستقبل کے تجربات کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جو اس بات کا تعین کریں گے کہ آیا یہ نظریات درست ہیں کہ نہیں۔ ہم سائنسی تجربات کے انقلابی دور کے عین درمیان ہیں ، ہمارے پاس سیارچوں کی مکمل قوّت ہے، خلائی دوربینیں ہیں، ثقلی موجوں کے سراغ رساں ہیں اور لیزر ہیں جو ہم ان سوالات کی جانچ کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ان تجربات کی فصل سے حاصل ہونے والے فوائد جلد ہی کونیات کی کچھ گہری چیزوں سے پردہ اٹھائیں گے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں